گھر مل گیا تھا جن کو ، ان کو بام کا مسئلہ رہا۔۔۔برائے اصلاح

شیرازخان

محفلین
گھر مل گیا تھا جن کو ، ان کو بام کا مسئلہ رہا
یہ کیسے مسلم ہیں جنہیں اسلام کا مسئلہ رہا

کورے کڑکتے کا غذوں سے ہاتھ سب کے میلے ہیں
بکتے رہے ہیں سب یہاں بس دام کا مسئلہ رہا

آئیں مری آنکھوں میں وہ اک بار آکر دیکھ لیں
ہو جائے گا حل مجھ پہ جو الزام کا مسئلہ رہا

اک بار جو آیا نظر میں وہ کھٹکتا ہی رہا
جو بد تھا وہ تو بچ گیا بد نام کا مسئلہ رہا

مسئلے مسائل کا یہ اک دفتر رہی ہے زندگی
مسئلہ صبح کا حل کیا تو شام کا مسئلہ رہا

ہم کو پڑا جب کام تو کوئی نہیں شیراز تھا
اُس وقت سب کو اپنے ہی اک کام کا مسئلہ رہا


الف عین
 

الف عین

لائبریرین
بحر سمجھ میں نہیں آئی۔ ہاں، ’مسلا‘ کہا جائے تو مَس ءَ لا حل ہو جاتا ہے۔
ردیف ’کی مشکل رہی‘ کر دیں تو یہ بلنڈر تو ختم ہو سکتا ہے۔ پہلے یہ مسئہ دور ہو جائے پھر دیکھتا ہوں
 

شیرازخان

محفلین
سارے ہی عالم کو انہی آلام کی مشکل رہی
یہ ایسےمسلم ہیں جنہیں اسلام کی مشکل رہی

کورے کڑکتے کا غذوں سے ہاتھ سب کے میلے ہیں
بکتے رہے ہیں سب یہاں بس دام کی مشکل رہی

آئیں مری آنکھوں میں وہ اک بار آکر دیکھ لیں
ہو جائے گا حل مجھ پہ جو الزام کی مشکل رہی

اک بار جو آیا نظر میں وہ کھٹکتا ہی رہا
جو بد تھا وہ تو بچ گیا بد نام کی مشکل رہی

ان مشکلوں کا ہی کوئی دفتر رہی ہے زندگی
حل صبح کی مشکل کی ہے تو شام کی مشکل رہی

ہم کو پڑا جب کام تو کوئی نہیں شیراز تھا
اُس وقت سب کو اپنے ہی اک کام کی مشکل رہی

الف عین
 

الف عین

لائبریرین
مطلع یں ایک فنی نقص ہے جسے ایطا کہتے ہیں۔ کہ ’لام‘ مشترک ہیں۔
کورے کڑکتے کا غذوں سے ہاتھ سب کے میلے ہیں
کی روانی دوسرے حصے کی نشست سے خراب محسوس ہوتی ہے، اسے ییوں کر دو
کورے کڑکتے کا غذوں سے میلے سب کے ہاتھ ہیں

ہو جائے گا حل مجھ پہ جو الزام کی مشکل رہی
۔۔بات مکمل ادا نہیں ہو رہی۔ یہی کہنا چاتے ہو نا کہ خود بخود وہ مسئلہ حل ہو جائے گا، جس کا مجھ پر الزام ہے، اور جو میں وضاحت نہیں کرنے پا رہا ہوں؟؟؟

اک بار جو آیا نظر میں وہ کھٹکتا ہی رہا
جو بد تھا وہ تو بچ گیا بد نام کی مشکل رہی
÷÷پہلا مصرع غلب جگہ ٹوٹ رہا ہے، دو حصوں کی بحر میں ایک حصہ مکمل فقرہ ہو تو بہتر ہے
اک بار جو آیا نظر ، بس وہ کھٹکتا ہی رہا
کر دو

ان مشکلوں کا ہی کوئی دفتر رہی ہے زندگی
حل صبح کی مشکل کی ہے تو شام کی مشکل رہی
÷÷دوسرا مصرع رواں نہیں، بدلو، مشکل کَہے‘ کی وجہ سے،

ہم کو پڑا جب کام تو کوئی نہیں شیراز تھا
اُس وقت سب کو اپنے ہی اک کام کی مشکل رہی
÷÷مقطع دوسرا کہو، ویسے پہلا مصرع یوں ہو سکتا ہے (بشرطیکہ مطلب یہ ہو کہ ہم کو جب کام پڑا تو کوئی سامنے نہیں آیا مدد کے لئے ، سوائے شیراز کے، سب اپنے اپنے مسئلون میں گھرے رہے)
ہم کو ڑا جب کام تب شیراز ہی تنہا ملا
دوسرے مصرع میں اک کام کی وضاحت کی ضرورت ہے، حالانکہ شاید کسی مخسوس خام کی طرف اشارہ نہیں ہے۔
 
Top