"گھر گھر دیپ جلاؤ نا ۔۔۔ ( اقتباس )

سید فصیح احمد

لائبریرین
ابن صفی نام سے زیادہ کام کو اہمیت دیتے تھے۔ شیخی اور تکبر انہیں چھو کر بھی نہیں گزرا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جب ان کے قریبی دوستوں پر ان کے جو ہر کھلتے تھے تو انہیں ایک خوش گوار حیرت سی ہو تی تھی۔ ابن سعید لکھتے ہیں۔ "جنوری 1948ء کی بات ہے۔ میں الٰہ آباد کے ایک سہ روزہ اخبار "نیا دور" میں سب ایڈیٹر تھا۔ اس کا گاندھی نمبر نکالنا تھا۔ میں صبح صبح دفتر جا رہا تھا۔ اسرار نے راستے میں ایک نظم دے دی اور میں نے فیصلہ کر لیا کہ اسے شائع نہیں کرنا ہے اسے ردی کی ٹوکری میں ڈالنے سے پہلے میں نے یونہی سر سری طور پر نظر ڈالی تو ٹھٹک کر رہ گیا۔ نظم کتابت کے لیے دے دی، لیکن شام کو ان سے بڑی سنجیدگی سے کہا۔

"اسرار! وہ نظم اشاعت کے لیے دے دی گئی ہے۔"

کہنے لگے۔ "شکریہ"

میں نے کہا۔ "سمجھ لیجئے۔ جس کی نظم ہو گی وہ مجھے اور آپ کو قبر تک نہیں چھوڑے گا۔"

وہ بولے۔ "کیا مطلب؟"

میں نے کہا۔ "مطلب یہ کہ وہ آپ کی ہے ؟، بولے۔ "تو پھر کس کی ہے ؟"

میں نے کہا۔ "چرائی ہے۔"

بولے۔ "ثابت کر دیجئے تو پانچ روپے دوں گا۔"

میں نے ایک شعر سنایا۔ "یہ تو آپ کا نہیں ہے۔ یہ تو جوشؔ یا فراقؔ کا معلوم ہوتا ہے۔"

بولے "دکھا دیجئے، شاعری ترک کر دوں گا۔"

وہ شعر یہ ہے

لویں اداس چراغوں پہ سوگ طاری ہے
یہ رات آج کی انسانیت پہ بھاری ہے
اب ان کی حیثیت ہمارے حلقے میں ایک شاعر کی سی تھی۔ ایسا شاعر جو فراقؔ، سلامؔ مچھلی شہری اور وامقؔ جونپوری کے سامنے بیٹھ کر نظمیں سناتا تھا۔ اور لوگ حیرت زدہ رہ جاتے تھے۔

1947ء کی تقسیم ہندوستان نے ابن صفی کے ذہن پر خوشی اور غم کا ملا جلا تاثر رقم کیا تھا۔ شاعر ایک طرف تو اس بات پر خوش تھا کہ دیس کو آزادی مل گئی اور غیر ملکی آقا ہمیشہ کے لئے مادر وطن سے چلے گئے لیکن دوسری طرف مذہب کے نام پر ہونے والی خوں ریزی اور تباہی کو دیکھ کر اس کا دل خون کے آنسو رو رہا تھا۔

1947ء میں لکھی جانے والی آزادی کے موضوع پر نظم کا لہجہ طنزیہ ہے۔ اس نظم کا ٹیپ کا مصرع "گھر گھر دیپ جلاؤ نا" پوری نظم کے پس منظر میں گہری معنویت کا حامل ہے

آزادی کی دیوی آئی، خوشیاں آج مناؤ نا
اے دکھیارو آنسو پونچھو، میں کہتا ہوں گاؤ نا
بھول ہی جاؤ فاقہ کش ہو، گھر گھر دیپ جلاؤ نا
گھر گھر دیپ جلاؤ نا​

( ابن صفی از شکیل صدیقی سے اقتباس)
 
آخری تدوین:

جیہ

لائبریرین
اچھا انتخاب ہے۔ افسوس مجھے ابن صفی کو پڑھنے کا موقع نہیں ملا
 

سید فصیح احمد

لائبریرین
عمدہ شراکت
میری نظر میں ابنِ صفی شاعری سے نثر نگاری میں بہت بہتر تھے
آپی درست کہا ،،، یہ تو بس شکیل صدیقی کی کتاب ہاتھ لگی تو اس گیت کا معلوم پڑا کہ ابن صفی کا ہے ،،، میری نانی جان ( اللہ ان کی مغفرت فرمائے ) اسے گنگنایا کرتی تھیں ،، تبھی یہ ٹکڑا دل کو بھا گیا ۔۔۔۔۔ ابن صفی کے ناول جیسے جونک کی واپسی ، صحرائی دیوانہ ، جہنم کی رقاصہ بہت پسند ہیں ،،، اور عمران سیریز جب تک اسرار صاحب کے تحت رہی لطف آمیز رہی ( میرے خالہ زاد بھائی لایا کرتے تھے اقبال لائبریری سے تبھی شوق ہوا تھا ) اس کے بعد تو ،،،، خیر کیا کہوں بس کہ عمران سیریز پڑھنا چھوڑ دیا !!
 

صائمہ شاہ

محفلین
آپی درست کہا ،،، یہ تو بس شکیل صدیقی کی کتاب ہاتھ لگی تو اس گیت کا معلوم پڑا کہ ابن صفی کا ہے ،،، میری نانی جان ( اللہ ان کی مغفرت فرمائے ) اسے گنگنایا کرتی تھیں ،، تبھی یہ ٹکڑا دل کو بھا گیا ۔۔۔ ۔۔ ابن صفی کے ناول جیسے جونک کی واپسی ، صحرائی دیوانہ ، جہنم کی رقاصہ بہت پسند ہیں ،،، اور عمران سیریز جب تک اسرار صاحب کے تحت رہی لطف آمیز رہی ( میرے خالہ زاد بھائی لایا کرتے تھے اقبال لائبریری سے تبھی شوق ہوا تھا ) اس کے بعد تو ،،،، خیر کیا کہوں بس کہ عمران سیریز پڑھنا چھوڑ دیا !!
پسندیدہ کلام میں ابنِ صفی کا کچھ کلام موجود ہے اگر آپ دیکھنا چاہیں
 

سید فصیح احمد

لائبریرین
بہت خوب انتخاب ہے فصیح بھائی ۔۔۔ !

خوش رہیے۔ :)
جزاک اللہ احمد بھائی :) :) ،،،، مجھے لگا بہت سے دوست بس اسرار صاحب کی شہرت کے ایک ہی باب سے آگاہ ہوں گے ( بالخصوص ناول نگاری ) ،،،، جبکہ ابن صفی کی داستاں کا یہ حصہ بھی دِل گرفت ہے ،،، :) :)
 
Top