گھناؤنی شازش مکمل ناولٹ

Ali mujtaba 7

لائبریرین
اس دھاگے میں گھناؤنی سازش کی تمام اقساط اپ لوڈ ہوں گی
گھناؤنی سازش قسط نمبر 1
رائٹر علی مجتبیٰ
ایک بندہ تھانے میں داخل ہوا۔۔انسپکٹر نے کہا السلام علیکم۔ آپ کون ہیں۔تھانے میں داخل ہونے والے بندے نے کہا وعلیکم السلام ۔میرا نام عمیر ہے۔مجھے ایک بہت بڑے ۔مسلے کا سامنا ہے۔انسپکٹر حیدر نے کہا جی کون سا مسلہ ہے۔عمیر نے کہا میں ایک سکول چلاتا ہو۔جس میں میں بچوں کو مفت تعلیم دیتا ہوں۔لیکن مجھے کچھ دنوں پہلے کسی شخص نے کال کی تھی اور مجھے دھمکی دی تھی کے بچوں کو مفت پڑھانا چھوڑ دو ورنہ میں تمہارے خاندان کو تباہ اور برباد کردوں گا۔لیکن میں نے اس کی دھمکی کو نظر انداز کیا اور پڑھاتا رہا لیکن آج میرے بھائی جب آفس سے گھر واپس آرہے تھے کہ کچھ لوگ موٹر سائیکل میں بیٹھے ہوئے آئے اور میرے بھائی کو قتل کردیا۔کچھ دیر بعد مجھے میرے کسی رستے دار نے کال کی اور کہا ۔عمیر بھیا۔جلدی سے ہسپتال آئیں۔میں نے پریشانی کے عالم میں کہا کیوں۔تو اس نے جواب دیا۔کہ آپ کے بھائی کو میں نے سڑک میں زخمی حالت میں دیکھا۔تو میں آپ کے بھائی کو ہسپتال لے گیا۔مجھے پریشانی کی وجہ سے صدمہ لگا۔میں نے سوچا کہ میرے بھائی کو زخمی ضرور اس دھمکی دینے والے نے کیا ہوگا۔
(جاری ہے)
 
آخری تدوین:

لاریب مرزا

محفلین
ایک اور قسط وار کہانی۔ خوب :)
ہمارا مشورہ ہے کہ اس کی دوسری، تیسری، چوتھی جتنی بھی اقساط ہوں گی ان کو نیا دھاگہ کھولنے کے بجائے اسی دھاگے میں قسط نمبر دے کر پوسٹ کرتے جائیں۔ :)
اور عنوان درست کر لیں۔ یہ لفظ "گھناؤنی" ہے "گھنونی" نہیں۔
 

ظفری

لائبریرین
ایک اور قسط وار کہانی۔ خوب :)
ہمارا مشورہ ہے کہ اس کی دوسری، تیسری، چوتھی جتنی بھی اقساط ہوں گی ان کو نیا دھاگہ کھولنے کے بجائے اسی دھاگے میں قسط نمبر دے کر پوسٹ کرتے جائیں۔ :)
اور عنوان درست کر لیں۔ یہ لفظ "گھناؤنی" ہے "گھنونی" نہیں۔

اور ۔۔۔۔ "شازش" کو بھی سازش کرلیں ۔ :)
 
آخری تدوین:

Ali mujtaba 7

لائبریرین
گھناؤنی سازش قسط نمبر 2
رائٹر علی مجتبیٰ
انسپکٹر حیدر نے کہا تو کیا اس دھمکی دینے والے نے تمہیں دوبارہ کال کی۔عمیر نے کہا ہاں۔جب مجھے پتا چلا تھا کہ میرا بھائی زخمی ہے۔اور وہ ہسپتال میں ہے۔میرے رستہ دار جس نے مجھے بتایا تھا کہ میرا بھائی زخمی ہے۔اس نے یہ بھی بتایا تھا کہ میرے بھائی کو وہ کس ہسپتال میں لے کر گیا ہے۔جب میں اس ہسپتال پہنچا۔اپنے اس رستہ دار سے ملا جس نے مجھے بتایا تھا کہ میرا بھائی زخمی تھا۔پھر تھوڑی دیر بعد ڈاکٹر صاحب امیرجنسی روم سے نکلے ۔میں نے ان سے پوچھا کہ کیا میرا بھائی ٹھیک ہے۔ڈاکٹر نے کہا معاف کیجئے۔آپ کا بھائی اس دنیا میں نہیں رہا۔وہ اب اس دنیا میں پہنچ گیا ہے جو کبھی ختم نہیں ہوگی۔میں ڈاکٹر صاحب کی یہ بات سنتے ہی میری پریشانی کی وجہ سے عجیب سی کیفیت ہوئی اور میں بے ہوش ہوگیا۔میرے رستہ دار نے مجھے جگایا۔میں اٹھتے ساتھ ہی بے تحاشہ رونے لگا۔میرے رستہ دار جس کا نام احمد تھا نے کہا کہ بھائی نا رو یہ دنیا فانی ہے۔سب نے کبھی نا کبھی اس دنیا سے چلے ہی جانا ہے مت رو۔ابھی مجھے اٹھے ہوئے زیادہ وقت نہیں ہوا تھا کہ مجھے دھمکی دینے والے کی کال آئی۔میں نے کال انٹینڈ کی تو دھمکی دینے والے نےکہا میں نے کہا تھا نا کہ تم سکول بند کردو۔لیکن تم نے نہیں کیا۔اب تم نے اس کا انجام تو اپنی آنکھوں سے دیکھ ہی لیا ہوگا۔آگر تم نے اپنا سکول بند نا کیا تو تمہارے خاندان کے باقی لوگوں کو بھی میں مار دوں گا۔پھر دھمکی دینے والے شخص نے کال معطل کی۔تو میں نے سوچا کہ اب تو اس دھمکی کے بارے میں پولیس کو بتانا ہی پڑے گا۔پھر میں آپ کے پاس،آگیا
(جاری ہے)
 

Ali mujtaba 7

لائبریرین
گھناؤنی سازش قسط نمبر 3
انسپکٹر حیدر نے کچھ سوچا پھر کہا کیا آپ دھمکی دینے والے کا نمبر بتا سکتے ہیں۔عمیر نے کہا لیکن دھمکی دینے والا شخص ہر دفعہ الگ نمبر سے فون کرتا ہے۔انسپکٹر حیدر نے کہا کیا آپ وہ دونوں نمبر مجھے بتا سکتے ہیں۔عمیر نے کہا لیکن ان نمبر سے آپ کیا کریں گے۔انسپکٹر حیدر نے کہا آپ وہ دونوں نمبر بتائیں تاکہ ہم اس دھمکی دینے والے کو پکڑ سکیں۔لیکن ہم آپ کو یہ نہیں بتاسکتے کہ ہم ان نمبر کے ذریعے دھمکی دینے والے کو کیسے پکڑیں گے۔عمیر نے کہا ٹھیک ہے۔عمیر نے انسپکٹر حیدر کو وہ دونوں نمبر بتائے۔پھر اپنے گھر واپس چلا گیا
(جاری ہے)
 
آخری تدوین:

Ali mujtaba 7

لائبریرین
گھناؤنی سازش چوتھی قسط
رائٹر علی مجتبیٰ
انسپکٹر حیدر حسن کے گئے۔حسن نے انسپکٹر حیدر کو کہا السلام علیکم۔انسپکٹر حیدر نے جواب دیا وعلیکم السلام۔حسن نے کہا آپ کھڑے کیوں ہیں صوفے لر بیٹھ جائیں۔انسپکٹر حیدر نے کہا شکریہ۔حسن آپ بھی صوفے پر بیٹھ جائیں۔حسن نے کہا جی کوئی فرق نہیں پڑتا۔انسپکٹر حیدر نے کہا نہیں یہ ٹھیک بات نہیں ہے کہ ایک جگہ دو بندے ہوں۔ان میں سے صرف ایک بندہ بیٹھے دوسرا کھڑا رہے۔حسن نے کہا ٹھیک ہے بیٹھ جاتا ہوں۔انسپکٹر حیدر نے حسن سے کہا آپ پروفیسر عامر کے شاگرد بھی رہ چکے ہیں۔آپ سے ایک درخواست ہے کہ آپ ایک ایسی ایجاد بنائیں جس کی مدد سے ہمیں ہتا چل جائے کے فون کال کہاں سے آئی ہے۔مثال کے طور پر مجھے ابھی ایک کال آتی ہے تو مجھے اس ایجاد کی مدد سے پتا چل جائے کے کال کہاں سے آئی ہے۔حسن نے کہا ٹھیک ہے کوشش کروں گا۔انسپکٹر حیدر نے کہا ایجاد کب تک بن جائے گی۔حسن نے کہا کوشش کروں گا کہ ایک ہفتے تک بن جائے۔انسپکٹر حیدر نے کہا ٹھیک ہے لیکن کوشش کرنا کہ ایک ہفتے سے پہلے پہلے بنا دو۔ایک کیس کا مسلہ ہے۔اس لئے جلدی بنانے کا کہہ رہا ہوں۔حسن نے کہا ٹھیک ہے۔جب بن جائی گی ایجاد آپ کو فون کرکے بتا دوں گا۔انسپکٹر حیدر نے کہا ٹھیک ہے۔پھر انسپکٹر حیدر حسن کے گھر سے باہر آگئے۔
(جاری ہے)
 

Ali mujtaba 7

لائبریرین
گھناؤنی سازش آخری قسط
رائٹر علی مجتبیٰ
اگلے دن عمیر دوبارہ تھانے میں آیا۔لیکن اس بار اس کی حالت پہلے سے بہت زیادہ بری تھی۔وہ چکر کھاتے ہوئے آرہا تھا۔اس کی آنکھوں سے آنسو نکل رہے تھے۔انسپکٹر حیدر نے جب عمیر کی یہ حالت دیکھی تو اسے کہا عمیر کیا ہوا ہے۔عمیر نے کہا السلام علیکم۔کیا کہوں اب آپ کو۔میں آج جب اپنے سکول سے واپس اپنے گھر جانے لگا۔تو مجھے ایک کال آئی۔کال شاید دھمکی دینے والے کی تھی۔کال کرنے والے نے مجھے کہا میں نے تمہیں کہا تھا ناکہ سکول بند کردو لیکن تم نے میری بات نہیں مانی ۔اب دیکھنا میں کیا کروں گا۔میں نے پریشانی کے عالم میں کہا کیا کرو گے۔کال کرنے والے نے کہا جب اپنے گھر پہنچو گے تب پتا چلے گا۔یہ کہہ کر کال کرنے والے نے کال معطل کردی ۔جب میں اپنے محلے میں داخل ہوا اور اپنے گھر کے دروازے پر پہنچا تو میں گرتے گرتے بچا۔میں نے دیکھا کہ میرے گھر میں آگ لگ گئی ہے۔میں گھر کے اندر داخل ہونے کی جب بھی کوشش کرتا میرے پڑوسی مجھے اندر نا جانے دیتے۔کہتے کہ کیوں اپنی موت کو دعوت دے رہے ہو۔فائر بریگیڈ کو فون کیا ہے وہ آئیں گے تو آگ بجھا دیں گے۔تو میں کہتا جی موت تو انی ہی انی ہے۔اور پتا نہیں فائر بریگیڈ والے کب آئیں گے۔تو وہ کہتے اپنی موت کو دعوت خود دینا خودکشی کرنے کے مترادف ہے۔اور خودکشی کرنے والے۔کا ٹھکانہ جہنم ہے۔تو میں کہتا کسی کو مدد کرتے ہوئے یا کسی کی جان بچاتے ہوئے مر جانا خودکشی نہیں بلکہ شہادت ہے کیونکہ ہماری فوج بھی تو ہر وقت اپنی جان کی پروا کیے بغیر ہماری سرحوں کی حفاظت کرتے ہوئے شہید ہوجاتے ہیں۔تو کیا یہ شہادت نہیں۔اتنی دیر میں فائر بریگیڈ کے لوگ آگئے۔وہ میرے گھر میں داخل ہوئے۔آگ بجھائی۔لیکن جب وہ میرے گھر سے باہر آئے تو انہوں نے مجھے جو بات بتائی وہ سن کر میرے رونگٹے اٹھ گئے۔انہوں نے مجھے جو بات کہی تھی وہ یہ تھی کہ گھر کے سارے افراد مر گئے ہیں۔پھر میں آپ کے پاس آگیا۔انسپکٹر حیدر نے کہا وعلیکم السلام۔یہ تو بہت برا ہوا۔عمیر ابھی تھانے میں موجود ہی تھا کہ اچانک عمیر کو کال آئی۔عمیر نے کال اٹھائی۔انسپکٹر حیدر نے اشارے سے پوچھا کہ کس کی کال ہے۔تو عمیر نے اشارے سے جواب دیا دھمکی دینے والے کی۔انسپکٹر حیدر نے اشارے سے کہا مجھے دو۔عمیر نے اپنا فون انسپکٹر حیدر کو دیا۔فون کرنے والا کہہ رہا تھا کہ عمیر آگر تم نے کل اپنا سکول بند نا کیا تو میں تمہارے سکول پر دھماکہ کردوں گا۔یہ کہہ کر کال کرنے والے نے کال معطل کردی۔عمیر نے کہا کیا کہا ہے کال کرنے والے نے۔انسپکٹر حیدر نے کہا کال کرنے والے نے کہا کہ آگر تم نے کل اپنا سکول بند نا کیا تو میں تمہارے سکول پر دھماکہ کردوں گا۔عمیر نے کہا اب کیا ہوگا۔انسپکٹر حیدر نے کہا کل دھمکی دینے والا پکڑا جائے گا۔عمیر نے کہا کیسے۔انسپکٹر حیدر نے کہا میں کل آپ کے سکول پر ٹیچر بن کر جاؤں گا۔عمیر نے کہا ٹھیک ہے لیکن کیوں۔انسپکٹر حیدر نے کہا یہ بات نہیں بتا سکتا۔اگلے دن انسپکٹر حیدر سکول میں ٹیچر کے روپ میں داخل ہوئے۔انسپکٹر حیدر نے اپنا بیس اس طرح بدلہ تھا۔کہ انسپکٹر حیدر خود کو بھی پہچان نہیں پارہے تھے۔انسپکٹر حیدر سٹاف روم میں داخل ہوئے۔ بریک ٹائم انسپکٹر حیدر نے سٹاف روم میں موجود اساتذہ میں سے ایک استاد کو دیکھا جس نے اپنے ہاتھ میں ایک لفافہ اٹھایا۔اور سٹاف روم سے نکل گیا۔انسپکٹر حیدر نے اس کا پیچھا کیا۔انسپکٹر حیدر نے دیکھا کہ وہ استاد مین سوچ کے قریب پہنچے۔اور لفافے سے بم نکالا۔ابھی وہ استاد بم مین سوچ پر پھینکنے ہی والے تھے کہ انسپکٹر حیدر نے اس کا ہاتھ پکڑا اس شخص سے بم چیھنا اور کہا تمہارا کھیل ختم۔حسن تم نے ایسا کیوں کیا۔دھمکی دینے والا کوئی اور نہیں بلکہ حسن ہی تھا۔اتفاق سے اس جگہ سے عمیر کا بھی گزر ہوا۔انسپکٹر حیدر نے عمیر سے کہا کہ حسن نے ہی آپ کو دھمکی دی تھی۔حسن عمیر کے سکول میں سائنس کا ٹیچر تھا۔انسپکٹر حیدر نے حسن سے کہا تم نے ایسا کیوں کیا۔حسن نے کہا اس سکول کے سامنے میرا ایک سکول تھا۔لیکن جب یہ سکول کھولہ تو میرے سکول کے تمام شاگرد اس سکول میں چلے گئے۔جس کی وجہ سے مجھے اپنا سکول بندد کرنا پڑا۔ میرے سکول کے تمام شاگرد اس سکول میں چلے گئے۔ کیونکہ اس سکول میں تعلیم اعلی سٹینڈرڈ کی ہے اور پڑھائی بھی مفت ہے۔پھر میں نے سوچا کہ اس سکول کو بند کرادوں اس لیے میں نے اس،سکول میں استاد کی نوکری کی اور عمیر کو دھمکی دینا شروع کی۔انسپکٹر حیدر نے کہا حسن تم نے سکول تباہ کرنے کی کوشش کی اور عمیر کے گھر والوں کو مارا اس لیے تمہیں پھانسی ہوگی
ختم شد
 
Top