گھومنا دلی کی گلیوں میں
از ڈاکٹر ظہور احمد اعوان۔۔۔بشکریہ اج پشاور
بعض شہروں کے متعلق کہا جاتا ہے کہ ان کی اپنی ایک خوشبو ہوتی ہے‘ آنکھیں بند کر کے رات کو بھی وہاں اترو تو پتہ چل جاتا ہے کہ کس شہر میں ہیں‘ مثلاً لاہور‘ دلّی‘ پشاور‘ کولکتہ وغیرہ۔ پشاور شہر کی گلیوں میں تو ہم پیدا ہوئے‘ پلے بڑھے‘ لاہور بھی آنا جانا رہتا ہے البتہ دلّی جانے کا اتفاق پہلی مرتبہ 1997ء میں ہوا‘ جن دنوں میں حکیم سعید شہید پر کتابِ سعید لکھ رہا تھا تو حکیم صاحب نے حکم دیا کہ ایک مرتبہ دلّی کو دیکھ لو اس کی مہک کو سونگھ لو پھر تم حکیم سعید سے واقف ہو جاؤ گے۔
میں دلّی گیا اور ایک ماہ ٹھہرا‘ بھارت میں اب بھی شہروں کے ویزے ملتے ہیں‘ آپ کا ویزہ دلّی کا ہے تو آپ لکھنؤ نہیں جا سکتے حتیٰ کہ آگرہ بھی نہیں۔ خیر میں نے ایک ماہ دلّی میں ہی گزارا‘ میرے میزبانوں نے ایک موٹر‘ ایک ڈرائیور اور ایک گائیڈ میرے ڈسپوزل پر رکھ چھوڑا تھا مگر میری سیاحت کا کوئی اور ہی انداز ہے‘ میں با جلسہ و جلوس سیاحت نہیں کر سکتا اس لئے اپنے عملے سے کہتا کہ مجھے دلّی کے کسی دروازے پر اتار آؤ اور تم جاؤ‘ واپسی کا بس نمبر نوٹ کر لیتا تھا اور واپسی بسوں کے ذریعے کرتا اور دلّی کی اصل اور اصلیت کو دیکھتا تھا۔ میں دن کا کھانا بھی چلتے پھرتے ادھر اُدھر سے کھا لیتا تھا۔
ایک سیانے نے کہہ رکھا تھا کہ سیاحت کے دوران دوپہر کا کھانا مت کھاؤ صرف لسی اور دہی پر گزارا کرو چنانچہ میں چلتے پھرتے گاڑھے دہی کا ایک قد آدم گلاس لے کر پی لیتا‘ معدہ بھی ٹھنڈا اور بھرا ہوا‘ پانی کی موجودگی بھی لازمی‘ چنانچہ دن بڑا اچھا گزر جاتا تھا۔ ایک دن دلّی کی گلیوں میں گھومتے میرا جی کھانے پر بہت چاہا اور میں نے خوب پیٹ بھر کر ایسا کھانا کھایا جسے میں کبھی بھلا نہیں پاؤں گا۔ کسی چھوٹی سی گلی میں ایک بڑھیا مائی اپنے دروازے کی دہلیز پر چولہا رکھے پھلکے پکا رہی تھی اور ساتھ دال مفت میں دے رہی تھی اور اچار بھی‘ وہ پکاتی گئی اور میں کھاتا گیا‘ بزرگ خاتون بار بار میرے منہ کی طرف دیکھتی کہ وہاں تو لوگ صرف دو پھلکوں پر گزارا کرتے ہیں اور میں آٹھ دس کھا گیا تھا۔
خیر اس نے جتنی قیمت مانگی میں نے دوگنی ادا کی اور ایک مسجد میں جا کر تھوڑی دیر کے لئے سو گیا۔ دلّی مسجدوں‘ مقبروں اور تاریخی عمارات کا میوزیم ہے‘ دلّی کے کسی دروازے پر بھی اتریں اور اندر چلتے جائیں قدم قدم پر آپ کو کوئی نہ کوئی بڑی تاریخی عمارت ملے گی۔ میں چاندنی چوک بھی گیا جہاں چاندنی تھی نہ چوک‘ بس ہجوم‘ ہلا گلا اور سائیکل رکشوں کی فراوانی۔ یہ انسان کش رکشے اکثر مسلمان ہی چلاتے تھے کیونکہ مسلمان وہاں غریب و پسماندہ تھے‘ میں نے 70-70 برس کے بوڑھوں اور بارہ تیرہ سال کے بچوں کو انسانی رکشے گھسیٹتے دیکھا تو بے اختیار آنکھوں میں آنسو آ گئے۔
دلّی میں تاریخی عمارات پر بھاری ٹکٹ عائد ہے‘ خاص طور پر غیر ملکیوں پر۔ اِدھر میں دیکھنے میں پورا ہندوستانی بلکہ پیدائشی ہندوستانی کیونکہ جب میں پیدا ہوا اس وقت پاکستان نہیں بنا تھا‘ اپنی اسی بھارتی ہیئت کذائی کا میں خوب فائدہ اٹھاتا تھا‘ مثلاً تاج محل میں داخلے کا ٹکٹ بھارتی کے لئے دس روپے اور غیر ملکی کے لئے ایک ہزار روپے یہاں مجھے بھارتی بننے میں دیر نہ لگی۔ یہ نصیحت پہلے سے کسی نے گانٹھ میں باندھ دی تھی کہ پاکستانی لباس نہ پہننا‘ یہ سیکیورٹی کے لحاظ سے بھی بہتر تھا چنانچہ میں بنا بنایا پاکستانی انڈین کلچر کے مزے لوٹتا رہا۔
آگرہ میں بغیر ویزے کے گیا‘ پکڑا جاتا تو نہ جانے کتنی مدت بغیر مقدمے کے جیل میں بند رہتا۔ میں نے دلّی کے چپے چپے کو پیدل چل کر دیکھا‘ خاص طور پر چاندنی چوک کی وہ مسجد جہاں کھڑے ہو کر نادر شاہ نے دلّی کے قتل عام کا حکم دیا تھا اور کہا تھا کہ جب تک میری تلوار نیام میں نہ جائے دلّی کے سب باشندوں کو قتل کر دیا جائے‘ جب سب جوان مار دیئے گئے تو چند بزرگوں نے پگڑیاں گلے میں ڈال کر بادشاہ سے درخواست کی کہ سب تو مر چکے اب حکم کریں کہ سب ایک بار پھر زندہ ہو جائیں تاکہ آپ دوبارہ ان کو قتل کر سکیں۔ یہ سن کر بادشاہ نے تلوار نیام میں ڈال لی یوں یہ قتل عام بند ہوا۔
دلّی دیکھنے کے لائق شہر ہے‘ پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد سے بہت غریب اور بدصورت مگر اس میں تاریخ کی جو خوشبو شامل ہے اس کا ایک ذرہ بھی اسلام آباد کو نہیں ملا۔ اسلام آباد سفید سنگ مرمر کا ایک خوبصورت مجسمہ ہے مگر روح سے خالی‘ دلی زندگی کی حرارت سے بھرا اور تاریخ کی چاپ سے گونجتا ایک عجائب گھر ہے۔ کم از کم ایک مہینے میں آپ پوری نئی پرانی دلّی کو نہیں دیکھ سکتے۔ اسلام آباد کو صرف ایک دن میں دیکھا جاتا ہے‘ کیونکہ یہاں پتھر‘ سریا‘ اینٹیں‘ مرمر بستا ہے دلّی میں دھڑکتے دل آباد ہیں۔
از ڈاکٹر ظہور احمد اعوان۔۔۔بشکریہ اج پشاور
بعض شہروں کے متعلق کہا جاتا ہے کہ ان کی اپنی ایک خوشبو ہوتی ہے‘ آنکھیں بند کر کے رات کو بھی وہاں اترو تو پتہ چل جاتا ہے کہ کس شہر میں ہیں‘ مثلاً لاہور‘ دلّی‘ پشاور‘ کولکتہ وغیرہ۔ پشاور شہر کی گلیوں میں تو ہم پیدا ہوئے‘ پلے بڑھے‘ لاہور بھی آنا جانا رہتا ہے البتہ دلّی جانے کا اتفاق پہلی مرتبہ 1997ء میں ہوا‘ جن دنوں میں حکیم سعید شہید پر کتابِ سعید لکھ رہا تھا تو حکیم صاحب نے حکم دیا کہ ایک مرتبہ دلّی کو دیکھ لو اس کی مہک کو سونگھ لو پھر تم حکیم سعید سے واقف ہو جاؤ گے۔
میں دلّی گیا اور ایک ماہ ٹھہرا‘ بھارت میں اب بھی شہروں کے ویزے ملتے ہیں‘ آپ کا ویزہ دلّی کا ہے تو آپ لکھنؤ نہیں جا سکتے حتیٰ کہ آگرہ بھی نہیں۔ خیر میں نے ایک ماہ دلّی میں ہی گزارا‘ میرے میزبانوں نے ایک موٹر‘ ایک ڈرائیور اور ایک گائیڈ میرے ڈسپوزل پر رکھ چھوڑا تھا مگر میری سیاحت کا کوئی اور ہی انداز ہے‘ میں با جلسہ و جلوس سیاحت نہیں کر سکتا اس لئے اپنے عملے سے کہتا کہ مجھے دلّی کے کسی دروازے پر اتار آؤ اور تم جاؤ‘ واپسی کا بس نمبر نوٹ کر لیتا تھا اور واپسی بسوں کے ذریعے کرتا اور دلّی کی اصل اور اصلیت کو دیکھتا تھا۔ میں دن کا کھانا بھی چلتے پھرتے ادھر اُدھر سے کھا لیتا تھا۔
ایک سیانے نے کہہ رکھا تھا کہ سیاحت کے دوران دوپہر کا کھانا مت کھاؤ صرف لسی اور دہی پر گزارا کرو چنانچہ میں چلتے پھرتے گاڑھے دہی کا ایک قد آدم گلاس لے کر پی لیتا‘ معدہ بھی ٹھنڈا اور بھرا ہوا‘ پانی کی موجودگی بھی لازمی‘ چنانچہ دن بڑا اچھا گزر جاتا تھا۔ ایک دن دلّی کی گلیوں میں گھومتے میرا جی کھانے پر بہت چاہا اور میں نے خوب پیٹ بھر کر ایسا کھانا کھایا جسے میں کبھی بھلا نہیں پاؤں گا۔ کسی چھوٹی سی گلی میں ایک بڑھیا مائی اپنے دروازے کی دہلیز پر چولہا رکھے پھلکے پکا رہی تھی اور ساتھ دال مفت میں دے رہی تھی اور اچار بھی‘ وہ پکاتی گئی اور میں کھاتا گیا‘ بزرگ خاتون بار بار میرے منہ کی طرف دیکھتی کہ وہاں تو لوگ صرف دو پھلکوں پر گزارا کرتے ہیں اور میں آٹھ دس کھا گیا تھا۔
خیر اس نے جتنی قیمت مانگی میں نے دوگنی ادا کی اور ایک مسجد میں جا کر تھوڑی دیر کے لئے سو گیا۔ دلّی مسجدوں‘ مقبروں اور تاریخی عمارات کا میوزیم ہے‘ دلّی کے کسی دروازے پر بھی اتریں اور اندر چلتے جائیں قدم قدم پر آپ کو کوئی نہ کوئی بڑی تاریخی عمارت ملے گی۔ میں چاندنی چوک بھی گیا جہاں چاندنی تھی نہ چوک‘ بس ہجوم‘ ہلا گلا اور سائیکل رکشوں کی فراوانی۔ یہ انسان کش رکشے اکثر مسلمان ہی چلاتے تھے کیونکہ مسلمان وہاں غریب و پسماندہ تھے‘ میں نے 70-70 برس کے بوڑھوں اور بارہ تیرہ سال کے بچوں کو انسانی رکشے گھسیٹتے دیکھا تو بے اختیار آنکھوں میں آنسو آ گئے۔
دلّی میں تاریخی عمارات پر بھاری ٹکٹ عائد ہے‘ خاص طور پر غیر ملکیوں پر۔ اِدھر میں دیکھنے میں پورا ہندوستانی بلکہ پیدائشی ہندوستانی کیونکہ جب میں پیدا ہوا اس وقت پاکستان نہیں بنا تھا‘ اپنی اسی بھارتی ہیئت کذائی کا میں خوب فائدہ اٹھاتا تھا‘ مثلاً تاج محل میں داخلے کا ٹکٹ بھارتی کے لئے دس روپے اور غیر ملکی کے لئے ایک ہزار روپے یہاں مجھے بھارتی بننے میں دیر نہ لگی۔ یہ نصیحت پہلے سے کسی نے گانٹھ میں باندھ دی تھی کہ پاکستانی لباس نہ پہننا‘ یہ سیکیورٹی کے لحاظ سے بھی بہتر تھا چنانچہ میں بنا بنایا پاکستانی انڈین کلچر کے مزے لوٹتا رہا۔
آگرہ میں بغیر ویزے کے گیا‘ پکڑا جاتا تو نہ جانے کتنی مدت بغیر مقدمے کے جیل میں بند رہتا۔ میں نے دلّی کے چپے چپے کو پیدل چل کر دیکھا‘ خاص طور پر چاندنی چوک کی وہ مسجد جہاں کھڑے ہو کر نادر شاہ نے دلّی کے قتل عام کا حکم دیا تھا اور کہا تھا کہ جب تک میری تلوار نیام میں نہ جائے دلّی کے سب باشندوں کو قتل کر دیا جائے‘ جب سب جوان مار دیئے گئے تو چند بزرگوں نے پگڑیاں گلے میں ڈال کر بادشاہ سے درخواست کی کہ سب تو مر چکے اب حکم کریں کہ سب ایک بار پھر زندہ ہو جائیں تاکہ آپ دوبارہ ان کو قتل کر سکیں۔ یہ سن کر بادشاہ نے تلوار نیام میں ڈال لی یوں یہ قتل عام بند ہوا۔
دلّی دیکھنے کے لائق شہر ہے‘ پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد سے بہت غریب اور بدصورت مگر اس میں تاریخ کی جو خوشبو شامل ہے اس کا ایک ذرہ بھی اسلام آباد کو نہیں ملا۔ اسلام آباد سفید سنگ مرمر کا ایک خوبصورت مجسمہ ہے مگر روح سے خالی‘ دلی زندگی کی حرارت سے بھرا اور تاریخ کی چاپ سے گونجتا ایک عجائب گھر ہے۔ کم از کم ایک مہینے میں آپ پوری نئی پرانی دلّی کو نہیں دیکھ سکتے۔ اسلام آباد کو صرف ایک دن میں دیکھا جاتا ہے‘ کیونکہ یہاں پتھر‘ سریا‘ اینٹیں‘ مرمر بستا ہے دلّی میں دھڑکتے دل آباد ہیں۔