عرفان سعید
محفلین
(فراز سے معذرت)
گھڑی میری وہ اٹھا لے گیا جاتے جاتے
"ورنہ اتنے تو مراسم تھے کہ آتے جاتے"
ہر گھڑی بیوی کے شکوے سے کہیں بہتر تھا
ایک دو سوٹ مہینے میں دلاتے جاتے
سامنے میری گلی میں وہ رہا کرتی تھی
پھر بھی اک عمر لگی ساس کو جاتے جاتے
جشنِ دھرنا ہی نہ برپا ہوا ورنہ ہم بھی
چڑھ کے بس پر ہی سہی ناچتے گاتے جاتے
"اس کی وہ جانے اُسے پاسِ وفا تھا کہ نہ تھا"
اپنی ہی جیب بھرو، چونا لگاتے جاتے
۔۔۔ عرفان ۔۔۔
گھڑی میری وہ اٹھا لے گیا جاتے جاتے
"ورنہ اتنے تو مراسم تھے کہ آتے جاتے"
ہر گھڑی بیوی کے شکوے سے کہیں بہتر تھا
ایک دو سوٹ مہینے میں دلاتے جاتے
سامنے میری گلی میں وہ رہا کرتی تھی
پھر بھی اک عمر لگی ساس کو جاتے جاتے
جشنِ دھرنا ہی نہ برپا ہوا ورنہ ہم بھی
چڑھ کے بس پر ہی سہی ناچتے گاتے جاتے
"اس کی وہ جانے اُسے پاسِ وفا تھا کہ نہ تھا"
اپنی ہی جیب بھرو، چونا لگاتے جاتے
۔۔۔ عرفان ۔۔۔