کاشفی

محفلین
غزل
(ثاقب جالندھری - 1900ء)

گہرے تعلقات ہیں اُس رنگ و بُو کے ساتھ
جنّت رگوں میں دوڑ رہی ہے لہو کے ساتھ

گزرے گی جس طرح بھی گزاریں گے زندگی
وعدہ نباہ کا ہے ہر اِک آرزو کے ساتھ

یہ جانتی ہے سوختہ سامانیوں کا راز
صحرا نہ جل اُٹھے مری آوازِ ہُو کے ساتھ

ہے اضطراب اور بلا کا ہے اضطراب
بجلی سی دوڑتی ہے رگو ں میں لہو کے ساتھ

بے لطفیء حیات کی رُوداد کچھ نہ پوچھ
دن کاٹنے پڑے دلِ بے آرزو کے ساتھ

منّت پذیرِ دیدہء خونبارہے بہار
میں جنّتیں بکھیر رہا ہوں لہو کے ساتھ

الفاظ کو لباسِ حقیقت میں پیش کر
اشکوں کو سلسلہ بھی رہے گفتگو کے ساتھ

میری طرح فضائیں دو عالم کی مست تھیں
وہ انجمن ہی اُٹھ گئی اِک خوش گلو کے ساتھ

ثاقب امیر ہو کہ گدائے فتادہ پا
انسان ہے وہی جو رہے آبرو کے ساتھ
 

الشفاء

لائبریرین
گزرے گی جس طرح بھی گزاریں گے زندگی
وعدہ نباہ کا ہے ہر اِک آرزو کے ساتھ

یہ جانتی ہے سوختہ سامانیوں کا راز
صحرا نہ جل اُٹھے مری آوازِ ہُو کے ساتھ

واہ۔ اعلیٰ انتخاب۔۔۔
 

طارق شاہ

محفلین
منّت پذیرِ دیدۂ خُونْبارہے بہار
میں جنّتیں بکھیررہا ہُوں لہو کے ساتھ

کیا کہنے صاحب
میری طرح فضائیں دو عالم کی مست تھیں
وہ انجمن ہی اُٹھ گئی اِک خوش گلوُ کے ساتھ

ہائے ہائے!
کیا ہی اچھا ہے
بے شک تشکیلِ انجُمن خود ذات کی کیفیّت اور محسُوسات
سے وابستہ ہے ، خود خوش و مست تو دو عالم شریک و مست

بہت خوب اور باہم مربوط اشعار کی حامل غزل کے لئے تشکّر کاشفی صاحب :)
بہت خوش رہیں :)
 
Top