گیان دیوی کے معبدمیں دو گھنٹے
امریکی دارلحکومت واشنگٹن ڈی سی میں جب آپ کانگرس کے بلند و بالا گنبد والے ایوان کےوسیع سبزہ زاروں کو عبور کر کے عمارت کے عقب میں پہنچ جاتے ہیں تو اپنے آپ کوسنگ مر مر سےتعمیر کردہ ایک عمارت کے روبرو پاتے ہیں جس کا گنبد کیپیٹل کےگنبد سے تو چھوٹا ہے لیکن اس کے بام و سقف سے شکوہ اور جلال پھوٹتا ہے۔ یہ مشہورِ زمانہ لائبریری آف کانگریس ہے۔ سن 1800 میں امریکی صدر ٹامس جیفرسن کے ایما اور ذاتی کتب خانے کی 21ہزار ڈالر میں فروخت کے نتیجے میں معرضِ وجودمیں آنے والی لائبریری آف کانگرس کو دنیا کاسب سے بڑا کتب خانہ ہونے کا قابلِ رشک اعزاز حاصل ہے۔لیکن یہ کتب خانہ صرف کتابوں تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ علم،تحقیق اورتخلیق کا بہتا دریا ہے۔اورساتھ ہی ساتھ اس کے بنانے والوں نے پوری کوشش کی ہے کہ عمارت ظاہری طور پر بھی اپنے مشمولات کے شایانِ شان ہو۔
کتب خانے میں سیر کرنےوالوں کا تانتا بندھا رہتا ہے۔ مجھے بھی ایک لمبی قطار میں کھڑے رہنے کے بعد باریابی کا موقع ملا۔ دوسرے امریکی اداروں کی طرح یہاں بھی سامان کی چھان بین اور ایکس رے مشین سے گزرنا ناگزیر ہے۔ استقبالیے میں وقفےوقفے سے معلوماتی ٹورز کا اہتمام کیا جاتا ہے جس میں ماہر لائبریری دان سیاحوں کو آدھے گھنٹے کے اندر عمارت کے طرزِ تعمیر، تاریخ اور اہمیت سے روشناس کرا دیتے ہیں۔انہی کی زبانی معلوم ہوتا ہے کہ درو دیوار کی سجاوٹ میں امریکہ کے چوٹی کے ہنرمندوں اور فنکاروں نے حصہ لیاتھا۔ مزید برآں اٹلی سے موزیک کا کام کرنے والے کاریگر الگ سےمنگوائے گئے تھے۔ ان تمام صناعوں کے فن کے شاہکار مجسموں، دیواری تصویروں، موزیک اور گل کاری کی صورت میں جگہ جگہ لائبریری میں بکھرے ہوئے ہیں جن میں دنیا کی مختلف تہذیبوں، جغرافیائی خطوں اور علوم و فنون کے مختلف شعبوں پرروشنی ڈالی گئی ہے۔ بلاشبہ یہ عمارت دنیا کی خوبصورت ترین عمارات کے ہم پلہ قراردی جاسکتی ہے۔
کچھ کتب خانے کے مشمولات کے بارے میں: کتب خانے کی تینوں عمارات میں چار سو ساٹھ زبانوں میں تقریباً تیرہ کروڑ سے زائد کتابیں، مسودے، نقشے ، دستاویزات، ریکارڈنگز اور فلمیں موجود ہیں۔ کتابوں کی الماریوں کی لمبائی ساڑھے آٹھ سو کلومیٹر ہے ۔ فلموں کے شوقین افراد کی دلچسپی کاسامان بھی یہاں وافر مقدار میں موجود ہےکیوں کہ یہ دنیا کی سب سے بڑی فلم لائبریری بھی ہے۔اس کے ذخیرے میں لاکھوں نایاب فلموں کے علاوہ دنیا کی سب سے پرانی فلم ’ایک چھینک کا احوال‘بھی موجود ہے جو 1894 میں سینما کے موجد ٹامس ایڈیسن نے بنائی تھی۔ لائبریری میں نوادر کا بھی ایک بڑا ذخیرہ موجود ہےجس کی نمائش کے لیے ایک گیلری الگ سے موجود ہے۔ یہاں آپ مغربی دنیا میں شائع ہونے والی سب سے پہلی کتاب گٹن برگ کی بائبل کا چمڑے پر چھپا ہوا ایک نسخہ ، بنجمن فرینکلن کے ہوم ورک کی کاپی، صدر لنکن کی جیب سے قتل کے بعدبرآمد ہونےوالے کاغذات، اور دوسرے کئی نوادرنمائش کے لیے موجود ہیں۔ یہ نمائشیں وقتی ہوتی ہیں اور ان کے مندرجات اور موضوعات بدلتے رہتے ہیں۔
کتب خانے کے مشمولات کی وسعت کا اندازہ اس امر سے لگائیے کہ یہاں روزانہ بائیس ہزار سے زیادہ کتابیں اور دوسری اشیا موصول ہوتی ہیں۔ جن میں سے دس ہزار کو ضروری کاروائی کے مراحل سے گزار کر لائبریری کی زینت بنا دیا جاتا ہے۔ امریکہ میں تمام اشاعتی ادارے قانوناً پابند ہیں کہ جو کتاب شائع کریں اس کی دو کاپیاں لائبریری کو پہنچا دیں۔ یاد آیا کہ ایسا قانون تو اسلام آباد کی نیشنل لائبریری کے ضمن میں بھی موجود ہے،لیکن خیر،یہ موضوع پھر کبھی سہی۔
ٹورگائیڈ نے ایک اطلاع بہم پہنچائی کہ کتابوں تک رسائی لائبریری کارڈ حاصل کیےبغیر نہیں ہو سکتی۔ اس مقصدکے حصول کے لیے سڑک کے اس پار دوسری عمارت میں جانا پڑا۔ایک فارم پر کرنا پڑا۔ انٹرویو لیا گیا، کس موضوع پردادِ تحقیق دینے کا ارادہ ہے؟ اس سے پہلے کتنا کام مکمل کر چکے ہیں؟ علیٰ ہٰذاالقیاس۔ خیر،تصویر کھینچی گئی اور لائبریری کے اتھاہ ساگر کا پروانہءراہداری، یعنی لائبریری کارڈتھما دیا گیا۔ کارڈبکف میں مرکزی عمارت کےہشت پہلو مرکزی ہال تک جا پہنچا اور پہنچتے ہی مارے حیرت و ہیبت کے ٹھٹک کر رہ گیا۔ہال کیا ہے، گیان دیوی کا باجبروت معبدہے۔یہاں کی نیم تاریک فضاوں میں وہ پرتقدس خاموشی پر پھیلائے ہوئےہے جو صرف قدیم عبادت گاہوں میں ملتی ہے۔ 75 فٹ اونچے چھت میں بنے روشن دانوں سے سورج کی کرنیں آرہی ہیں لیکن جیسے وہ بھی ہمت کی کمی کے باعث راستے ہی میں ٹھٹھر جاتی ہیں۔ دنیاکے مختلف ممالک سے برآمدہ سنگِ سرخ سے بنی آٹھوں دیواروں پر مختلف شعبہ ہاے علم وفن کی نمایندہ شخصیات کے مجسمے نصب ہیں۔ فلسفے کے نمایندہ افلاطون اور فرانسس بیکن ہیں۔ایوانِ ادب میں ہومر اورشیکسپیئر جلوہ افروز ہیں جب کہ فنون کے شعبے میں مائیکل اینجلو اور بیتھوون کے مجسمے آویزاں ہیں۔
چھت پر نظر ڈالیں تو وہاں ایک گول تصویر موجود ہے جس میں دنیا کی مختلف تہذیبوں اورانسانی تمدن کی ترقی میں ان کی خدمات کی عکاسی کی گئی ہے۔ اسلام کو بطورِتہذیب برتا گیا ہے اور مسلمانوں کی طبیعات اور فلکیات میں تحقیقات کو نمایاں کیا گیا ہے۔ دائروی شکل میں نصب میزوں پر علما و فضلابرقی قمقموں کی مدھم روشنی میں جستجوے علم میں مگن ہیں۔
اس عظیم ہال کا دبدبہ اور تمکنت ایسی ہے کہ کچھ دیر کے لیے انسان کتابوں کو بھول جاتاہے۔لیکن جب آنکھیں ہال کی تمکنت کی عادی ہو جاتی ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اصل کتب خانہ یہ بھی نہیں ہے۔بلکہ طریقہء کار کچھ یوں ہے کہ آپ پہلے کمپیوٹر سے متعلقہ کتابوں کااحوال لیجیے اور نمبر لائبریرین کے حوالے کر دیجیے۔ یہ اطلاع دوسری عمارات میں رکھی گئ کتابوں کی الماریوں تک پہنچ جائے گی جہاں سٹاف سینکڑوں کلومیٹر پر محیط الماریوں سے مطلوبہ کتاب نکال کر ایک بیلٹ پر رکھ دےگا جو چلتی ہوئی عظیم ہال میں آجائے گی۔ اس عمل میں پونا گھنٹا صرف ہو سکتا ہے۔
میں نے جب لائبریری کیٹلاگ میں اردو کتابوں کی کھوج لگائی تو یہ جان کر بڑی خوشی ہوئی کہ اردو کی ہزاروں کتابیں یہاں موجود ہیں۔ مرزاغالب کے نام کا قرعہ نکالا تو ان پر لکھی گئی127 کتابوں کی فہرست سامنے آگئی ۔ مجھے یاد نہیں پڑتا کہ میں نے کبھی پاکستان کی بڑی سے بڑی لائبریری میں بھی غالب پر اتنی کتابیں دیکھی ہوں۔ اگرچہ غالبیات میرا خاص شعبہ ہے لیکن اس کے باوجود اس فہرست میں کئی کتب میرے لیے یکسر نئی تھیں۔ اور سونے پہ سہاگہ یہ کہ دیوانِ غالب کے عبدالرحمٰن چغتائی کے دونوں مصور نسخے’مرقعِ چغتائی‘اور’نقشِ چغتائی‘لائبریری کی زینت میں اضافہ کر رہے ہیں۔
لائبریر ی آف کانگرس کےعظیم مرکزی ریڈنگ ہال کی ڈیسک نمبر 158 پر بیٹھ کر چغتائی کی تصاویر سے مزین دیوانِ غالب کا مطالعہ زندگی کے چند ناقابلِ فراموش لمحات میں شامل ہے۔
امریکی دارلحکومت واشنگٹن ڈی سی میں جب آپ کانگرس کے بلند و بالا گنبد والے ایوان کےوسیع سبزہ زاروں کو عبور کر کے عمارت کے عقب میں پہنچ جاتے ہیں تو اپنے آپ کوسنگ مر مر سےتعمیر کردہ ایک عمارت کے روبرو پاتے ہیں جس کا گنبد کیپیٹل کےگنبد سے تو چھوٹا ہے لیکن اس کے بام و سقف سے شکوہ اور جلال پھوٹتا ہے۔ یہ مشہورِ زمانہ لائبریری آف کانگریس ہے۔ سن 1800 میں امریکی صدر ٹامس جیفرسن کے ایما اور ذاتی کتب خانے کی 21ہزار ڈالر میں فروخت کے نتیجے میں معرضِ وجودمیں آنے والی لائبریری آف کانگرس کو دنیا کاسب سے بڑا کتب خانہ ہونے کا قابلِ رشک اعزاز حاصل ہے۔لیکن یہ کتب خانہ صرف کتابوں تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ علم،تحقیق اورتخلیق کا بہتا دریا ہے۔اورساتھ ہی ساتھ اس کے بنانے والوں نے پوری کوشش کی ہے کہ عمارت ظاہری طور پر بھی اپنے مشمولات کے شایانِ شان ہو۔
کتب خانے میں سیر کرنےوالوں کا تانتا بندھا رہتا ہے۔ مجھے بھی ایک لمبی قطار میں کھڑے رہنے کے بعد باریابی کا موقع ملا۔ دوسرے امریکی اداروں کی طرح یہاں بھی سامان کی چھان بین اور ایکس رے مشین سے گزرنا ناگزیر ہے۔ استقبالیے میں وقفےوقفے سے معلوماتی ٹورز کا اہتمام کیا جاتا ہے جس میں ماہر لائبریری دان سیاحوں کو آدھے گھنٹے کے اندر عمارت کے طرزِ تعمیر، تاریخ اور اہمیت سے روشناس کرا دیتے ہیں۔انہی کی زبانی معلوم ہوتا ہے کہ درو دیوار کی سجاوٹ میں امریکہ کے چوٹی کے ہنرمندوں اور فنکاروں نے حصہ لیاتھا۔ مزید برآں اٹلی سے موزیک کا کام کرنے والے کاریگر الگ سےمنگوائے گئے تھے۔ ان تمام صناعوں کے فن کے شاہکار مجسموں، دیواری تصویروں، موزیک اور گل کاری کی صورت میں جگہ جگہ لائبریری میں بکھرے ہوئے ہیں جن میں دنیا کی مختلف تہذیبوں، جغرافیائی خطوں اور علوم و فنون کے مختلف شعبوں پرروشنی ڈالی گئی ہے۔ بلاشبہ یہ عمارت دنیا کی خوبصورت ترین عمارات کے ہم پلہ قراردی جاسکتی ہے۔
کچھ کتب خانے کے مشمولات کے بارے میں: کتب خانے کی تینوں عمارات میں چار سو ساٹھ زبانوں میں تقریباً تیرہ کروڑ سے زائد کتابیں، مسودے، نقشے ، دستاویزات، ریکارڈنگز اور فلمیں موجود ہیں۔ کتابوں کی الماریوں کی لمبائی ساڑھے آٹھ سو کلومیٹر ہے ۔ فلموں کے شوقین افراد کی دلچسپی کاسامان بھی یہاں وافر مقدار میں موجود ہےکیوں کہ یہ دنیا کی سب سے بڑی فلم لائبریری بھی ہے۔اس کے ذخیرے میں لاکھوں نایاب فلموں کے علاوہ دنیا کی سب سے پرانی فلم ’ایک چھینک کا احوال‘بھی موجود ہے جو 1894 میں سینما کے موجد ٹامس ایڈیسن نے بنائی تھی۔ لائبریری میں نوادر کا بھی ایک بڑا ذخیرہ موجود ہےجس کی نمائش کے لیے ایک گیلری الگ سے موجود ہے۔ یہاں آپ مغربی دنیا میں شائع ہونے والی سب سے پہلی کتاب گٹن برگ کی بائبل کا چمڑے پر چھپا ہوا ایک نسخہ ، بنجمن فرینکلن کے ہوم ورک کی کاپی، صدر لنکن کی جیب سے قتل کے بعدبرآمد ہونےوالے کاغذات، اور دوسرے کئی نوادرنمائش کے لیے موجود ہیں۔ یہ نمائشیں وقتی ہوتی ہیں اور ان کے مندرجات اور موضوعات بدلتے رہتے ہیں۔
کتب خانے کے مشمولات کی وسعت کا اندازہ اس امر سے لگائیے کہ یہاں روزانہ بائیس ہزار سے زیادہ کتابیں اور دوسری اشیا موصول ہوتی ہیں۔ جن میں سے دس ہزار کو ضروری کاروائی کے مراحل سے گزار کر لائبریری کی زینت بنا دیا جاتا ہے۔ امریکہ میں تمام اشاعتی ادارے قانوناً پابند ہیں کہ جو کتاب شائع کریں اس کی دو کاپیاں لائبریری کو پہنچا دیں۔ یاد آیا کہ ایسا قانون تو اسلام آباد کی نیشنل لائبریری کے ضمن میں بھی موجود ہے،لیکن خیر،یہ موضوع پھر کبھی سہی۔
ٹورگائیڈ نے ایک اطلاع بہم پہنچائی کہ کتابوں تک رسائی لائبریری کارڈ حاصل کیےبغیر نہیں ہو سکتی۔ اس مقصدکے حصول کے لیے سڑک کے اس پار دوسری عمارت میں جانا پڑا۔ایک فارم پر کرنا پڑا۔ انٹرویو لیا گیا، کس موضوع پردادِ تحقیق دینے کا ارادہ ہے؟ اس سے پہلے کتنا کام مکمل کر چکے ہیں؟ علیٰ ہٰذاالقیاس۔ خیر،تصویر کھینچی گئی اور لائبریری کے اتھاہ ساگر کا پروانہءراہداری، یعنی لائبریری کارڈتھما دیا گیا۔ کارڈبکف میں مرکزی عمارت کےہشت پہلو مرکزی ہال تک جا پہنچا اور پہنچتے ہی مارے حیرت و ہیبت کے ٹھٹک کر رہ گیا۔ہال کیا ہے، گیان دیوی کا باجبروت معبدہے۔یہاں کی نیم تاریک فضاوں میں وہ پرتقدس خاموشی پر پھیلائے ہوئےہے جو صرف قدیم عبادت گاہوں میں ملتی ہے۔ 75 فٹ اونچے چھت میں بنے روشن دانوں سے سورج کی کرنیں آرہی ہیں لیکن جیسے وہ بھی ہمت کی کمی کے باعث راستے ہی میں ٹھٹھر جاتی ہیں۔ دنیاکے مختلف ممالک سے برآمدہ سنگِ سرخ سے بنی آٹھوں دیواروں پر مختلف شعبہ ہاے علم وفن کی نمایندہ شخصیات کے مجسمے نصب ہیں۔ فلسفے کے نمایندہ افلاطون اور فرانسس بیکن ہیں۔ایوانِ ادب میں ہومر اورشیکسپیئر جلوہ افروز ہیں جب کہ فنون کے شعبے میں مائیکل اینجلو اور بیتھوون کے مجسمے آویزاں ہیں۔
چھت پر نظر ڈالیں تو وہاں ایک گول تصویر موجود ہے جس میں دنیا کی مختلف تہذیبوں اورانسانی تمدن کی ترقی میں ان کی خدمات کی عکاسی کی گئی ہے۔ اسلام کو بطورِتہذیب برتا گیا ہے اور مسلمانوں کی طبیعات اور فلکیات میں تحقیقات کو نمایاں کیا گیا ہے۔ دائروی شکل میں نصب میزوں پر علما و فضلابرقی قمقموں کی مدھم روشنی میں جستجوے علم میں مگن ہیں۔
اس عظیم ہال کا دبدبہ اور تمکنت ایسی ہے کہ کچھ دیر کے لیے انسان کتابوں کو بھول جاتاہے۔لیکن جب آنکھیں ہال کی تمکنت کی عادی ہو جاتی ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اصل کتب خانہ یہ بھی نہیں ہے۔بلکہ طریقہء کار کچھ یوں ہے کہ آپ پہلے کمپیوٹر سے متعلقہ کتابوں کااحوال لیجیے اور نمبر لائبریرین کے حوالے کر دیجیے۔ یہ اطلاع دوسری عمارات میں رکھی گئ کتابوں کی الماریوں تک پہنچ جائے گی جہاں سٹاف سینکڑوں کلومیٹر پر محیط الماریوں سے مطلوبہ کتاب نکال کر ایک بیلٹ پر رکھ دےگا جو چلتی ہوئی عظیم ہال میں آجائے گی۔ اس عمل میں پونا گھنٹا صرف ہو سکتا ہے۔
میں نے جب لائبریری کیٹلاگ میں اردو کتابوں کی کھوج لگائی تو یہ جان کر بڑی خوشی ہوئی کہ اردو کی ہزاروں کتابیں یہاں موجود ہیں۔ مرزاغالب کے نام کا قرعہ نکالا تو ان پر لکھی گئی127 کتابوں کی فہرست سامنے آگئی ۔ مجھے یاد نہیں پڑتا کہ میں نے کبھی پاکستان کی بڑی سے بڑی لائبریری میں بھی غالب پر اتنی کتابیں دیکھی ہوں۔ اگرچہ غالبیات میرا خاص شعبہ ہے لیکن اس کے باوجود اس فہرست میں کئی کتب میرے لیے یکسر نئی تھیں۔ اور سونے پہ سہاگہ یہ کہ دیوانِ غالب کے عبدالرحمٰن چغتائی کے دونوں مصور نسخے’مرقعِ چغتائی‘اور’نقشِ چغتائی‘لائبریری کی زینت میں اضافہ کر رہے ہیں۔
لائبریر ی آف کانگرس کےعظیم مرکزی ریڈنگ ہال کی ڈیسک نمبر 158 پر بیٹھ کر چغتائی کی تصاویر سے مزین دیوانِ غالب کا مطالعہ زندگی کے چند ناقابلِ فراموش لمحات میں شامل ہے۔