F@rzana
محفلین
طوائف جو جاپان میں ’گیشا‘ کے نام سے معروف ہیں انہیں موسیقی، رقص اور پروفیشنل انداز میں بات چیت کی باقاعدہ تربیت دی جاتی ہے۔ جاپان میں ان کی خدمات خصوصًا امیر ترین افراد حاصل کرتے ہیں۔
بانڈ فلموں سے شہرت حاصل کرنے والی اداکارہ مشعل یی ہو کا کہنا ہے کہ ناول پڑھنے کے بعد فورًا ہی آپ پر یہ بات کھل جاتی ہے کہ اس موضوع پر ایک ناقابل فراموش فلم بنائی جاسکتی ہے اور اس ناول میں فلم کے لیے ضروری تمام لوازمات بھی موجود ہیں جیسے کہ جگہ، وقت، بہترین کلچر اور پراسرار کردار۔
انیس سو ستانوے میں منظر عام پر آنے والے آرتھر گولڈن کے اس شہرت یافتہ ناول کامرکزی کردار ایک لڑکی سیوری ہے۔ جسے بچپن میں پیشہ ور طوائف کے ہاتھوں فروخت کر دیا جاتا ہے۔ جو آگے چل کر اپنے وقت کی مشہور طوائف کا روپ دھارتی ہے۔
انگریزی زبان میں اس ناول کی چار ملین کاپیاں فروخت ہو چکی ہیں اور دنیا بھر کی بتیس زبانوں میں اس کا ترجمہ ہو چکا ہے۔
فلم ڈائریکٹر روب مارشل مرکزی کردار ادا کرنے والی زیی زانگ کے ہمراہ
اس فلم کا پریمئر گزشتہ سال دسمبر میں ٹوکیو میں ہوا۔ تنقید نگاروں نے اس فلم میں اہم کرداروں کے لیے چین کی اداکاراؤں کو کاسٹ کرنے پر تنقید کی۔
فلم کے ڈائریکٹر مارشل نے کرداروں کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ اس فلم کے لیے انہوں نے ان افراد کا انتخاب کیا جو اس کے کرداروں کے لیے موزوں تھے۔
جاپان میں گیشاؤں کو پانچ سال تک چلنے پھرنے، رقص اور بات چیت کی تربیت دی جاتی ہے تاہم اس فلم میں طوائف کا کردار ادا کرنے والی اداکاراؤں نے اس مقصد کے لیے چائے پیش کرنے، چلنے، رقص کے لیے کریش کورسوں کی مدد سے تربیت حاصل کی۔
مارشل نے بتایا کہ’یہ ایک بہت ہی بھرپور لیکن ہمت توڑ دینے والا تجربہ تھا چھ ہفتوں کے دوران ہم نے نے وہ سب کیا جوایک طوائف اپنی پوری زندگی کو بہترین بنانے کے لیے کرتی ہے‘۔
اس فلم میں سیوری کا چیلنجنگ کردار ادا کرنے والی زیی زانگ پہلی مرتبہ کسی انگریزی فلم میں کوئی کردار ادا کررہی ہیں چنانچہ یہ فلم اس لحاظ سے ان کے لیے بہت اہم ہے۔
اس فلم کے لیے ان کے کردار کے حوالے سے جو توقعات کی جا رہی تھیں اس نے چھبیس سالہ اداکارہ پر بڑا دباؤ پیدا کر رکھا تھا۔
کیا گیشا کو محبت کرنے کا کوئی حق نہیں ہے
انہوں نے کہا کہ ان کے لیے ایک جاپانی نہیں بلکہ بین الاقوامی فلم ہے۔ انہیں گولڈن گلوب ایوارڈ کے لیے بھی نامزد کیا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ’ہمارا پس منظر کوئی بھی ہو مسئلہ یہ نہیں ہے۔ ہم سب نے اس فلم کے دوران گیشا بننے کے عمل کو سیکھا اور اس بارے میں تربیت حاصل کی‘۔
انہوں نے کہا کہ’گیشا محبت نہیں کر سکتی، نہ ہی شادی، اسے بچے پیدا کرنے کا بھی کوئی حق نہیں لیکن ایک انسان ہونے کے ناطے آپ حقیقی محبت سے کیسے بچ سکتے ہیں‘
بشکریہ بی بی سی۔مزید:http://www.bbc.co.uk/urdu/entertainment/story/2006/01/060101_geisha_film_rs.shtml
بانڈ فلموں سے شہرت حاصل کرنے والی اداکارہ مشعل یی ہو کا کہنا ہے کہ ناول پڑھنے کے بعد فورًا ہی آپ پر یہ بات کھل جاتی ہے کہ اس موضوع پر ایک ناقابل فراموش فلم بنائی جاسکتی ہے اور اس ناول میں فلم کے لیے ضروری تمام لوازمات بھی موجود ہیں جیسے کہ جگہ، وقت، بہترین کلچر اور پراسرار کردار۔
انیس سو ستانوے میں منظر عام پر آنے والے آرتھر گولڈن کے اس شہرت یافتہ ناول کامرکزی کردار ایک لڑکی سیوری ہے۔ جسے بچپن میں پیشہ ور طوائف کے ہاتھوں فروخت کر دیا جاتا ہے۔ جو آگے چل کر اپنے وقت کی مشہور طوائف کا روپ دھارتی ہے۔
انگریزی زبان میں اس ناول کی چار ملین کاپیاں فروخت ہو چکی ہیں اور دنیا بھر کی بتیس زبانوں میں اس کا ترجمہ ہو چکا ہے۔
فلم ڈائریکٹر روب مارشل مرکزی کردار ادا کرنے والی زیی زانگ کے ہمراہ
اس فلم کا پریمئر گزشتہ سال دسمبر میں ٹوکیو میں ہوا۔ تنقید نگاروں نے اس فلم میں اہم کرداروں کے لیے چین کی اداکاراؤں کو کاسٹ کرنے پر تنقید کی۔
فلم کے ڈائریکٹر مارشل نے کرداروں کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ اس فلم کے لیے انہوں نے ان افراد کا انتخاب کیا جو اس کے کرداروں کے لیے موزوں تھے۔
جاپان میں گیشاؤں کو پانچ سال تک چلنے پھرنے، رقص اور بات چیت کی تربیت دی جاتی ہے تاہم اس فلم میں طوائف کا کردار ادا کرنے والی اداکاراؤں نے اس مقصد کے لیے چائے پیش کرنے، چلنے، رقص کے لیے کریش کورسوں کی مدد سے تربیت حاصل کی۔
مارشل نے بتایا کہ’یہ ایک بہت ہی بھرپور لیکن ہمت توڑ دینے والا تجربہ تھا چھ ہفتوں کے دوران ہم نے نے وہ سب کیا جوایک طوائف اپنی پوری زندگی کو بہترین بنانے کے لیے کرتی ہے‘۔
اس فلم میں سیوری کا چیلنجنگ کردار ادا کرنے والی زیی زانگ پہلی مرتبہ کسی انگریزی فلم میں کوئی کردار ادا کررہی ہیں چنانچہ یہ فلم اس لحاظ سے ان کے لیے بہت اہم ہے۔
اس فلم کے لیے ان کے کردار کے حوالے سے جو توقعات کی جا رہی تھیں اس نے چھبیس سالہ اداکارہ پر بڑا دباؤ پیدا کر رکھا تھا۔
کیا گیشا کو محبت کرنے کا کوئی حق نہیں ہے
انہوں نے کہا کہ ان کے لیے ایک جاپانی نہیں بلکہ بین الاقوامی فلم ہے۔ انہیں گولڈن گلوب ایوارڈ کے لیے بھی نامزد کیا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ’ہمارا پس منظر کوئی بھی ہو مسئلہ یہ نہیں ہے۔ ہم سب نے اس فلم کے دوران گیشا بننے کے عمل کو سیکھا اور اس بارے میں تربیت حاصل کی‘۔
انہوں نے کہا کہ’گیشا محبت نہیں کر سکتی، نہ ہی شادی، اسے بچے پیدا کرنے کا بھی کوئی حق نہیں لیکن ایک انسان ہونے کے ناطے آپ حقیقی محبت سے کیسے بچ سکتے ہیں‘
بشکریہ بی بی سی۔مزید:http://www.bbc.co.uk/urdu/entertainment/story/2006/01/060101_geisha_film_rs.shtml