گیٹ آؤٹ طالبان,,,,قلم کمان …حامد میر

گیٹ آؤٹ طالبان,,,,قلم کمان …حامد میر

سترہ سالہ دانیال کے ایک انکار نے اسلام آباد کی اشرافیہ کو حیران نہیں بلکہ پریشان کر دیا۔ انکار کا یہ واقعہ پاکستان نیشنل کونسل آف دی آرٹس کے ڈرامہ ہال میں پیش آیا جہاں وفاقی دارالحکومت کے ایک معروف انگریزی میڈیم اسکول کی تقریب تقسیم انعامات جاری تھی۔ رمضان المبارک کے باعث یہ تقریب صبح دس بجے سے بارہ بجے کے درمیان منعقد کی گئی اور اتوار کا دن ہونے کے باعث ڈرامہ ہال طلبہ و طالبات کے والدین سے بھرا ہوا تھا۔ ان والدین میں شہر کے معروف لوگ شامل تھے۔ اس تقریب پر مغربی ماحول اور مغربی موسیقی غالب تھی جس میں حیرانگی کی کوئی بات نہ تھی۔ تقریب کی تمام کارروائی انگریزی میں ہو رہی تھی اور انگریزی زبان جہاں بھی جاتی ہے اپنی تہذیب کو ساتھ لے کر جاتی ہے۔ اس دوران اسکول کی طالبات نے جنید جمشید کے ایک پرانے گیت پر رقص پیش کیا۔ یہ گیت ایک سانولی سلونی محبوبہ کے بارے میں تھا جو شہر کے لڑکوں کو اپنا دیوانہ بنا لیتی ہے۔ نو عمر طالبات نے اس گیت پر دیوانہ وار رقص کیا۔ حاضرین میں موجود کئی طلبہ نے اپنے والدین کی موجودگی کی پروا نہ کرتے ہوئے محو رقص طالبات کو چیخ چیخ کر داد دی۔
اس رقص کے بعد اسٹیج سے او لیول اور اے لیول کے امتحانات میں نمایاں پوزیشن حاصل کرنے والے طلبہ و طالبات کے نام پکارے جانے لگے۔ گولڈ میڈل حاصل کرنے والی بعض طالبات اسکارف اور برقعے میں ملبوس تھیں۔ ایک طالب علم ایسا بھی تھا جس کے چہرے پر نئی نئی داڑھی آئی تھی اور جب پرنسپل صاحبہ نے اس کے گلے میں گولڈ میڈل ڈال کر اس کے ساتھ ہاتھ ملانا چاہا تو دبلے پتلے طالب نے نظریں جھکا کر اپنا ہاتھ پیچھے کھینچ لیا۔ پرنسپل صاحبہ نے پوچھا کہ کیا تم ہاتھ نہیں ملانا چاہتے؟ طالب علم نے نفی میں سر ہلایا اور اسٹیج سے نیچے اتر آیا۔ پھر دانیال کا نام پکارا گیا جو اے لیول مکمل کرنے کے بعد ایک امریکی یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہے اور صرف گولڈ میڈل حاصل کرنے اپنے پرانے اسکول کی تقریب میں بلایا گیا تھا۔ وہ گولڈ میڈل وصول کرنے کیلئے پرنسپل صاحبہ کی طرف نہیں گیا بلکہ ڈائس پر جا کھڑا ہوا اور مائیک تھام کر کہنے لگا کہ وہ اپنے اسکول کی انتظامیہ کا بہت شکر گزار ہے کہ اسے گولڈ میڈل کیلئے نامزد کیا گیا لیکن اسے افسوس ہے کہ مذکورہ تقریب میں اسکول کی طالبات نے رمضان المبارک کے تقدس کا خیال نہیں کیا اور واہیات گیت پر رقص پیش کیا۔ اس نے کہا کہ مسلمانوں کے ملک میں رمضان المبارک کے تقدس کی پامالی کے خلاف بطور احتجاج وہ گولڈ میڈل وصول نہیں کرے گا۔ یہ کہہ کر وہ اسٹیج سے اتر آیا اور ہال میں ہڑبونگ مچ گئی۔ کچھ والدین اور طلبہ تالیاں بجا کر دانیال کی حمایت کر رہے تھے اور کچھ حاضرین غصے میں پاگل ہو کر اس نوجوان کو انگریزی زبان میں برا بھلا کہہ رہے تھے۔ بوائے کٹ بالوں والی ایک خاتون اپنی نشست سے کھڑی ہو کر زور زور سے چیخیں … ” گیٹ آؤٹ طالبان، گیٹ آؤٹ طالبان “۔
ایسا محسوس ہوتا تھا کہ دانیال کے مخالفین حاوی ہیں کیونکہ وہ بہت زیادہ شور کر رہے تھے لیکن یہ ہڑبونگ وفاقی دارالحکومت کی اشرافیہ میں ایک واضح تقسیم کا پتہ دے رہی تھی۔ یہ تقسیم لبرل عناصر اور بنیاد پرست اسلام پسندوں کے درمیان تھی۔ پرنسپل صاحبہ نے خود مائیک سنبھال کر صورتحال پر قابو پایا اور تھوڑی دیر کے بعد ہوشیاری سے ایک خاتون دانشور کو اسٹیج پر بلا لیا اور خاتون نے اپنی گرجدار آواز میں دانیال کو ڈانٹ پلاتے ہوئے کہا کہ تم نے جو کچھ بھی کیا وہ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کی تعلیمات کے خلاف تھا کیونکہ بانیٴ پاکستان رواداری کے علمبردار تھے۔ پچھلی نشستوں پر براجمان ایک اسکارف والی طالبہ بولی کہ بانیٴ پاکستان نے یہ کب کہا تھا کہ مسلمان بچیاں رمضان المبارک میں اپنے والدین کے سامنے سانولی سلونی محبوبہ بن کر ڈانس کریں؟ ایک دفعہ پھر ہال میں شور بلند ہوا اور اس مرتبہ بنیاد پرست حاوی تھے لہٰذا پرنسپل صاحبہ نے مائیک سنبھالا اور کہا کہ طالبات کے رقص سے اگر کسی کے جذبات مجروح ہوئے ہیں تو وہ معذرت خواہ ہیں۔ اس واقعے نے اسلام آباد میں ایک مغربی سفارت خانے کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا۔ سفارت خانے نے فوری طور پر ایک ماہر تعلیم کی خدمات حاصل کیں اور اسے کہا گیا کہ وہ اسلام آباد کے پانچ معروف انگریزی میڈیم اسکولوں میں او لیول اور اے لیول کے ایک سو طلبہ و طالبات سے امریکی پالیسیوں، طالبان اور اسلام کے بارے میں رائے معلوم کریں۔ اس سروے کے حتمی نتائج ابھی مرتب نہیں ہوئے لیکن مجھے بتایا گیا ہے کہ او لیول اور اے لیول کے طلبہ و طالبات کی ایک بڑی اکثریت امریکہ اور طالبان دونوں سے نالاں ہے لیکن امریکہ کو بڑا دہشت گرد سمجھتی ہے۔ سروے کے دوران بعض طلبہ نے ” خطرناک حد تک “ طالبان کی حمائت کی اور کہا کہ طالبان دراصل امریکہ اور پاکستان حکومت کے ظلم اور بمباری کا ردعمل ہیں اور انہیں دہشت گرد قرار نہیں دیا جا سکتا تاہم ایسے طلبہ دس فیصد سے بھی کم تھے۔ اس سروے سے مغرب کو کم از کم یہ پتہ ضرور چل جائے گا کہ اسلام آباد کے انگریزی میڈیم اسکولوں میں طالبان کے دس فیصد حامی موجود ہیں۔ یہ بھی ثابت ہو جائے گا کہ طالبان صرف دینی مدارس میں پیدا نہیں ہوتے بلکہ وقت اور حالات انگریزی میڈیم طالبان بھی پیدا کر سکتے ہیں۔ ذرا سوچئے ! ان دس فیصد میں سے ایک یا دو فیصد طلبہ وہی راستہ اختیار کرنے کا فیصلہ کر لیں جو طالبان نے اختیار کر رکھا ہے تو ذمہ دار کون ہو گا؟ ذرا سوچئے ! پاکستان کے قبائلی علاقوں میں آئے روز امریکی بمباری سے بے گناہ عورتوں اور بچوں کی ہلاکت پر آپ اور میں بے چین ہو جاتے ہیں تو کیا ہمارے پندرہ سولہ سال کے بچے بے چین نہ ہوتے ہوں گے؟ امریکی میزائل حملوں نے نئی نسل میں یہ تاثر عام کیا ہے کہ پاکستان کو امریکہ کی ریاستی دہشت گردی کا سامنا ہے اور پاکستان کی حکومت اس دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے قابل نہیں ہے۔ یہ تاثر امریکہ مخالف جذبات کو تیزی سے بھڑکا رہا ہے اور اگر حکومت صورت حال کو سنبھال نہ سکی تو بہت جلد پاکستان میں ایک ایسی امریکہ مخالف عوامی تحریک جنم لے سکتی ہے جس کو نہ تو نئی حکومت روک سکے گی اور نہ ہی فوج روک سکے گی۔
ہماری حکومت کو تذبذب اور گومگو کی کیفیت سے نکلنا ہو گا۔ جب قبائلی علاقوں میں طالبان حکومت کی رِٹ تسلیم نہیں کرتے تو ہماری فوج ان پر ٹینک چڑھا دیتی ہے لیکن جب امریکی طیارے ہماری قومی خودمختاری کا مذاق اڑاتے ہیں تو ہم صرف چند بیانات پر اکتفا کرتے ہیں۔ پچھلے دنوں آرمی چیف اشفاق پرویز کیانی نے ایک بیان دیا کہ امریکہ کو پاکستان پر مزید حملوں کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ اس بیان پر انہوں نے خوب داد وصول کی۔ قوم کا خیال تھا کہ قبائلی علاقوں میں تعینات ایک لاکھ فوج امریکیوں کو دوبارہ پاکستان میں نہیں گھسنے دے گی لیکن اگلے ہی دن شمالی وزیرستان میں ایک اور حملہ ہو گیا جس میں ایک دفعہ پھر عورتیں اور بچے مارے گئے۔
اس حملے کے بعد ہمارے وزیراعظم صاحب نے فرمایا کہ امریکہ کے ساتھ جنگ نہیں ہو سکتی۔ ایک ایٹمی طاقت کے وزیراعظم کا بیان پڑھ کر میرا سر شرم سے جھک گیا۔ آپ امریکہ سے نہیں لڑ سکتے تو نہ لڑیں لیکن کم از کم امریکی فوج کیلئے پاکستان کے راستے سے جانے والی سپلائی تو بند کر دیں۔ امریکی طیاروں کو پاکستان کے راستے سے ایندھن جاتا ہے اور یہ ایندھن پاکستان کے خلاف استعمال ہو رہا ہے۔ امریکہ کی لڑائی اب طالبان اور القاعدہ کے خلاف نہیں بلکہ پاکستان کے خلاف ہے۔ پاکستانی ریاست نے امریکی دہشت گردی کے خلاف کمزوری دکھائی تو پاکستان کے بڑے شہروں میں شدت پسندی کی لہر ابھر سکتی ہے جو جمہوری اداروں اور سیاسی جماعتوں کو کمزور کر دے گی۔ نئی جمہوری حکومت امریکی دہشت گردی کے خلاف عوامی جذبات کی ترجمانی کرے، مشتعل جذبات نے عوامی تحریک کی شکل اختیار کر لی تو حکومت کے پاس کچھ نہ بچے گا اور ” گیٹ آؤٹ طالبان “ کہنے والے اسلام آباد، لاہور اور کراچی میں طالبان سے بچتے پھریں گے۔
http://search.jang.com.pk/details.asp?nid=304470
 

فاروقی

معطل
یہ حال انگلش میڈیم سکول کے بچوں کا ہے...............ذرا اردو میڈیم کا بھی سروے کروا کر دیکھیں...............حکومت کی آنکھیں ابل کے باہر نہ آجایئیں تو کہیے گا...........
 

طالوت

محفلین
خانہ خراب ہو "طالبان" کا اگر یہ پاکستان میں گھناونی کاروائیاں نہ کرتے تے تو بات 80/90 فیصد تک چلی جاتی ، تاہم اس خبر پر بھی بہت سوں کو چیچک نکل آیا ہو گا ، اور یہ ہماری بد قسمتی ہو گی کہ صرف امریکہ کو خوش کرنے کے لیئے ہم اپنے گھر میں آگ سلگا رہے ہیں ۔۔۔ اور ظاہر ہے خوشقسمتی کا دن ہم پر کبھی آیا ہی نہیں ، ویلکم اینگلو طالبان ویلکم
وسلام
 
شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے​
زمانہ کی قسم ہے (۱) بے شک انسان گھاٹے میں ہے (۲) مگر جو لوگ ایمان لائے اور نیک کام کیے اور حق پر قائم رہنے کی اور صبر کرنے کی آپس میں وصیت کرتے رہے (۳)

سورۃ العصر



شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے

ا س شہر کی قسم ہے (۱) حالانکہ آپ اس شہر میں مقیم ہیں (۲) اورباپ کی اور اس کی اولاد کی قسم ہے (۳) کہ بےشک ہم نے انسان کو مصیبت میں پیدا کیا ہے (۴) کیا وہ خیال کرتا ہےکہ اس پر کوئی بھی ہرگز قابو نہ پا سکے گا (۵) کہتا ہے کہ میں نے مال برباد کر ڈالا (۶) کیا وہ خیال کرتا ہے کہ اسے کسی نے بھی نہیں دیکھا (۷) کیا ہم نے اس کے لیے دو آنکھیں نہیں بنائیں (۸) اور زبان اور دو ہونٹ (۹) اور ہم نے اسے دونوں راستے دکھائے (۱۰) پس وہ (دین کی) گھاٹی میں سے نہ ہو کر نکلا (۱۱) اور آپ کو کیا معلوم کہ وہ گھاٹی کیا ہے (۱۲) گردن کا چھوڑانا (۱۳) یا بھوک کے دن میں کھلانا (۱۴) کسی رشتہ دار یتیم کو (۱۵) یا کسی خاک نشین مسکین کو (۱۶) پھر وہ ان میں سے ہو جو ایمان لائے اور انہوں نے ایک دوسرے کو صبر کی وصیت کی اور رحم کرنے کی وصیت کی (۱۷) یہی لوگ دائیں والے ہیں (۱۸) اور جنہوں نے ہماری آیتوں سے انکار کیا وہی بائیں والے ہیں (۱۹) انہیں پر چاروں طرف سے بند کی ہوئی آگ ہے (۲۰)

سورۃ البلد

شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے​
دن کی روشنی کی قسم ہے (۱) اور رات کی جب وہ چھا جائے (۲) آپ کے رب نے نہ آپ کو چھوڑا ہے اور نہ بیزار ہوا ہے (۳) اور البتہ آخرت آپ کے لیے دنیا سے بہتر ہے (۴) اور آپ کا رب آپ کو (اتنا) دے گا کہ آپ خوش ہو جائیں گے (۵) کیا اس نے آپ کو یتیم نہیں پایا تھا پھر جگہ دی (۶) اور آپ کو (شریعت سے) بے خبر پایا پھر (شریعت کا) راستہ بتایا (۷) اوراس نے آپ کو تنگدست پایا پھر غنی کر دیا (۸) پھر یتیم کو دبایا نہ کرو (۹) اورسائل کو جھڑکا نہ کرو (۱۰) اورہر حال میں اپنے رب کے احسان کا ذکر کیا کرو (۱۱)

سورۃ الضحیٰ
شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے​


انسان پر ضرور ایک ایسا زمانہ بھی آیا ہے کہ اس کا کہیں کچھ بھی ذکر نہ تھا (۱) بے شک ہم نے انسان کو ایک مرکب بوند سے پیدا کیا ہم اس کی آزمائش کرنا چاہتے تھے پس ہم نے اسے سننے والا دیکھنے والا بنا دیا (۲) بے شک ہم نے اسے راستہ دکھا دیا یا تو وہ شکر گزار ہے اور یا ناشکرا (۳) بے شک ہم نے کافروں کے لیے زنجیریں اور طوق اور دھکتی آگ تیار کر رکھی ہے (۴) بے شک نیک ایسی شراب کے پیالے پئیں گے جس میں چشمہ کافور کی آمیزش ہو گی (۵) وہ ایک چشمہ ہو گا جس میں سے اللہ کے بندے پئیں گے اس کو آسانی سے بہا کر لے جائیں گے (۶) وہ اپنی منتیں پوری کرتے ہیں اور اس دن سے ڈرتے رہتے ہیں جس کی مصیبت ہر جگہ پھیلی ہوئی ہوگی (۷) اور وہ اس کی محبت پرمسکین اور یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں (۸) ہم جو تمہیں کھلاتے ہیں تو خاص اللہ کے لیے نہ ہمیں تم سے بدلہ لینا مقصود ہے اور نہ شکرگزاری (۹) ہم تو اپنے رب سے ایک اداس (اور) ہولناک دن سے ڈرتے ہیں (۱۰) پس اللہ اس دن کی مصیبت سے انہیں بچا لے گا اور ان کے سامنے تازگی اور خوشی لائے گا (۱۱) اوران کے صبر کے بدلے ان کو جنت اور ریشمی پوشاکیں دے گا (۱۲) اس میں تختوں پر تکیہ لگائے ہوئے ہوں گے نہ وہاں دھوپ دیکھیں گے اور نہ سردی (۱۳) اور ان پر اس کے سائے جھک رہے ہوں گے اور پھلوں کے گوشے بہت ہی قریب لٹک رہے ہوں گے (۱۴) اوران پر چاندی کے برتن اور شیشے کے آبخوروں کا دور چل رہا ہوگا (۱۵) شینیے بھی چاندی کے شیشے جو ایک خاص اناز پر ڈھالے گئے ہوں گے (۱۶) اورانہیں وہاں ایسی شراب کا پیالہ پلایا جائے گا جس میں سونٹھ کی آمیزش ہو گی (۱۷) وہ وہاں ایک چشمہ ہے جس کا نام سلسبیل ہے (۱۸) اوران کے پاس سدا رہنے والے لڑکے (خادم) گھومتے ہوں گے جو تو ا ن کو دیکھےگا تو خیال کرے گا کہ وہ بکھرے ہوئے موتی ہیں (۱۹) اورجب تو وہاں دیکھے گا تو نعمت اور بڑی سلطنت دیکھے گا (۲۰) ان پرباریک سبز اور موٹے ریشم کے لباس ہوں گے اور انہیں چاندی کے کنگن پہنائے جائیں گے اور انہیں ان کا رب پاک شراب پلائے گا (۲۱) بے شک یہ تمہارے (نیک اعمال کا) بدلہ ہے اور تمہاری کوشش مقبول ہوئی (۲۲) بےشک ہم نےہی آپ پر یہ قرآن تھوڑا تھوڑا اتارا ہے (۲۳) پھر آپ اپنے رب کے حکم کا انتظار کیاکر یں اوران میں سے کسی بدکار یا ناشکرے کا کہا نہ مانا کریں (۲۴) اوراپنے رب کا نام صبح اور شام یاد کیا کریں (۲۵) اورکچھ حصہ رات میں بھی اس کو سجدہ کیجیئے اوررات میں دیر تک اس کی تسبیح کیجیئے (۲۶) بے شک یہ لوگ دنیا کو چاہتے ہیں اور اپنے پیچھے ایک بھاری دن کو چھوڑتے ہیں (۲۷) ہم ہی نے انہیں پیدا کیااور ان کے جوڑ مضبوط کر دیئے اورجب ہم چاہیں ان جیسےان کے بدلے اور لا سکتے ہیں (۲۸) بے شک یہ ایک نصیحت ہے پس جو کوئی چاہے اپنے رب کی طرف راستہ اختیار کرے (۲۹) اور تم جب ہی چاہو گے جب اللہ چاہے گا بے شک اللہ سب کچھ جاننے والا حکمت والا ہے (۳۰) جس کو چاہتا ہے اپنی رحمت میں داخل کرتا ہے اورظالموں کے لیے تو اس نے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے (۳۱)

سورۃ الانسان
 

طالوت

محفلین
میں سوچتا ہی رہ گیا ہوں فیصل کے ان سورتوں کو آپ پوسٹ کے ساتھ نتھی کے کے موضوع کو کچھ آگے بھی بڑھائیں گے ۔۔۔
وسلام
 

شہزاد وحید

محفلین
میں نے شائد ایک نیوز چینل پر ایک خبر دیکھی تھی جس ایک ویڈیو دکھائی جا رہی تھی اور اس ویڈیو میں طالبان کا کوئی سرغنہ کہہ رہا تھا کہ پاکستان میں اسلامی قانون لا کر چھوڑے گے۔ یار مجھے اتنا غصہ آیا وہ ویڈیو دیکھ کر۔ طالبان کو تو میں مسلمان ہی نہیں سمجھتا۔ یہ چاہتے ہیں کہ افغانستان جیسا حال یو جائے یہاں۔
 

طالوت

محفلین
میں نے شائد ایک نیوز چینل پر ایک خبر دیکھی تھی جس ایک ویڈیو دکھائی جا رہی تھی اور اس ویڈیو میں طالبان کا کوئی سرغنہ کہہ رہا تھا کہ پاکستان میں اسلامی قانون لا کر چھوڑے گے۔ یار مجھے اتنا غصہ آیا وہ ویڈیو دیکھ کر۔ طالبان کو تو میں مسلمان ہی نہیں سمجھتا۔ یہ چاہتے ہیں کہ افغانستان جیسا حال یو جائے یہاں۔
شہزاد ایک تو وہ طالبان ہیں جو بیت اللہ مسحود کی قیادت میں جمع ہیں اور ان کاروائیاں یقیننا قابل مذمت ہیں لیکن بہت سی کاروائیاں انھوں نے اپنے کھاتے میں ڈال کر حکومت کو بلیک میل کرنے کی ناکام کوشش کی ہے ۔۔۔ لیکن آپ نے جو حوالہ افغانستان کا دیا ہے تو اگر آپ افغانی طالبان کے دور حکومت کو ان کی اچھائیوں اور برائیوں کے ساتھ لے کر ان سے پہلے کے حکمرانوں کے ساتھ تقابل کریں تو یقیننا وہ افغانستان کی پہلے کی صورت حال کے تناظر میں لاکھ درجے بہتر تھے ۔۔۔ اور اب بھی ہیں ۔۔۔
وسلام
 

ساجد

محفلین
طالبان اور اسلام کا آپس میں کیا تعلق؟؟؟۔
طالب علم کا احتجاج رمضان کے مقدس مہینے میں مخلوط ناچ سے متعلق تھا جو کہ دیگر مہینوں میں بھی ممنوع ہے لیکن "روشن خیالوں" نے اسے خود ہی طالبانی عمل کہہ کر قائداعظم کو بیچ میں گھسیٹ لیا۔ یہ پڑھے لکھے نہ جانے سائنس کے اصول عمل اور ردعمل سے کیوں ناواقف ہیں۔ یا پھر ان میں رواداری کا فقدان ہے۔ یہ تجربہ شدہ بات ہے کہ "روشن خیالوں" کا آزادی خیال کا نظریہ ایک ڈھکوسلہ ہے۔ جیسے ہی ان کے مزاج کے خلاف کوئی بات ہو جائے یہ بدک اٹھتے ہیں ۔ "روشن خیالوں "کے ملجا یورپ میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں گستاخی ان کے نزدیک اظہار آزادی ہے اور ہولو کاسٹ پر صرف اختلافی بات کہنا قابل تعزیر جرم۔ مخلوط ناچ ان کے نزدیک قابل تحسین ہے جبکہ اپنے ہی مذہب کا حکم یاد دلانا جہالت۔
دوسری طرف طالبان ہیں۔ جو ان "روشن خیالوں" کی منافقت کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں اور خود ہزاروں معصوم مسلمانوں کے قاتل بڑی ڈھٹائی سے خود کو اسلام کا ٹھیکیدار کہلواتے ہیں اور اپنے ہر غیر شرعی و ناجائزعمل کے لئیے اول الذکر فریق کی منافقت کو مثال بنا کر بدلے میں انتہا پسندی کو فروغ دیتے ہیں۔
طالبان اگر ہمارے دشمن ہیں تو روشن خیال دوست بن کر ہمارے معاشرے کو گھن کی طرح کھوکھلا کر رہے ہیں۔ ایک فریق احساس کمتری کا شکار ہو کر مغربی تہذیب کے سامنے ہتھیار ڈال چکا ہے تو دوسرا اسلام کی غلط تشریح کر کے اپنے عزائم پورے کر رہا ہے۔ ہمیں دونوں سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔
 
Top