ھو

سید رافع

محفلین
کیوں بات ہوتی ہے
اور پھر بات کا مقصد بھی ہوتا ہے
کیوں جسم ہوتا ہے
اور پھر کیوں روح سے زندہ ہوتا ہے
کیوں لب بولتے ہیں
اور پھر کیوں آنکھیں الگ سے بولتیں ہیں
کیوں آنکھیں رو رہی ہوتیں ہیں
لیکن اصل میں گریہ نہیں ہوتا

کیا وجہ ہے کہ قل اللہ نہیں
قل ھو اللہ ہوتا ہے
کیا وجہ ہے کہ غیب پر ایمان ہے
لیکن غیب اللہ نہیں ہوتا
کیا وجہ ہے کہ جب نور زمیں و آسماں کا ہے
نظر زمین و آسماں میں آتا نہیں
کیا وجہ ہے کہ جب رگ جاں سے ہے قریب
تو اس قربت پر بھی دوست بنتا نہیں

کیوں عمل ہے تو نیت چاہیے
کام عمل سے کیوں نہیں بنتا
جب ہیں انساں موجود عبادت کے لیے
کیا وجہ بنا لشکر جنوں کا جو نظر نہیں آتا
کیوں ڈالے تالے آسماں اور زمیں میں
کیا وجہ ہے کہ چابیاں ہیں اور دیں ہیں کن کو
کیا یہی ہے ایک عالم جوکُنْ کی تفسیر ہے
پھر کیا ہے رب العالمین اور رحمت العالمین؟

اب جب تم پہنچ ہی گئے ہو یہاں تک
تو جان لو بھید یہ سارے عقل سے کھل نہیں سکتے
عقل وہ نہیں جو سر کے پیچھے
عقل وہ ہے جو قلب کے پیچھے
عقل وہ نہیں مطلوب جو ہے سر کے پیچھے
عقل وہ ہے مطلوب جو ہے قلب کے پیچھے
سر کی عقل کو جو نہ کرو گے شغل میں خراب
قلب کی عقل بھی ہو گی سوچنے کے لیے نفیس
سر کی عقل سے سیر کرتے ہیں جہاں بھر کی
قلب کی عقل سے سیر ہے ہر ہرجہاں کی
سر کی عقل اگر ہے ایک سایہ
قلب کی عقل ہے پہاڑ اس سائے کا
سر کی عقل ہے اگر جسم
قلب کی عقل ہے مانند روح
سر کی عقل اگر دیکھتی ہے حاضر و موجود کو
قلب کی عقل دیکھتی ہے غائب و بھید کو
 

الف نظامی

لائبریرین
ھو سبحانہ وراء الوراء ثم وراء الوراء ثم وراء الوراء
کشف سے جو کچھ حاصل ہوتا ہے وہ شہود ہی شہود ہے اور حقیقت نہیں۔ بلکہ غایت ما فی الباب یہ ہے کہ خدا کا شہود ہو ہی نہیں سکتا ، پس ایمان بالغیب کے سوا چارہ نہیں۔ اور ایمان بالغیب اس وقت میسر آتا ہے جب وہم و خیال اپنی سعی میں عاجز ہو جائیں اور متخیلہ میں کچھ باقی نہ رہے ، یعنی یہ متحقق ہو جائے کہ وہ ذات ہماری دسترس سے بالاتر اور ہمارے حیطہ ء ادراک و تعقل سے ماوراء ہے۔ اور اس کی نسبت ایمان بالغیب ہی صحیح ہو سکتا ہے کیوں کہ ہماری نارسائی اور اس کی ورائیت کے لحاظ سے صرف ایمان بالغیب ہی برمحل ہے۔

حضرت مجدد کا نظریہ توحید ، ڈاکٹر برہان احمد فاروقی ، صفحہ 94
 

سید رافع

محفلین
پس ایمان بالغیب کے سوا چارہ نہیں۔
ایمان بالغیب یا ھو پر یقین بے بسی کی بات نہیں، علم کی بات ہے۔ راسخون فی العلم کی وجہ سے انہیں پتہ ہوتا ہے کہ انہیں ھوکے علم کی ضرورت نہیں اس لیے نہیں مل رہا۔ ساتھ یہ بھی ہے کہ ھوکے علم پر ہرکسی کو مطلع نہیں فرماتا سوائے اپنے پسندیدہ رسولوں کے اور پھر وہ اس رسول کے آگے اور پیچھے علمِ غیب کی حفاظت کے لئے نگہبان مقرر فرما دیتا ہے۔ یعنی رسول پر بھی مسلسل پہرہ ہو جاتا ہے۔

یہ نقشبندی اور حنفی ہیں اور اس میں کافی شدید ہیں۔ حضرت عمر فاروق سے بتیسویں پشت میں ملتے ہیں۔

فلسفے کی ساری لغویات ان کے کلام میں بھی شامل ہیں جیسا کہ ان کے مکتوبات مجدد الف ثانی جس نے بھی پڑھے ہوں اسکو اندازہ ہو گا ہی۔ یہ سب حکومتی لوگ اور فلسفی ہیں۔ یہ اصل میں حضرت عبدالخالق غجدوانیؒ کا روحانی سلسلہ، جو بعد میں نقشبندی سلسلے کی بنیاد بنا، حضرت علیؓ سے منسلک نہیں بلکہ یہ سلسلہ حضرت ابوبکر صدیقؓ سے ہوتا ہوا آگے بڑھتا ہے۔ اس لیے سارے شدت پسند اس طبقے میں ہیں۔ نقشبندی سلسلہ واحد معروف صوفی سلسلہ ہے جو حضرت ابوبکر صدیقؓ سے اپنی نسبت جوڑتا ہے، جبکہ دیگر مشہور صوفی سلسلے، جیسے قادری، چشتی، سہروردی وغیرہ، حضرت علیؓ سے منسوب ہوتے ہیں اور انہی سلسلوں میں یا آل محمد ص سے جڑے لوگوں میں نجات ہے۔
 

الف نظامی

لائبریرین
یہ سب حکومتی لوگ اور فلسفی ہیں۔
۱- مجدد الف ثانی حکومتی نہیں اور فلسفی بھی نہیں۔
-
۲-دلیل کا جواب دلیل سے ہوتا ہے نہ کہ شخصیت پر اعتراض کر دینا۔

۳- چشتی سلسلہ کے بزرگ حضرت الشیخ کلیم اللہ جہاں آبادی کا قول ہے: حقیقت تمام تر مدرک نہیں ہوتی یہ مرتبہ نہایت عرفان کا ہے۔بحوالہ کشکول کلیمی ،صفحہ ۹۱
 
آخری تدوین:

الف نظامی

لائبریرین
کیا آپ کے علم میں ہے کہ مجدد الف ثانی حنفی تھے؟


کیا آپ نے مجدد الف ثانی کی چار جلدیں مکتوبات مجدد الف ثانی کی پڑھیں ہیں؟
بھائی آپ کی نظر میں وہ حنفی ہوں یا حکومتی ہوں یا فلسفی آپ بات کا جواب دیجیے۔ شخصیت پر اعتراض جوابِ دلیل کیسے ہوا؟
 

سید رافع

محفلین
بھائی آپ کی نظر میں وہ حنفی ہوں یا حکومتی ہوں یا فلسفی آپ بات کا جواب دیجیے۔ شخصیت پر اعتراض جوابِ دلیل کیسے ہوا؟
میں آپ سے فلسفیانہ بحث میں نہیں پڑنا چاہتا۔

سادہ اصول ہے۔

قرآن و عترت رسول ص جڑے ہیں قیام قیامت تک۔

مان لیں آپکا فائدہ نہ مانیں تو سنتے رہیے مجدد الف ثانی رح اور امام غزالی رح کی۔

کوئی گرفت نہیں۔
 

الف نظامی

لائبریرین
سادہ اصول ہے۔

قرآن و عترت رسول ص جڑے ہیں قیام قیامت تک۔

مان لیں آپکا فائدہ نہ مانیں تو سنتے رہیے مجدد الف ثانی رح اور امام غزالی رح کی۔

کوئی گرفت نہیں۔
آپ کی بات درست ہے اگر مجدد الف ثانی اور امام غزالی کو عترت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے علمی فیض نہ ملا ہو۔ جب کہ ایسا نہیں ہے۔

دیکھیے مجدد الف ثانی کیا لکھتے ہیں:

و راہی است کہ بقربِ ولایت تعلق دارد : اقطاب و اوتاد و بدلا و نجباء و عامۂ اولیاء اللہ، بہمین راہ واصل اندراہ سلوک عبارت ازین راہ است بلکہ جذبۂ متعارفہ، نیز داخل ہمین است و توسط و حیلولت درین راہ کائن است و پیشوای، و اصلان این راہ و سرگروہ اینھا و منبع فیض این بزرگواران : حضرت علی مرتضی است کرم اللہ تعالے وجھہ الکریم، و این منصب عظیم الشان بایشان تعلق دارد درینمقام گوئیا ہر دو قدم مبارک آنسرور علیہ و علی آلہ الصلوۃ و السلام برفرق مبارک اوست کرم اللہ تعالی وجھہ حضرت فاطمہ و حضرات حسنین رضی اللہ عنہم درینمقام با ایشان شریکند، انکارم کہ حضرت امیر قبل از نشاء ہ عنصرے نیز ملاذ این مقام بودہ اند، چنانچہ بعد از نشاءہ عنصرے و ہرکرا فیض و ہدایت ازین راہ میر سید بتوسط ایشان میر سید چہ ایشان نزد ن۔ قطہ منتھائے این راہ و مرکز این مقام بایشان تعلق دارد، و چون دورہ حضرت امیر تمام شُد این منصب عظیم القدر بحضرات حسنین ترتیبا مفوض و مسلم گشت، و بعد از ایشان بہریکے از ائمہ اثنا عشر علے الترتیب و التفصیل قرار گرفت و در اعصاراین بزرگواران و ہمچنیں بعد از ارتحال ایشان ہر کرا فیض و ہدایت میرسید بتوسط این بزرگواران بودہ و بحیلولۃ ایشانان ہرچند اقطاب و نجبای وقت بودہ باشند و ملاذ وملجاء ہمہ ایشان بودہ اند چہ اطراف را غیر از لحوق بمرکز چارہ نیست۔

(امام ربانی مجدّد الف ثانی، مکتوبات، 3 : 251، 252، مکتوب نمبر : 123)

’’اور ایک راہ وہ ہے جو قربِ وِلایت سے تعلق رکھتی ہے : اقطاب و اوتاد اور بدلا اور نجباء اور عام اولیاء اللہ اِسی راہ سے واصل ہیں، اور راہِ سلوک اِسی راہ سے عبارت ہے، بلکہ متعارف جذبہ بھی اسی میں داخل ہے، اور اس راہ میں توسط ثابت ہے اور اس راہ کے واصلین کے پیشوا اور اُن کے سردار اور اُن کے بزرگوں کے منبعِ فیض حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم ہیں، اور یہ عظیم الشان منصب اُن سے تعلق رکھتا ہے۔ اس راہ میں گویا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دونوںقدم مبارک حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مبارک سر پر ہیں اور حضرت فاطمہ اور حضرات حسنین کریمین رضی اللہ عنہم اِس مقام میں اُن کے ساتھ شریک ہیں۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ حضرت امیر رضی اللہ عنہ اپنی جسدی پیدائش سے پہلے بھی اس مقام کے ملجا و ماویٰ تھے، جیسا کہ آپ رضی اللہ عنہ جسدی پیدائش کے بعد ہیں اور جسے بھی فیض و ہدایت اس راہ سے پہنچی ان کے ذریعے سے پہنچی، کیونکہ وہ اس راہ کے آخری نقطہ کے نزدیک ہیں اور اس مقام کا مرکز ان سے تعلق رکھتا ہے، اور جب حضرت امیر رضی اللہ عنہ کا دور ختم ہوا تو یہ عظیم القدر منصب ترتیب وار حضرات حسنین کریمین رضی اللہ عنہم کو سپرد ہوا اور ان کے بعد وہی منصب ائمہ اثنا عشرہ میں سے ہر ایک کو ترتیب وار اور تفصیل سے تفویض ہوا، اور ان بزرگوں کے زمانہ میں اور اِسی طرح ان کے انتقال کے بعد جس کسی کو بھی فیض اور ہدایت پہنچی ہے انہی بزرگوں کے ذریعہ پہنچی ہے، اگرچہ اقطاب و نجبائے وقت ہی کیوں نہ ہوں اور سب کے ملجا و ماویٰ یہی بزرگ ہیں کیونکہ اطراف کو اپنے مرکز کے ساتھ الحاق کئے بغیرچارہ نہیں ہے۔‘‘
(امام ربانی مجدّد الف ثانی، مکتوبات، 3 : 251، 252، مکتوب نمبر : 123)
 
آخری تدوین:

سید رافع

محفلین
اگر مجدد الف ثانی اور امام غزالی کو عترت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے علمی فیض نہ ملا ہو۔
تبھی تو آپ سے کہا آپ پر کوئی گرفت نہیں۔ آپ مسلمان ہی رہیں گے۔ اللہ کو ایک ماننے کی توحید سے منسلک رہیں گے۔

لیکن توحید کا سایہ ہی مل پائے گا۔

مجدد الف ثانی اور امام غزالی دونوں ہی فلسفی بلکہ حنفی تھے۔ انکے نام اصل میں احمد (مجدد الف ثانی) اور محمد (امام غزالی) تھے۔ یہ بعد کے لوگوں نے نام بڑھا چڑھا کر تبدیل کر دیے کہ گویا بت ہی بنا دیے۔

احمد سرہندی تو اس حد تک مکتوبات میں گئے کہ کہا حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت مہدی (علیہ السلام) فقہ حنفی کی پیروی کریں گے۔ اندازہ کریں!

خود ہی فرماتے ہیں کہ کسی بدعت میں کوئی حسن نہیں اور دبے لفظوں میں بدعت حسنہ نام کی تراویح کی بدعت کو رد کر گئے۔ سو فقہ حنفی ایک جبر ہے جو مسلمان ہر دن کر رہے ہیں اور تراویح کے نام پر ماہ رمضان میں کرتے ہیں۔

اب آپ خود ہی سوچ لیں کے بنو امیہ کے شب و ستم اور جعلی احادیث گھڑنے کے دور میں اور بنو عباس کے فلسفے، علم کلام، خلق قرآن اور صوفی ازم و باطنی فرقہ کو عام کرنے دور میں جو فقہ حنفی حکومتی سرپرستی میں پروان چڑھا ہو اس کیا کیا شامل ہوا ہو گا۔

اس لیے حکومتی یا حنفی صوفیوں کو احتیاط کے ساتھ استعمال کریں ورنہ لٹھ مار، مراد کو چھوڑے، دہشت گرد توحیدی بن جائیں گے جو حکومتوں کے غلام ہوں گے۔ باادب بانصیب کی صدا لگانے والے بادشاہی مزاج کے صوفی کم عقل انسانوں کو قابو میں رکھنے کے لیے تخلیق کیے گئے ہیں تاکہ جو بولے گستاخ بن جائے۔
 

سید رافع

محفلین
کیا آپ کے علم میں ہے کہ امام غزالی رح صوفی بلکہ فلسفی تھے؟ کیا آپ کے علم میں ہے کہ انکے پیش نظر اس دور کے فتنوں کا رد تھا؟ احیاء علوم الدین جس سے آپ نے یہ عبارت اقتباس لی ہے اس لیے لکھی گئی تھی کہ اس دور میں یونانی فلسفہ ایک طرف آگ لگا رہا تھا تو دوسری طرف تصوف میں انتہاپسندی۔ اسی طرح اس کتاب اور "فضائح الباطنیہ" کے ذریعے وہ باطنیہ کے فتنے کا قلع قمع کرنا چاہتے تھے۔ ان تمام کوششوں کا مقصد مسلمانوں کو ایک وحدت میں پرونا تھا تا کہ حکمران طبقے میں اقتدار کی کشمکش اور سازشوں کا خاتمہ ہو اور صلیبی جنگوں کا مقابلہ کیا جا سکے۔ شاید آپکے علم میں ہو کہ نظامیہ مدارس کے فارغ التحصیل طلباء نے اسلامی تعلیمات اور امام غزالی کی فکر سے متاثر ہو کر صلیبی جنگوں میں حصہ لیا۔

اس تمہید کا مقصد یہ ہے کہ انکے پیش نظر حقیقت سے زیادہ وحدت اہم تھی تاکہ فرقوں میں فساد کم ہو۔ چنانچہ بدگمانی سے متعلق انکی یہ تحریر فساد کرتے عوام کے لیے تھی۔
 

الف نظامی

لائبریرین
حنفی فلسفی، دیگر مسلمان یونانی فلسفیوں کا رد کرتے ہوئے۔ خلاصہ کتاب۔
علم الکلام اور فلسفہ۔
سورہ الحجرات آیت 2 کا شان نزول دیکھ لیجیے گا۔
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ اس کا جواب آپ کو اُس صدیقی قلندر سے ملے جو حیدری قلندر بھی ہو۔ دلیل سے بہتر ہے کہ مشاہدہ ہوجائے۔
متعلقہ:
ساری دنیا کے حیدری قلندر سب حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ سے وابستہ ہیں۔ صدیقی قلندر بھی بواسطہ ء حضرت سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ حضرت سیدنا علی کرم اللہ وجہہ سے وابستہ ہیں۔ گویا جملہ قلندر نسبتِ علوی ہی رکھتے ہیں۔
 
آخری تدوین:

سید رافع

محفلین
آپ نے اشعری ،معتزلہ اور ماتریدی کا نام سنا ہے جو فضول، سنت سے دور محض عقل کے گھوڑے عقائد سمجھنے کے لیے دوڑاتے ہیں۔ یہ فضول علم ہے۔

یہ افلاطون اور ارسطو سے فارابی، ابن سینا اور ابن رشد جیسے لوگوں نے عیسائی نشستوں میں بیٹھ بیٹھ کر حاصل کیا۔ جس کی اسلام کے طہارت کے نظام میں چنداں ضرورت نہیں۔

سیدھا کہیں امام حسن ع
 

الف نظامی

لائبریرین
آپ نے اشعری ،معتزلہ اور ماتریدی کا نام سنا ہے جو فضول، سنت سے دور محض عقل کے گھوڑے عقائد سمجھنے کے لیے دوڑاتے ہیں۔ یہ فضول علم ہے۔
چوں کہ یہاں علماء کی ڈومین کی بات شروع ہوتی ہے لہذا یہاں میں کلام نہیں کر سکتا البتہ ایک سید عالم کو ضرور ٹیگ کر دوں گا۔
سید عمران
 
Top