ہائیکو سے متعلق نوشینہ سحر کا مضمون

خاورچودھری

محفلین
ٹھنڈاسورج پر گفتگو

نوشینہ سحر

”شاعری جذبات واحساسات کے اظہارکانام ہے۔شاعراپنی تخلیق کے ذریعے اظہارِذات کرتاہے اور تخلیقی عمل سے گزرکرنہ صرف خوداپنی ذات کاعرفان حاصل کرتاہے بلکہ دوسرے لوگوں پربھی اپنے آپ کومنکشف کردیتاہے یہی نہیں بلکہ خیالات کی انفرادیت زبان وبیان کاسلیقہ اورقرینہ اسے دوسروں سے ممتازکردیتاہے۔شعراء کے ہجوم میں کچھ نئے نام بھی ہیں جن کی شاعری میں مٹی کی خوشبواورعلاقائی رنگ انھیں دوسروں سے ممتازکرتاہے۔ان میں ایک نام خاورچودھری کا بھی ہے۔۔۔وہ پیشے کے لحاظ سے صحافی ہیں۔
ٹھنڈاسورج ان کے ہائیکواورماہیے پرمشتمل مجموعہ کلام ہے۔ہائیکوجاپانی صنف سخن ہے۔اس کاآغازسولہویں صدی کے اواخرمیں ہوا۔سترھویں صدی اوراس کے بعدیہ صنف جاپان میں بہت مقبول ہوئی۔”ہوکو“جاپانی زبان کا وہ لفظ ہے جواصطلاحاًکسی نظم کے ابتدائی حصے کے معنی میں مستعمل ہے۔جب جاپانی شاعری میں نظم کایہ ابتدائی حصہ”ہوکو“ علیحدہ انفرادی شکل میں پیش کیاگیاتو”ہائی کائی“اورپھر”ہائیکو“کہلایا۔۔۔۔۔۔۔
(جاری ہے)
 

محمد وارث

لائبریرین
شکریہ خاور صاحب، خوبصورت اور معلوماتی مضمون شیئر کرنے کیلیئے۔ امید ہے باقی مضمون بھی پوسٹ کر دیں گے۔

ایک بات یہ کہ یہ مضمون، طنز و مزاح کی پسندیدہ تحریریں میں پوسٹ ہو گیا تھا میں نے اسے 'بزم سخن' میں منتقل کر دیا ہے۔
 

خاورچودھری

محفلین
بقیہ حصہ

نوشینہ سحر

اس صنف کواردومیں متعارف ہوئے اب نصف صدی سے زیادہ کاعرصہ ہوچکاہے۔غزل جس طرح قصیدے سے نکلی ہے،ہائیکوبھی”تنکا“سے برآمدہوئی۔ ”تنکا“ میں پانچ مصرعے ہوتے ہیں اوریہ مکالماتی اندازمیں لکھی جاتی ہے۔ پہلے تین مصرعے(5-7-5سلے بلزپرمشتمل)ایک شخص کی زبان سے اورباقی دومصرعے(7-7سلے بلزپرمشتمل) دوسرے شخص کی طرف سے۔یہ اولین تین مصرعے بعدمیں ایک علیحدہ صنف بن گئے اور”ہوکو“(HUKKU) کے نام سے مشہور ہوئے بعدازاں اس کانام ہائیکو قرار پایا۔ ہائیکو کا پہلا مصرعہ پانچ سلے بلزمیں دوسراسات میں اورتیسراپھر پانچ سلے بلزمیں ہوتاہے۔سلے بلزدوحرفی لفظ ہوتاہے،جیسے،تم،کووغیرہ۔اسکے بعض شعراء میں باشو(1644-1614) بوسن (1781-1715) ایسا(1816-1763)اورشیگی(1902-1867)شامل ہیں جنھوں نے اسکوایک بلند مقام عطاکردیا۔
اردوہائیکومغرب کے وسیلے سے آیا۔1983ء جاپان قونصلیٹ نے کراچی میں ہائیکومشاعروں کاآغازکیا اور شعراء کواس کی مخصوص تکنیک سے آگاہ کیا۔رئیس علوی اوروضاحت نسیم نے اس صنف کی خاطرجاپانی زبان سیکھی۔وہ کہتے ہیں”جاپانی زبان میں اس صنفِ سخن کااصل تلفظ”ہائیک“ہے۔“
ٹھنڈاسورج ہائیکواورماہیے کے میدان میں ایک گراں قدراضافہ ہے۔جس میں خیالات کی ندرت بھی ہے اور بیان کی تازگی بھی۔ہائیکونگاروں میں خاورچودھری کانام ایک خوشگواراضافہ ہے۔انھوں نے ہائیکوکے مزاج اورمضامین کو نہایت خوبصورت اندازمیں بیان کیاہے۔بقول پروفیسرہارون الرشید”خاورچودھری نے زمین سے آسمان تک قدرت کے بیشتررنگوں کونہایت مہارت سے پینٹ کیاہے اورفطری ماحول کے اندرڈوب کرنہایت اجلے اورنازک الفاظ کے دھاگوں سے ہائیکوکی لڑیاں پروئی ہیں۔ان کے ہائیکوزپڑھتے ہوئے ایسے لگتاہے جیسے قاری ایک Improvisation سے گزررہاہو۔مصرعوں کی بُنت،الفاظ کی نشست وبرخاست اورخیالات کی Dimension سے اندازہ کیاجاسکتاہے کہ انھیں اپنی بات کہنے پرکتناکنٹرول حاصل ہے۔
خاورچودھری نے ہائیکوکے ذریعے جوتجربات بیان کیے ہیں وہ ان کے گہرے مطالعے،کڑے مشاہدے اور وسیع سوچ کے حامل ہیں۔ان کے اندازمیں جدت بھی ہے اورفطرت کی سچائی کی عکاسی بھی۔“مثال کے طورپران کی تخلیق کو دیکھیے:

بانجھ بدلیوں نے پھر
گھول کرپیا سورج
سانس ہوگئی ٹھنڈی

جب شکوک بڑھ جائیں
اعتمادکی چڑیاں
پرسمیٹ لیتی ہیں

گرگٹ ہے بدنام
خون کی ہولی کھیل گئے
امن کے نعرے باز

آگ پہاڑوں پرجلتی ہے
سوکھ گئیں خواہش کی ندیاں
راکھ ہوئے وعدوں کے تارے

جب تم یادآئے
گونگے خواب ہی کاشت کیے
بنجرآنکھوں میں

عہدِوفاچھوڑو
جب انجیرکے پیڑوں پر
پھول نہیں کھلتے

غربت،بے کاری
کمرے کی چھت سے لٹکے
ایک جواں کی لاش

سگرٹ،بیڑی پان
اب توایساکچھ بھی نہیں
شاعرکی پہچان

کتاب کادوسراحصہ”ماہیے“پرمشتمل ہے۔ماہیاپنجابی زبان کی صنف اورعوامی گیت ہے…اورمکالماتی ا ندازسے گایا جاتا ہے۔ماہیاشاعری کی ایک نہایت حسین اوردلآویزصنف ہے اوریہ شعروں سے زیادہ مضافات میں مقبول ہے۔خود خاور چودھری کاتعلق مضافات(حضرو)سے ہے ،اس لیے ان کے لوک ورثہ کی روایت بڑی مضبوط ہے۔بقول پروفیسرمحمد اعظم خالد”جب فطرت کادست لطیف درِدل پردستک دیتاہے توماہیاوجودمیںآ تاہے۔“
خاورچودھری نے اپنے ماہیوں کواردومیں تخلیق کرکے اردوزبان کی وسعت میں اضافہ کیاہے۔رومانیت،ہجر و وصل کی یادیں،دیہات کی ٹھنڈی ہوائیں اورنرم مٹی کی خوشبوان کے ہاں نمایاں ہیں۔

رنگوں سے بھراموسم
بیت چکا ساون
کیااشک بہائیں ہم

سچ شہدسے میٹھاہے
رس ترے ہونٹوں کا
انعام وفاکاہے

خاورچودھری کے ہائیکواورماہیے ان کی پہچان ہیں۔وہ اپناپیغام غیرمحسوس اندازسے قاری تک پہنچاکراسکے دل میں اپنا مقام بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ان کاشعری سفرابھی شروع ہواہے۔مستقبل میں ان سے بڑی توقعات کی جاسکتی ہیں۔“
(ماہنامہ”تجسس“کوٹری۔سندھ/مئی2006ء)
 
Top