ہائے بجلی ، ہائے ہائے بجلی ۔ ۔

اظہرالحق

محفلین
رات ایک طویل قوالی والا خواب دیکھا ۔۔ ۔ جسکی کچھ جھلک ادھر پیش خدمت ہے
ہمارے کراچی کے بہت سارے لوگ بجلی آنے جانے پر کیا گا رہے ہیں ملاحذہ فرمائیے

آئے بجلی اور جائے بجلی
پاگل سب کو بنائے بجلی
روشنیوں کا شہر کراچی
اندھیروں سے سجائے بجلی

بولیں سارے مل جُل کے
ہائے بجلی ہائے ہائے بجلی

دیکھا تو اپنے مًنا پہلوان جی صرف لنگوٹ کًس کر بھنگڑا ڈال رہے تھے

او باری برسی کھٹن گیا تے
کھٹ کے لیاندا اے سی
اے سی کیا چل سی
جدوں بجلی نہ ہو سی
میں کوئی جھوٹ بولیا ۔ ۔
(سب ملکر) کوئی ناں
میں کوئی کفر تولیا
(سب ملکر) کوئی نا
کوئی ناں بھئی کوئ ناں

ایک دم سے بجلی آ گئی جیسے سبکو چُپ لگ گئی صرف سانسوں کی اور پنکھوں کے چلنے کی آوازیں آ رہیں تھیں کہ پھر بجلی چلی گئی اور ایک شور سا اٹھا

بھوکے ننگوں کو نچائے بجلی
آئے بجلی جائے بجلی
ہائے بجلی ہائے ہائے بجلی

اپنے واجہ بھائی کو بہت غصہ آیا

اڑے اس بجلی کمپنی کو بم سے اڑا دو ڑے ، ہماڑا تو اب دم ختم ہو گیا ہے ۔ ۔ پھر خود ہی گانا شروع کر دیا، اور سب انکے ساتھ ناچ رہے تھے

بجلی ہم کو دیو ڑے ۔ ۔۔ وشملے
بجلی سے یہ کہو ڑے ۔ ۔ ۔ وشملے
گرمی سے مر گیا ، سارا شہر ڈر گیا
گرمی سے مرو ڑے ۔ ۔ ۔ وشملے ۔ ۔

اب کیا تھا وشملے وشملے ۔ ۔۔ ۔ پھر ایک دم سے جیسے بجلی کو ہچکہ لگی ۔ ۔ بلب آن ہوئے ۔ ۔ پنکھوں نے کھٹ کھٹ کی اور بجلی پھر غائب ۔ ۔ ۔ ۔ مولوی صاحب جو آج گرمی کی وجہ سے اپنی جناح کیپ کے بغیر ہی تھے اٹھے اور کہنے لگے

اب اللہ سے ہی کہو برسائے بجلی
ہائے بجلی ،ہائے ہائے بجلی ۔ ۔ ۔

سب کے چہرے پر جیسے اداسی چھا گئی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔اپنے سائیں مہربان علی ۔ ۔ ۔ کھڑے ہوئے جو اپنی اجرک کو کندھوں پر ڈالا اور زور کا نعرہ لگا ۔ ۔ ۔ ہے جمالو ۔۔ ۔۔ اور بجلی آ گئی ۔ ۔۔ سب خوشی سے جھوم اٹھے

بجلی آگئی ہے شہر میں ۔ ۔ ہے جمالو
بجلی چھا گئی ہے شہر میں ۔ ۔ ہے جمالو
ہے جمالو ۔ ۔ واہ واہ جمالو ۔ ۔جمالو
بجلی آ گئی ہے شہر میں ۔ ۔ ہے جمالو ۔ ۔

اور پھر بجلی چلی گئی ۔ ۔ ۔۔ سائیں مہربان علی کو بہت غصہ آیا ۔ ۔

گھوڑا ڑے ۔ ۔ کیوں ہم کو تڑپائے بجلی
(سب لوگ سینے پر ہاتھ مار مار کر کہنے لگے)
ہائے بجلی ہائے ہائے بجلی ۔ ۔ ۔

ایک شور سا تھا ۔ ۔ اور پھر بجلی آ گئی ۔ ۔ ۔اور پھر خاموشی چھا گئی ایسے جیسے کسی نے کچھ بولا تو پتہ نہیں کیا ہو جائے گا ۔ ۔ ۔ فاروق بھائی کے گھر سے دادی اماں کی آواز آئی ۔ ۔ ۔ ارے او مُنے ۔ ۔ (وہ ابھی تک فاروق بھائی کو مُنا کہتیں ہیں ، جبکہ فاروق بھائی کے ماشااللہ سے اپنے پانچ مُنے اور مُنیاں ہو چکے ہیں ) ارے او مُنے ۔ ۔ میرا سروتا کہاں ہے ۔ ۔ ۔بجلی آئی ہے جلدی سے تلاش کر ۔ ۔ اور مسز فاروق کی آواز سنائی دی ۔ ۔ ۔

سروتا کہاں بھول آئیں ۔ ۔ ۔ مُنے کی اماں
سروتا کہاں بھول آئیں ۔ ۔ مُنے کی اماں

اور پھر بجلی چلی گئ ۔ ۔ ۔ دادی اماں کی آواز سنائی دی ۔ ۔

چھالیا ہوتو ہر کوئی چبائے بجلی
ہائے بجلی ۔ ۔۔ ہائے ہائے بجلی ۔ ۔ ۔

اتنے میں گُل خان اپنی سائکل پر گلی میں داخل ہوا ۔ ۔ اوے خوچہ بچو بچو ۔ ۔ بچو بچو ۔ ۔ اوے خانہ خراب امارا بریک نہیں ہ ۔ ۔ فاروق بھائی کے مُنے نے کہا ۔۔ جسکا کل پیپر تھا اور وہ بجلی کی وجہ سے کچھ نہ پڑھ پا رہا تھا ۔ ۔ ۔ گُل چاچا ۔ ۔ آپ کا بریک نہیں تو سائیکل کا بریک لگاؤ ۔ ۔ ۔ ۔ مگر گُل خان کی سائکل نہ رکی ۔ ۔ اور حسب معمول کھمبے سے جا ٹکرائی اور بجلی آ گئی ۔ ۔ ۔ اور گُل خان سب بھول کر کھڑا ہوا اور آواز لگائی ۔ ۔
او یا قربان ۔ ۔ ۔۔ بجلی خان ۔ ۔۔امارا جانان
او تو آیا تو جانا ناں ۔ ۔ وئی ۔ ۔

مگر بجلی کس کی سنتی ہے ۔ ۔ ۔ پھر چلی گئی ۔ ۔

اور اس بار سب نے ملکر یہ گایا ۔ ۔

لب پہ آتی ہے دعا بن کہ تمنا میری
ایک بار آئے تو نہ جاے کبھی بجلی

ہو مرا کام کے ایس سی سے شکایت کرنا
بجلی کے آنے جانے کی خرابی کی مرمت کرنا

میرا اللہ ہر گدائی سے بچانا مجھکو
بجلی جاتی نہ ہو جہاں دینا وہ ٹھکانہ مجھکو

پچھلے ایک گھنٹے سے بجلی موجود ہے ۔۔ ۔ مگر پھر بھی سب جاگ رہے ہیں ۔۔ کہ کب کس وقت چلی جائے ۔ ۔۔ دادی اماں بھی دعا کر رہی ہیں ۔ ۔

سوہنی بجلی ، اللہ رکھے ، قدم قدم آباد
قدم قدم آباد تجھے ۔ ۔
قدم قدم آباد ۔ ۔ ۔ ۔۔

اور منا پہلوان بھی لنگوٹ کو ڈھیلا کر کہ سوچ رہا ہے ۔ ۔ ۔کہ شاعر نے سچ ہی کہا تھا

چاند میری زمیں ، پھول میرا وطن ۔ ۔ ۔ ۔ کیونکہ چاند پر تو بجلی نہیں ہے نا ، اور پھول کو بھی بجلی کی ضرورت نہیں ہوتی

ادھر سائیں مہرباں مچھروں سے بچنے کے لئے اپنی رلی پر سونے کی کوشش کر رہا تھا اور پنے بچوں پر پڑی اجرک دیکھ رہا تھا جسکا نیلا اور سرخ رنگ جیسے ۔ ۔ مکس ہو کر کہ رہا تھا

رنگ برنگے پھولوں کا گل دستہ ۔ ۔ پاکستان ۔ ۔ ۔ یہ گلدستہ ۔ ۔ ۔ کتنا مرجھا جاتا ہے جب بجلی نہیں ہوتی ۔ ۔ ۔

واجہ بھائی ۔۔ ۔ کو دو دن بعد نیند آئی تھی ۔ ۔ ۔ مگر خواب وہ بھی دیکھ رہے تھے ۔ ۔۔۔

آؤ بچو سیر کرائیں تم کو پاکستان کی ۔ ۔ ۔
بجلی کی ویرانی ہے حکومت فو جستان کی ۔ ۔
بجلی آئے زندہ باد ، بجلی جائے زندہ باد ۔ ۔ ۔

گُل خان نےدروازہ کھول کر چارپائی بچھائی تھی اور سوچ رہا تھا کہ کل وہ سائیکل کا بریک ضرور ٹھیک کروائے گا ۔ ۔ کیونکہ بجلی نہ ہونے کی وجہ سے وہ کئی بار کھلے گٹروں سے ٹکرا چکا تھا ۔ ۔ ۔ اسے اپنا گاؤں بہت یاد آ رہا تھا جہاں وہ آنکھیں بند کر کہ بھی چل سکتا تھا ۔ ۔ مگر وہ سوچ رہا تھا

وہ بھی پاکستان ہے ، یہ بھی پاکستان ہے
وہ بھی میری جان ہے ، یہ بھی میری جان ہے

مگر فرق صرف بجلی کا ہے ؟؟؟؟؟؟؟؟

اور دور کہیں ۔ ۔ ۔ بجلی کی تلخیوں سے آزاد اظہر یہ سب کچھ دیکھ رہا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ اور دل سے دعا کر رہا تھا ، اپنے روشن روشن پاکستان کے لئے ۔ ۔

جیوے جیوے ، جیوے پاکستان
پاکستان ، پاکستان ۔ ۔ ۔ جیوے پاکستان ۔ ۔ ۔

اور میری آنکھ ۔ ۔ ۔ کُھل گئی ۔۔ ۔۔
 

خاور بلال

محفلین
واہ! کیا بات ہے۔ تخیل کی انتہا کردی۔زبانی داد دینے میں‌مزا نہیں‌آتا سامنے ہوتے تو بات تھی۔

صاحب یہ بجلی کے خلاف اتنی باتیں نہ کیا کریں، یہ جب جاتی ہے تو زندگی کا احساس ہوتا ہے، اس کے جانے میں‌ بھی ایک اپنائیت ہے۔ بجلی نہ جایا کرے تو اجنبی اجنبی لگتا ہے۔ اس کے آنے میں وہ اپنا پن نہیں جو اس کے جانے میں ہے۔

اگر بجلی نہ جایا کرے تو‌ کراچی والے منہ بھر بھر کے گالیاں کس کو دیں گے، بغیر گالیاں دئیے تو یہاں لوگ تڑپ کر اور پھڑک کر رہ جائیں، یہاں کے تو کوے سے بھی بات کریں گے تو پہلے منہ سے پان تھوکے گا پھر گالی دے گا اس کے بعد کائیں کائیں کرے گا۔

بجلی بے وفا یار سے تو اچھی ہے۔ اگر بجلی جائے گی نہیں تو اس کی قدر کس کو ہوگی۔ بھئی لیلیٰ اور مجنون کا قصہ تو آپکے سامنے ہے، اگر مجنوں کو لیلیٰ مل جاتی تو قصہ مختصر ہوجاتا، لیلیٰ کے نہ ملنے میں جو لذت ہے وہ ملنے میں نہیں، مجنوں کو لیلیٰ مل جاتی تو کیا ہوتا، شادی ہوتی ، بچے ہوتے لڑائی ہوتی۔ مجنوں کو شہر میں نوکری کرنی پڑتی۔۔۔

ہمارے ایک دوست ہیں نام ہے خرم۔ کتے سے بہت ڈرتے ہیں۔ کتا پیچھے لگ جائے تو کتے سے بھی تیزے دوڑتے ہیں یعنی کتے سے بھی دو ہاتھ آگے ہیں۔ لیکن! بجلی چلی جائے تو بے دھڑک گلی میں گھومتے نظر آتے ہیں ۔۔۔کیونکہ اندھیرے میں ان کو کتے نظر نہیں آتے۔۔۔۔۔

یہ تو ایک مثال ہے ایسے نجانے کتنے لوگ ہیں جن کیلئے بجلی کا جانا رحمت بن جاتا ہے۔ بجلی کے جانے سے جانے کتنے لوگوں کی زندگی بچتی ہے آپ کیا جانیں، کتنے ہی معصوم عاشق بے وفا یار کے غم میں خودکشی کی غرض سے بجلی کے ساکٹ میں انگلیاں گھسیڑدیتے ہیں لیکن سلام ہو بجلی پر جو عین وقت پر چلی جاتی ہے، اور معصوم عاشق کی جان بچ جاتی ہے ۔۔۔۔


ہمارے ایک دوست ہیں، ان کا نام فہد ہے۔ اللہ کے بعد سب سے زیادہ بیگم سے ڈرتے ہیں۔ کہتے ہیں بجلی جانے سے جہنم کی ریہرسل ہوجاتی ہے، ویسے ایک دفعہ اسی بجلی کی وجہ سے وہ جہنم واصل ہونے سے بچ گئے۔ واقعہ یہ ہے کہ ایک دفعہ ان کی بیگم نے ان کی کُٹ لگانے کیلئے بیلنا اٹھایا اور عین سر کا نشانہ لگا کر پھینکا ہی چاہتی تھیں کہ بجلی چلی گئی، اور فہد صاحب اس کو غیبی مدد سمجھ کر چارپائی کے نیچے چھپ گئے، سارے گھر میں ڈھنڈیا مچی لیکن مجال ہے جو سانس لینے کی بھی آواز نکالی ہو، آفت یہ ہوئی کہ اندھیرے میں مچھروں نے انہیں پہچان لیا اب انہیں مچھر کاٹیں اور چیخیں روکنے سے ان کا دم نکلے، بیگم کے ڈر سے چیخ بھی نہیں سکتے تھے، سو عین وقت پر ان کے ذہن میں ایک ترکیب آئی اور انہوں نے اپنی چیخیں ایسے سُر میں خارج کیں کہ چارپائی پر سوئے منے کے رونے کا گمان ہوتا تھا۔ بیگم دھوکے میں آگئیں اور منے کو تھپڑ مار مار کے چپ کرانے لگیں۔ منا ان کے تھپڑوں سے سچی مچ کا رونے لگا تو فہد صاحب کی مشکل آسان ہوئی کیونہ اب ان کی چیخیں منے کے رونے کی آواز میں مل گئیں اور سُر سے سُر ملنے سے جو بھیانک آواز پیدا ہوئے اس کی فریکوئینسی سے سارے مچھر بے ہوش ہوگئے۔ اب ہر سال وہ زندگی بچنے کی سالگرہ مناتے ہیں

سو اظہر صاحب آخر آپ کو بجلی سے اتنی شکایت کیوں ہے؟
 

اظہرالحق

محفلین
خاور شکریہ پسندیدگی کا

راز کی بات بتاتا ہوں ، میں بھی بیگم سے ڈرتا ہوں ، اور آپ پتہ نہیں کسے بجلی سمجھے ۔ ۔ ۔ بجلی ہمارے محلے کی ۔ ۔۔ ۔ یار اب آپ خود سمجھدار ہیں ۔۔ ۔ مزید منہ نہ کھلوائیں ۔ ۔ :twisted:
 
Top