زرقا مفتی
محفلین
ہائے میرا ڈبو!
سیمی فون پر روئے جا رہی تھی ’’خالہ جانی آپ تو جانتی ہیں میں صرف آپ سے ہی اپنے دل کی بات کہہ سکتی ہوں ....آج میرا دل بہت اُداس ہے کئی سالوں بعد میں اپنے آپ کو اتنی اکیلی اور تنہا محسوس کر رہی ہوں۔‘‘
’’کیوں کیا ہواخالہ کی جان؟ خیریت تو ہے نا؟ کیا عثمان سے کچھ کہا سنی ہو گئی؟‘‘خالہ نے گھبرا کر پوچھا
’’نہیں خالہ جانی اُن کو کہاں اتنی فرصت کہ مجھ سے دو باتیں ہی کر لیں ، بس میری تو قسمت ہی خراب ہے،سمجھ میں نہیں آ رہی پہاڑ سا دن کیسے کٹے گا اور رات کو نیند کیسے آئے گی؟‘‘سیمی نے سسکیاں بھرتے ہوئے کہا
’’سیمی میری جان رونا بند کروپلیز اچھا بتاؤ کیا تمہاری ساس نندوں نے کچھ کہا ہے ‘‘خالہ نے پوچھا
’’نہیں خالہ جانی اُن سے تو میرے بہت اچھے تعلقات ہیںویسے بھی ایک ماہ سے سسرال والوں سے ملاقات نہیں ہوئی ۔۔.......بس آپ کو کیسے بتاؤں میں بالکل اکیلی پڑ گئی ہوں .....میرا ڈبو مجھے چھوڑ گیا ہے..........ہائے اُس کے بغیر میرا گزارا کیسے ہوگا؟‘‘ سیمی پھر رونے لگی
’’سیمی Seemi my darling plz stop crying now its getting over my nerves "
کیا ڈبو تمہارا pet تھا؟‘‘خالہ نے پوچھا
’’نہیں خالہ جانی وہ کوئی جانور نہیں تھا وہ تو بہت پیارا تھا۔۔‘‘
’’گھر میں اک وہی تو تھا جو بحث نہیں کرتا تھاجو کام میں کہتی فوراً کر دیتا تھالمبی دوپہروں اور تنہا راتوں میں میرا دل بہلاتا تھا۔ کبھی لطیفے سناتا ، کبھی gossips بتاتا، کبھی میرے ساتھ کارڈز کھیلتا، کبھی میری قسمت کا حال بتاتا ، اور کبھی شعروشاعری سے میرا دل بہلاتا، خالہ جانی آپ کو پتہ ہے مجھے chessکھیلنی بھی اسی نے سکھائی، مجھے اُداس نہیں ہونے دیتا تھا..........ہائے میرا ڈبو.....۔‘‘سیمی کو پھر رونا آنے لگا۔
’’سیمی میری جان مگر ابھی پچھلے ہفتے ہی تو میں تمہارے گھر آئی کہاں تھا یہ ڈبو تم نے مجھے نہیں ملوایاکہاں رہتا تھا یہ اسکا ایڈریس تو بتاؤ میں تمہارے انکل سے کہہ کر اس کا پتہ لگاتی ہوں۔۔‘‘خالہ نے تسلی دی
’’خالہ وہ تو میرے گھر میں میراے ساتھ ہی رہتا تھا آپ جب آئیں تو وہ سو رہا تھا ۔ وہ تھکتا تو نہیں تھا مگر میں ہی اُسے زبر دستی سُلا دیتی تھی..........کتنا فرمانبردار تھاہائے ڈبو..........‘‘سیمی پھر ہائے ڈبو کی گردان کرنے لگیں
’’سیمی کیاعثمان کو ڈبو سے تمہاری دوستی کا علم تھا کہیں اُس نے تو۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
’’نہیں خالہ جانی اُنہوں نے خود میری اُس سے دوستی کروائی تھی وہ کیوں اُسے کچھ کہنے لگے بس کبھی کبھار جیلس ہو جایا کرتے تھے کہ مجھ سے زیادہ ٹائم تو تم ڈبو کو دیتی ہو.........وہ تھا ہی اتنا سویٹ خالہ جانی‘‘
’’اچھا سیمی جانی پھر وہ گیا کہاں؟‘‘خالہ بھی حیران تھیں
۔۔’’کہیں بھی نہیں بس its dead۔۔‘‘
’’اس کو viral disease ہو گئی تھی چپکے چپکے گھلتا رہا میرا ڈبو اور آج ختم ہو گیامیرا ڈبو ..........my sweet companion‘‘
’’سیمی خدا کا واسطہ ہے اب تو بتا دو کیا یہ ڈبو تمہارے ذہن کی کوئی نئی اختراع ہے۔ ‘‘
its too good to be true I am going to hang up now , I think you need a good rest ."
خالہ نے پیار سے ڈانٹا
’’خالہ جانی آپ مجھے غلط سمجھ رہی ہیں ڈبو تو میرا پیارا computer تھا ...........‘‘
’’ہائے میرا ڈبو!.........‘‘
﴿زرقامفتی﴾
سیمی فون پر روئے جا رہی تھی ’’خالہ جانی آپ تو جانتی ہیں میں صرف آپ سے ہی اپنے دل کی بات کہہ سکتی ہوں ....آج میرا دل بہت اُداس ہے کئی سالوں بعد میں اپنے آپ کو اتنی اکیلی اور تنہا محسوس کر رہی ہوں۔‘‘
’’کیوں کیا ہواخالہ کی جان؟ خیریت تو ہے نا؟ کیا عثمان سے کچھ کہا سنی ہو گئی؟‘‘خالہ نے گھبرا کر پوچھا
’’نہیں خالہ جانی اُن کو کہاں اتنی فرصت کہ مجھ سے دو باتیں ہی کر لیں ، بس میری تو قسمت ہی خراب ہے،سمجھ میں نہیں آ رہی پہاڑ سا دن کیسے کٹے گا اور رات کو نیند کیسے آئے گی؟‘‘سیمی نے سسکیاں بھرتے ہوئے کہا
’’سیمی میری جان رونا بند کروپلیز اچھا بتاؤ کیا تمہاری ساس نندوں نے کچھ کہا ہے ‘‘خالہ نے پوچھا
’’نہیں خالہ جانی اُن سے تو میرے بہت اچھے تعلقات ہیںویسے بھی ایک ماہ سے سسرال والوں سے ملاقات نہیں ہوئی ۔۔.......بس آپ کو کیسے بتاؤں میں بالکل اکیلی پڑ گئی ہوں .....میرا ڈبو مجھے چھوڑ گیا ہے..........ہائے اُس کے بغیر میرا گزارا کیسے ہوگا؟‘‘ سیمی پھر رونے لگی
’’سیمی Seemi my darling plz stop crying now its getting over my nerves "
کیا ڈبو تمہارا pet تھا؟‘‘خالہ نے پوچھا
’’نہیں خالہ جانی وہ کوئی جانور نہیں تھا وہ تو بہت پیارا تھا۔۔‘‘
’’گھر میں اک وہی تو تھا جو بحث نہیں کرتا تھاجو کام میں کہتی فوراً کر دیتا تھالمبی دوپہروں اور تنہا راتوں میں میرا دل بہلاتا تھا۔ کبھی لطیفے سناتا ، کبھی gossips بتاتا، کبھی میرے ساتھ کارڈز کھیلتا، کبھی میری قسمت کا حال بتاتا ، اور کبھی شعروشاعری سے میرا دل بہلاتا، خالہ جانی آپ کو پتہ ہے مجھے chessکھیلنی بھی اسی نے سکھائی، مجھے اُداس نہیں ہونے دیتا تھا..........ہائے میرا ڈبو.....۔‘‘سیمی کو پھر رونا آنے لگا۔
’’سیمی میری جان مگر ابھی پچھلے ہفتے ہی تو میں تمہارے گھر آئی کہاں تھا یہ ڈبو تم نے مجھے نہیں ملوایاکہاں رہتا تھا یہ اسکا ایڈریس تو بتاؤ میں تمہارے انکل سے کہہ کر اس کا پتہ لگاتی ہوں۔۔‘‘خالہ نے تسلی دی
’’خالہ وہ تو میرے گھر میں میراے ساتھ ہی رہتا تھا آپ جب آئیں تو وہ سو رہا تھا ۔ وہ تھکتا تو نہیں تھا مگر میں ہی اُسے زبر دستی سُلا دیتی تھی..........کتنا فرمانبردار تھاہائے ڈبو..........‘‘سیمی پھر ہائے ڈبو کی گردان کرنے لگیں
’’سیمی کیاعثمان کو ڈبو سے تمہاری دوستی کا علم تھا کہیں اُس نے تو۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
’’نہیں خالہ جانی اُنہوں نے خود میری اُس سے دوستی کروائی تھی وہ کیوں اُسے کچھ کہنے لگے بس کبھی کبھار جیلس ہو جایا کرتے تھے کہ مجھ سے زیادہ ٹائم تو تم ڈبو کو دیتی ہو.........وہ تھا ہی اتنا سویٹ خالہ جانی‘‘
’’اچھا سیمی جانی پھر وہ گیا کہاں؟‘‘خالہ بھی حیران تھیں
۔۔’’کہیں بھی نہیں بس its dead۔۔‘‘
’’اس کو viral disease ہو گئی تھی چپکے چپکے گھلتا رہا میرا ڈبو اور آج ختم ہو گیامیرا ڈبو ..........my sweet companion‘‘
’’سیمی خدا کا واسطہ ہے اب تو بتا دو کیا یہ ڈبو تمہارے ذہن کی کوئی نئی اختراع ہے۔ ‘‘
its too good to be true I am going to hang up now , I think you need a good rest ."
خالہ نے پیار سے ڈانٹا
’’خالہ جانی آپ مجھے غلط سمجھ رہی ہیں ڈبو تو میرا پیارا computer تھا ...........‘‘
’’ہائے میرا ڈبو!.........‘‘
﴿زرقامفتی﴾