ہاتھ پھیلاؤ، تو سورج بھی سیاہی دے گا - فضا ابن فیضی

عندلیب

محفلین
ہاتھ پھیلاؤ، تو سورج بھی سیاہی دے گا

کون اس دور میں سچوں کی گواہی دے گا؟​

سوز احساس بہت ہے، اسے کمتر مت جان !

یہی شعلہ، تجھے بالیدہ نگاہی دے گا​

یوں تو ہر شخص یہ کہتا ہے، کھرا سونا ہوں

کون، کس روپ میں ہے یہ وقت بتا ہی دے گا​

ہوں پر امید، کہ سب آستیں رکھتے ہیں، یہاں

کوئی خنجر تو، میری پیاس بجھا ہی دے گا​

شب گزیدہ کو ترے، اس کی خبر ہی کب تھی

دن جو آئے گا، غمِ لا متناہی دے گا​

آئنہ ، صاف دل اتنا بھی نہیں اب، کہ تمہیں

اصل چہرے کے خط وخال دکھا ہی دے گا​

تیرے ہاتھوں کا قلم ، جو عصائے درویش

یہی اک دن، تجھے خورشید کلاہی دے گا​
 
اوہو! عرصہ بعد فضا ابن فیضی کا کلام دیکھنے کو ملا۔

مجھے اس ادارہ "فیض عام، مئو" میں پڑھنے کا شرف حاصل ہے جہاں سے موصوف نے اپنی تعلیم مکمل کی۔
 
Top