ہادی علی رفیق علی رہنما علی

سیما علی

لائبریرین
ہادی علی رفیق علی رہنما علی
یاور علی ممدّ علی آشنا علی

مرشد علی کفیل علی پیشوا علی
مقصد علی مراد علی مدعا علی

جو کچھ کہو سو اپنے تو ہاں مرتضےٰ علی
نور یقیں علی سے ہمیں اقتباس ہے

ایمان کی علی کی ولا پر اساس ہے
یوم التناد میں بھی علی ہی کی آس ہے

بے گاہ و گاہ ناد علی اپنے پاس ہے
قبلہ علی امام علی مقتدا علی

دیوانگان شوق کا مت پوچھو معتقد
فہم اس کا تب ہو روح قدس جب کرے مدد

ظاہر اس ایک شان سے شانیں ہیں لاتعد
گہ احمد اس کو کہتے ہیں گاہے اسے احد

شایان حمد و قابل صل علیٰ علی
نے شہ سے کچھ غرض ہے ہمیں نے وزیر سے

نے اعتقاد شیخ سے نے کچھ فقیر سے
رکھتے نہیں ہیں کام صغیر و کبیر سے

ہے لاگ اپنے جی کو اسی اک امیر سے
مولا علی وکیل علی بادشا علی

پہنچے ہے تیرے ہاتھ تلک کب کسو کا دست
کیا سمجھے شیخ حال کو فطرت ہے اس کی پست

ہوں جوں نصیری ساقی کوثر کا محو و مست
مسکن علی نگر ہے مرا میں علی پرست

پیغمبر اس جگہ کا علی ہے خدا علی
شیوہ اگرچہ اپنا نہ یہ وعظ و پند ہے

پر اس کو سن رکھ اے کہ تو کچھ دردمند ہے
کیا ہے جو عرصہ تنگ ہوا کام بند ہے

دل جمع کر کہ ہمت مولیٰ بلند ہے
یعنی کرم شعار ہے مشکل کشا علی

اپنی بساط تو ہے علی ہے وہی علیم
کس طور جیتے رہتے نہ ہوتا جو وہ کریم

دیکھیں ہیں اس کی اور جو ہم ہوتے ہیں سقیم
یاں کا وہی ہے شافی و کافی وہی حکیم

عارض ہو کوئی درد ہمیں ہے دوا علی
ہے دوستی علی کی تمناے کائنات

بے لطف اس بغیر ہے کیا موت کیا حیات
یعنی کہ ذات پاک ہے اس کی خدا کی ذات

کیا ان موالیوں کے تئیں ہے غم نجات
مرتے ہوئے جنھوں کے دلوں میں رہا علی

یہ کس طرح سے راز کہوں میں زبان سے
حالات اس روش کے پرے ہیں بیان سے

یک شب نبیؐ جو نکلے زمان و مکان سے
ذات مبارک آئی نظر اور شان سے

تھا بزم لامکاں میں بھی رونق فزا علی
خواہش مدد کی غیر سے یہ ہے خیال خام

کرتا ہے کب قبول اسے عاقل تمام
کافی ہے دوجہان میں مولا کا میرے نام

لاریب اس پہ آتش دوزخ ہوئی حرام
اک بار بھی زبان سے جن نے کہا علی

سر تا قدم ثبات دل و جملگی ادب
صورت پکڑ کے سامنے آیا تھا لطف رب

ظاہر ہوئے ظہور جہاں میں عجب عجب
محراب میں نہ گرم بکا تھا کدام شب

ہنستا رہا نہ کون سے روز غزا علی
عنتر کو نار خشم نے اس کی جلا دیا

اژدر کو چیر ایک ہی دم میں کھپا دیا
خورشید کو نکال دوبارہ دکھا دیا

ہنگامہ کفر و شرک کا آکر مٹا دیا
تھا جانشین ختم رسلؐ کا بجا علی

گو چشم دل کھلے نہ کسی روسیاہ کی
اس تک مجال کب ہے کسو کی نگاہ کی

اللہ ری بلندی تری قدر و جاہ کی
مرمر کے جبرئیل نے درباں سے راہ کی

شاہا ملک سپاہ جہان صفا علی
دشمن کو آگہی ہے کماینبغی کہاں

قدرت سے اس کی قدرت حق ہوتی ہے عیاں
زورآوری مزاج میں آوے تو الاماں

کچھ بھی نہیں ہے پھر یہ جو سب کچھ ہے درمیاں
ارض و سما کے دیوے قلابے ملا علی

دی تیغ ایسی کس کو کہ جیسی ہو ذوالفقار
مرکب کہاں ہیں اس کے سے ویسے کہاں سوار

گذرے ہیں گرچہ مردم خوب آگے بھی ہزار
پر یہ شرف خدا کی طرف سے ہے یہ وقار

خلقت تو دیکھ کعبے میں پیدا ہوا علی
تھی حق کے ہاں سے احمد مرسلؐ کو سروری

کہتی تھی ساری خلق خدا کی اسے ولی
نسبت بغیر ہوتے ہیں یہ اتحاد بھی

لطف و سخا و ہمت و حلم و حیا نبیؐ
جود و سخا و جرأت و مہر و وفا علی

نزدیک سب کے اس کو ہے درجہ قبول کا
ایک عندیہ ہے سید و شیخ و مغول کا

کب معتبر ہے حرف کسو بوالفضول کا
باطن علی ہے ظاہر خوب رسولؐ کا

خاک اس کے فرق پر جو کہے تھا جدا علی
ہر فرد کی زباں پہ علی کی ہے گفتگو

ہر شخص کے تئیں ہے علی ہی کی جستجو
عالم کو ہے علی کی تولا سے آرزو

اپنا ہی کچھ علی کی طرف کو نہیں ہے رو
مقصود خلق و مطلب ارض و سما علی

اک شوق ہے علی کا مرے قلب میں نہاں
شاید یہی نجات کا باعث بھی ہو وہاں

اب زیر لب ہے زیست میں جو میرؔ ہر زماں

اس وقت میں کہ جان ہو یک دم کی میہماں
امید ہے کہ یوں ہی لبوں پر ہو یا علی
 

سیما علی

لائبریرین
علی ہے صفدر علی ہے حیدر علی شجاع ہے علی ہے غازی
علی ہے جرات شجاعت علی نماز ہے علی نمازی
اسی سے پروردگار خوش ہے وہ جس کسی سے علی ہے راضی
علی کا دشمن بھی مانتا ہے علی نے ہاری نہیں ہے بازی
(صفدر ہمدانی )
 

سیما علی

لائبریرین
اس کی عطا یہ بات ہے اپنی کہی نہیں
عشق علی کی ناؤ کبھی ڈوبتی نہیں
حب علی نہیں ہے تو پھر زندگی ہے یوں
چہرے پہ جیسے آنکھ تو ہے روشنی نہیں ہے
(صفدر ہمدانی)
 

سیما علی

لائبریرین
ریگ صحرا ہے یا نور کا اک شعلہ ہے
آج پھر لہجے میں قدرت کے کوئی بولا ہے
ہاتھ میں ہاتھ علی کا لیئے گویا ہیں حضور
جس کا میں مولا ہوں ہاں اس کا علی مولا ہے
( صفدر ہمدانی )
 

سیما علی

لائبریرین
مولا کہیں کہ امام یا مشکل کشا کہیں
یا پھر نصیریوں کی طرح یا خدا کہیں
خیبر شکن علی ولی عاشق رسول
پروردگار اور بتا اور کیا کہیں
( صفدر ہمدانی )
 

سیما علی

لائبریرین
۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة، صفحہ329،باب62،از دیوانِ شافعی۔
2۔ شبلنجی،کتاب نورالابصار میں،صفحہ139،اشاعت سال1290۔

علیٌّ حُبُّہُ الْجُنَّة
اِمامُ النّٰاسِ وَالْجِنَّة

وَصِیُّ المُصْطَفےٰ حَقّاً
قَسِیْمُ النّٰارِ وَالْجَنَّة

”حضرت علی علیہ السلام کی محبت ڈھال ہے۔ وہ انسانوں اور جنوں کے امام ہیں۔ وہ حضرت محمد مصطفےٰ کے برحق جانشین ہیں اور جنت اور دوزخ تقسیم کرنے والے ہیں“۔
حوالہ حموینی، کتاب فرائد السمطین میں،جلد1،صفحہ326۔
حضرت محمد بن ادریس شافعی(امام شافعی)
 

سیما علی

لائبریرین
وَلَمَّا رَأَیْتُ النّٰاسَ قَدْ ذَھَبَتْ بِھِمْ
مَذَاھِبُھُمْ فِیْ اَبْحَرِ الْغَیِّ وَالْجَھْلِ

رَکِبْتُ عَلَی اسْمِ اللّٰہِ فِیْ سُفُنِ النَّجٰا
وَھُمْ اَھْلُ بَیْتِ الْمُصْطَفیٰ خٰاتِمِ الرُّسُلِ

وَاَمْسَکْتُ حَبْلَ اللّٰہِ وَھُوَوِلاٰوٴُھُمْ
کَمٰا قَدْ اُمِرْنٰا بِالتَمَسُّکِ بِالْحَبْلِ

اِذَا افْتَرَقَتْ فِی الدِّیْن سَبْعُوْنَ فِرْقَةً
وَنِیْفاًعَلیٰ مٰاجٰاءَ فِیْ وٰاضِحِ النَّقْلِ

وَلَم یَکُ ناجٍ مِنْھُمْ غَیْرَ فِرْقَةٍ
فَقُلْ لِیْ بِھٰا یٰا ذَاالرَّجٰاجَةِ وَالْعَقْلِ

أَفِی الْفِرْقَةِ الْھُلاٰکِ آلُ مُحَمَّد
اَمِ الْفِرْقَةُ الّلا تِیْ نَجَتْ مِنْھُمْ قُلْ لِیْ

فَاِنْ قُلْتَ فِی النّٰاجَیْنِ فَالْقَوْلُ وٰاحِدٌ
وَاِنْ قُلْتَ فِی الْھُلاٰکِ حَفْتَ عَنِ الْعَدْلِ

اِذَاکٰانَ مَوْلَی الْقَوْمِ مِنْھُمْ فَاِنَّنِیْ
رَضِیْتُ بِھِمْ لاٰزٰالَ فِیْ ظِلِّھِمْ ظِلِّیْ

رَضِیْتُ عَلِیّاً لِیْ اِمٰاماً وَنَسْلَہُ
وَاَنْتَ مِنْ الْبٰاقِیْنَ فِیْ اَوْسَعِ الْحَلِ

”جب میں نے لوگوں کو جہالت اور گمراہی کے سمندر میں غرق دیکھا تو پھر بنامِ خدا کشتیِ نجات (خاندانِ رسالت اور اہلِ بیت ِ اطہار علیہم السلام) کا دامن پکڑا اور اللہ تعالیٰ کی رسی کو تھاما کیونکہ اللہ کی رسی جو دوستیِ خاندانِ رسالت ہے ،کو پکڑنے کا حکم دیا گیا ہے۔جس زمانہ میں دین تہتر فرقوں میں بٹ جائے گا تو کہتے ہیں کہ صرف ایک ہی فرقہ حق پر ہوگا ،باقی باطل پر ہوں گے۔اے عقل و دانش رکھنے والے! مجھے بتا کہ جس فرقہ میں محمد اورآلِ محمد ہوں گے، کیا وہ فرقہ باطل پر ہوگا یا حق پر ہوگا؟ اگر تو کہے کہ وہ فرقہ حق پر ہوگا تو تیرا اور میرا کلام ایک ہے اور اگر تو کہے کہ وہ فرقہ باطل اور گمراہی پر ہوگا تو تو یقینا صراطِ مستقیم سے منحرف ہوگیا ہے۔
یہ جان لو کہ خاندانِ رسالت قطعاً اور یقینا حق پر ہے اور صراطِ مستقیم پر ہے۔ میں بھی
اُن سے راضی ہوں اور اُن کے طریقے کو قبول کرتا ہوں۔ پروردگار! اُن کا سایہ مجھ پر ہمیشہ قائم و دائم رکھ۔ میں حضرت علی علیہ السلام اور اُن کی اولاد کی امامت پرراضی ہوں کیونکہ وہ حق پر ہیں اور تو اپنے فرقے پر رہ ،یہاں تک کہ حقیقت تیرے اوپر واضح ہوجائے“۔

حوالہ
کتاب شبہائے پشاور،صفحہ227،نقل از ذخیرة المال،مصنف:علامہ فاضل عجیلی۔
 

سیما علی

لائبریرین
ااَھْلَ بَیْتِ رَسُوْلِ اللّٰہِ حُبُّکُمْ
فَرَضٌ مِنَ اللّٰہِ فِی الْقُرآنِ اَنْزَلَہُ

کَفَاکُمْ مِنْ عَظِیْمِ الْقَدْرِ اِنَّکُمْ
مَنْ لَمْ یُصَلِّ عَلَیْکُمْ لَاصَلوٰةَ لَہُ

”اے اہلِ بیت ِ رسول اللہ!آپ کی دوستی و محبت اللہ کی جانب سے قرآن میں فرض قرار دی گئی ہے:
(مندرجہ بالا اشعار میں امام شافعی کا اشارہ آیت ِ زیر کی طرف ہے:
”قُلْ لا اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ اَجْراً اِلَّاالْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبٰی“)
آپ کی قدرومنزلت کیلئے یہی کافی ہے کہ جو آپ پر درود نہ پڑھے، اُس کی نماز قبول
نہیں ہوتی“۔
 

سیما علی

لائبریرین
قاضی فضل بن روزبہان(عالم)
سلامٌ علی المصطفیٰ المجتبیٰ
سلامٌ علی السیّد المرتضیٰ

سلام علی سیّدِتنا البتول
مَن اختارھا اللّٰہ خیر النّساء

سلام من الْمِسْک اَنفاسُہُ
علی الحسن الامعیِّ الرّضا

سلام علی الاورعی الحسین
شھید یری جسمہ کربلا

سلام علی سیّد العابدین
علی ابن الحسین الزّکی المجتبیٰ

سلام علی الباقر المھتدی
سلام علی الصّادق المقتدی

سلام علی الکاظم الممتحن
رضیّ السجایا امام التقی

سلام علی الثّامن الموٴتمن
علیّ الرّضا سیّدِ الاصفیاء

سلام علی المتّقی التّقی
محمّد الطیب المرتجی

سلام علی الالمعیّ النّقی
علیّ المکرّم ھادی الوری

سلام علی السیّد العسکری
امام یجھزّ جیش الصَّفا

سلام علی القائم المنتظر
أبی القاسم الغرّ نورالھدی

سیطلع کالشّمس فی غاسق
ینجیہ من سیفہ المنتفی

تری یملا الارض من عدلہ
کما ملأت جور اھل الھوی

سلام علیہ و آبائہ
و انصارہ ما تدوم السَّماء

”سلام ہو اُن پر جو مصطفےٰ بھی ہیں اور مجتبیٰ بھی ہیں۔ سلام ہو ہمارے مولا علی المرتضیٰ پر۔
سلام ہو سیدہ فاطمة الزہرا پر جو بتول ہیں ،جن کو خدا نے دنیا کی تمام عورتوں کا سردار چن لیا۔
سلام ہواُس پر کہ جس کے نفس سے مُشک و عنبر کی خوشبو آتی تھی یعنی امام حسن علیہ السلام جو
نہایت عقلمند اور ہردلعزیز ہیں۔
سلام ہو پرہیزگار ترین فرد شہید ِکربلاحسین ابن علی پر کہ جن کا جسم شہادت کے بعد کربلا میں
دیکھا گیا۔ سلام ہو سید الساجدین علی ابن الحسین پر جو پاک و مجتبیٰ ہیں۔
سلام ہو امام باقرعلیہ السلام(حضرتِ محمد ابن علی) پر جو ہدایت یافتہ ہیں۔
سلام ہو امامِ جعفر صادق علیہ السلام پر جو امام اور پیشواہیں۔
سلام ہو امام موسیٰ کاظم علیہ السلام پر جو امتحان شدہ ہیں جو امام المتقین ہیں۔
سلام ہو آٹھویں امین، سید الاوصیاء امام علی ابن موسیٰ رضا علیہ السلام پر۔
سلام ہو متقی امام محمد ابن علی تقی علیہ السلام پر جو پاک و طاہر ہیں اور سرمایہٴ اُمید ہیں۔
سلام ہو عقلمند اور باخبر امام علی ابن محمد نقی علیہ السلام پر جو بزرگ اور ہادی العالمین ہیں۔
سلام ہو ہمارے مولا امام حسن ابن علی العسکری علیہ السلام پر جو لشکر پاکیزگی سے
مز ّین ہیں۔
سلام ہو امام القائم والمنتظر(حضرتِ مہدی علیہ السلام) حضرتِ ابوالقاسم پر جو امامِ نورانی ہیں اور راہِ ہدایت کی روشنی ہیں ۔ جو انشاء اللہ ظہور کریں گے جیسے سورج جب طلوع ہوتا ہے تو تمام تاریکی غائب ہوجاتی ہے۔ اسی طرح جب یہ امام ظہور فرمائیں گے تو تمام روئے ارض عدل و انصاف سے اس طرح بھر جائے گی جیسے اس سے پہلے ظلم و ستم اور ہوس سے بھری ہوئی ہے۔
سلام ہو اُن پر اور اُن کے آباء و اجداد پر اور اُن کے انصار پر تا قیامِ قیامت“۔

حوالہ
کتاب شبہائے پشاور، مصنف: مرحوم سلطان الواعظین شیرازی، صفحہ75،نقل از کتاب ابطال الباطل، مصنف: قاضی فضل بن روزبہان۔
 
Top