یاسر شاہ
محفلین
ہار جا اے نگاہِ ناکارہ
گُم افق میں ہوا وہ طیارہ
آہ وہ محملِ فضا پرواز
چاند کو لے گیا ہے سیارہ
صبح اُس کو وداع کر کے میں
نصف شب تک پھرا ہوں آوارہ
سانس کیا ہیں کہ میرے سینے میں
ہر نفس چل رہا ہے اِک آرا
کچھ کہا بھی جو اُس سے حال تو کب؟
جب تلافی رہی نہ کفارہ
کیا تھا آخر مِرا وہ عشقِ عجیب
عشق کا خوں کہ عشقِ خوں خوارہ
ناز کو جس نے اپنا حق سمجھا
کیا تمھیں یاد ہے وہ بے چارہ
چاند ہے آج کچھ نڈھال نڈھال
کیا بہت تھک گیا ہے ہرکارہ
اِس مسلسل شبِ جُدائی میں
خون تھوکا گیا ہے مہ پارہ
ہو گئی ہے میرے سفر کی سحر
کوچ کا بج رہا ہے نقارہ