کاشفی
محفلین
غزل
(بہزاد لکھنوی)
ہاں اب تو کچھ نہیں ہے مرے اختیار میں
دیکھو نا ہنس رہا ہوں غمِ انتظار میں
اللہ میرے خرمنِ ہستی کی خیر ہو
شعلے بھڑک رہے ہیں دلِ بیقرار میں
پھولوں کا رنگ اور ہے، گلشن کا رنگ اور
اور میں پڑا ہوا ہوں فریبِ بہار میں
آ میرے دل کے چین مری وجہِ زندگی
آ تجھ کو آج رکھ لوں دلِ بیقرار میں
اللہ میری زندگیء غم کی خیر ہو
بےچینیاں بھی اب تو نہیں اختیار میں
اوروں کے ہوش اُڑ گئے فصل بہار سے
مجھ کو تو ہوش آگیا فصلِ بہار میں
رحم اے نگاہِ ناز مرے حالِ زار پر
میری تو زندگی ہے ترے اختیار میں
(بہزاد لکھنوی)
ہاں اب تو کچھ نہیں ہے مرے اختیار میں
دیکھو نا ہنس رہا ہوں غمِ انتظار میں
اللہ میرے خرمنِ ہستی کی خیر ہو
شعلے بھڑک رہے ہیں دلِ بیقرار میں
پھولوں کا رنگ اور ہے، گلشن کا رنگ اور
اور میں پڑا ہوا ہوں فریبِ بہار میں
آ میرے دل کے چین مری وجہِ زندگی
آ تجھ کو آج رکھ لوں دلِ بیقرار میں
اللہ میری زندگیء غم کی خیر ہو
بےچینیاں بھی اب تو نہیں اختیار میں
اوروں کے ہوش اُڑ گئے فصل بہار سے
مجھ کو تو ہوش آگیا فصلِ بہار میں
رحم اے نگاہِ ناز مرے حالِ زار پر
میری تو زندگی ہے ترے اختیار میں
دستِ جنوں میں جیب و گریباں لئے ہوئے
بیٹھا ہوا ہوں کب سے اُمیدِ بہار میں
بیٹھا ہوا ہوں کب سے اُمیدِ بہار میں
اب مجھ کو اپنا ہوش نہ دنیا کا ہوش ہے
بہزاد کھو گیا ہوں تمنّائے یار میں
آخری تدوین: