muhajir
محفلین
"۔۔۔۔۔۔میں تمھاری نظروں میں دہشت گرد ہوں،صرف میں اکیلا ہی یہاں نارنجی کپڑے پہنے ہوئے ہوں اور میرا یہاں نارنجی کپڑے پہنے ہوئےہونا بالکل جائز بات ہے۔لیکن ایک دن امریکہ بدلے گا۔تب لوگوں کو آج کے اس دن کی سچائی کا ادراک ہوگا۔وہ دیکھیں گے کہ کس طرح لاکھوں مسلمان اپنے ملکوں میں امریکی فوجیوں کے ہاتھوں قتل کردیے گےاور لاکھوں معذور بنا دیے گئے۔لیکن آج سزا سنائی جارہی ہےتو وہ کس کو؟ مجھے ؟۔اورکس بات پر؟--ان ہی ملکوں میں "قتل اور تخریب کاری کی سازش"کرنے پر۔کیوں کہ میں ان مجاہدین کے حق میں ہوں جو ان مسلمانوں کا دفاع کرتے ہیں۔سزا سناتے وقت طارق مہنا کا جج اوٹول کے سامنا پڑھا ہوا بیان ۔ ۱۲ اپریل ۲۰۱۲
خدا تعالی کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم کرنے والا ہے
ٹھیک چار سال پہلے، اسی مہینے میں میں ہسپتال میں اپنی شفٹ ختم کرکے گھر جارہا تھا۔جیسے ہی میں اپنی گاڑی کی جانب روانہ ہوا،میری جانب دوحکومتی کارندے آئے۔انہوں نے مجھے کہا کہ میرے پاس دو صورتیں ہیں۔آسان راستہ اپناؤ یامشکلات چن لو۔"آسان راستہ" یہ تھا،جیسا کہ انہوں نے وضاحت کی،کہ میں حکومت کا مخبر بن جاؤں اور اگر میں ایسا کروں گا تو مجھے کبھی بھی عدالت یاجیل کی شکل نہیں دیکھنی پڑے گی۔جہاں تک مشکل راستے کا سوال ہے تو جناب آج میں آپکے سامنے یہاں موجود ہوں۔پچھلے چار سالوں سے ایک انتہائی چھوٹی سی کوٹھڑی میں روزانہ ۲۳گھنٹے کیلئے قید رکھا جاتا ہوں۔ایف بی آئی اور ان وکیلوں نے بڑی سخت محنت کی،امریکی حکومت نے ٹیکسوں میں سے لاکھوں ڈالر خرچے،صرف مجھے گرفتار کرکےاس کوٹھڑی میں قید رکھنے کیلئے۔مجھ پر مقدمہ چلانے کیلئے اورمجھے آج یوں آپ کے سامنے لاکھڑا کرکے سزا سنانے کیلئے کہ میں جیل کی کسی تنگ کوٹھڑی میں مزید کئی سال قید رکھا جاؤں۔
آج کے اس دن کو دیکھنے سے پہلے کےکئی ہفتوں میں مجھے مختلف لوگوں نے مختلف مشورے دیے کہ مجھے عدالت سے کیا گذارش کرنا ہے۔کچھ نے کہا کہ رحم کی درخواست کروں تاکہ سزا کم ہو سکے۔جبکہ کچھ نے کہا کہ میں جو کچھ بھی کہوں گا میری سزا سخت ہی سنائی جائے گی۔مگر میں عدالت میں صرف اپنے بارے میں کچھ کہنا چاہتا ہوں۔
جب میں نے مخبر بننے سے انکار کردیا، تو حکومت نے مجھ پرپوری دنیا میں مسلمان ممالک میں جارحیت کے خلاف لڑنے والے مجاہدین کی پشت پناہی کا "جرم" عائد کردیا۔یا جیسا کہ وہ ان کو کہتے ہیں "دہشت گرد"۔میں کسی مسلمان ملک میں پیدا نہیں ہواتھا۔میں یہیں امریکہ میں پیدا ہوا اور پلا بڑا۔اور اسی بات پر بہت لوگوں کو پارہ چڑھتا ہے کہ ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ میں ایک امریکی ہوکر بھی یہ اور یہ نظریہ رکھتا ہوں اور میرا مؤقف ان سے مختلف ہے ۔ایک آدمی جس ماحول میں رہتا ہے، اسی ماحول کے عوامل اس کی شخصیت پر اثر انداز پوتے ہیں۔اور میرے ساتھ بھی یہی معاملہ ہے۔چنانچہ کئی وجوہات کی بنا پر میں جو کچھ بھی ہوں ،امریکہ کی وجہ سے ہوں۔
جب مجھے کومک بکس جمع کرنے کا شوق ہوا ،اس وقت میری عمر لگ بھگ چھ سال تھی۔ Batman کے کردار نے مجھے ظالم اور مظلوم پر مشتمل ایک ایسی دنیا سے روشناس کروایاجہاں ظلم ڈھانے اور ظلم سہنے والوں کا بیک وجود تھا تو ایسے شہ زوروں کی کمی بھی نہ تھی جو مظلوم کے دفاع کو فرضِ عین جانتے تھے۔اس طرزِ فکر نے میرے بچپن پر گہرانقش چھوڑا۔ میرے لیے ہر اس کتاب میں مقناطیسی کشش تھی جو ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے والوں کی بابت ہوتی تھی۔Uncle Tom146s Cabin, The Autobiography of Malcolm X, یہاں تک کہThe Catcher in the Rye. بھی مجھے حد درجہ سبق آموز معلوم ہوتی تھی۔
ہائی سکول میں جب میں نے باقاعدہ طور پر history کی کلاسز اٹینڈ کرنا شروع کیا تو احساس ہوا کہ کومک بکس کے کردار حقیقی دنیا سے کس قدر مطابقت رکھتے تھے! مقامی امریکیوں کو یورپی آبادکاروں کے ہاتھوں کس قدر مصائب جھیلنے پڑے، اور بعد میں انہی آبادکاروں پر شاہ جارج III کے آمرانہ دور میں کیا قیامت ٹوٹی۔ میں نےPaul Revere,Tom Paine کے بارے میں پڑھا ۔ ہمیں یہ بھی بتایا گیا کہ امریکیوں نے برطانوی فوجوں کیخلاف کیسے مسلح بغاوت کر کے خون کی ہولی کھیلی۔آج کے اس مہذب دور میں بھی وہ اپنے اس کارنامے کوفخریہ انداز میں ’انقلابی معرکہ‘ کا نام دے کر جشن کے طور پر مناتے ہیں۔مجھے یاد ہے کہ اسی دور میں یہاں سے کچھ ہی فاصلے پر واقع کچھ مقامات پر میں سکول کی طرف سے منظم کردہ فیلڈ ٹرپس پر جایا کرتا تھا۔ہمیں غلامی کیخلاف ہونے والی جدوجہد کے بارے میں بتایا جاتا اور اس دوران اس سے منسلک Harriet Tubman, Nat Turner, John Brown کے حالات زندگی سے بھی متعارف کروایا گیا ۔ مزدور یونین، ورکنگ کلاس اور غریب غرباء کی کاوشوں کا ذکر ہوتا اور ساتھ ہی Emma Goldman, Eugene Debs کے کارنامے بھی بیان کیے جاتے۔
میں نے Anne Frank اور Nazis کی بابت پڑھا...کیسے اقلیتوں کو کچلا گیا اور کیسے باغیوں کو پابندِ سلاسل کر دیا گیا۔ Rosa Parks, Malcolm X, Martin Luther King اور سویلین حقوق کی کاوشوں کا بھی تفصیلی مطالعہ کیا۔Ho Chi Minh کون تھا...اور ویتنام کے باشندے عشروں تک کیسے یکے بعد دیگرے نت نئے حملہ آوروں کی جارحیت کیخلاف بے جگری سے اپنی آزادی کی جنگ لڑتے رہے۔نیلسن منڈیلاکی سوانح حیات اور جنوبی افریقہ میں سفید فاموں کیخلاف اپنے حقوق کیلئے ہر سطح پر آواز بلند کرنے والے جانبازوں کی داستانیں ....ایسا لگتا تھا کہ تمام تر تاریخ انہی بنیادوں پر لکھی گئی تھی جو کم سنی میں دورانِ مطالعہ میرے معصوم ذہن میں راسخ ہو گئی تھیں...سب کچھ ایک تسلسل ہی تو تھا! ظالم اور مظلوم کے مابین ایک نہ ختم ہونے والی بازی ! ہر بازی کے بارے میں جان کر میرے دل میں دھیرے دھیرے مظلوموں کیلئے نرم گوشہ پیدا ہوتا چلا گیا ...اور انکے تحفظ کو اٹھنے والے شیر، مذہب اور قومیت سے قطع نظر، میرے نزدیک محترم تر ہوتے گئے۔ سکول کے دور میں پڑھے گئے ان تمام اسباق کے دوران لیے جانے والے نوٹس کا ڈھیر آج بھی میرے بیڈ روم کی الماری میں محفوظ پڑاہے، جبکہ میں یہاں ’انصاف‘ کے کٹہرے میں آپکے سامنے موجود ہوں۔
میں نے تاریخ میں جتنے بھی نمایاں انسانوں کی سوانح پڑھی، ہر ایک کو دوسرے سے ممتاز پایا! خصوصا MalcolmX نے مجھے بہت متاثر کیا۔ اسکی زندگی میں ’تبدیلی‘ کا باب مجھے افسانوی لگتا تھا۔اگر آپ نے Spike Lee کی بنائی ہوئی مووی 147X148 دیکھی ہے تو شاید میرے جذبات کو سمجھ پائیں! اسکا دورانیہ تقریبا ساڑھے تین گھنٹے ہے اور Malcolm کا کردارایک عجیب پلٹا کھاتا ہے۔آغاز میں آپ اسے ایک ان پڑھ جاہل مجرم کے روپ میں دیکھتے ہیں مگر مووی کے آخر میں حیران کن انقلابی تبدیلی آپ کے دل کو چھو لیتی ہے ..جب آپ اسے ایک باپ، شوہر، اپنے لوگوں کے حقوق کیلئے چٹان کی مانند ڈٹ جانے والانڈر لیڈر،تماتر یکسوئی کیساتھ مناسکِ حج ادا کرتا ایک سچا مسلمان اور بالآخر ایک شہید کی صورت میں دیکھتے ہیں! میں نے اس عظیم انسان سے ہی یہ سیکھا کہ اسلام کسی کی جاگیر نہیں ، نہ یہ ثقافت ہے ، نہ ہی نسل پرستی...یہ تو ضابطہء حیات ہے، ایک طرزِ فکر ہے جسے کوئی بھی جی سکتا ہے قطع نظر اس سے کہ وہ کہاں سے تعلق رکھتا ہے اور کن حالات میں پروان چڑھا ہے۔
میں شعوری لاشعوری طور پر اسلام نام کے اس سمندر میں غوطہ زن ہوتا ہی چلا گیا۔کچھ ایسی کشش تھی اس سب میں کہ واپسی کی راہیں لگتا تھا معدوم ہو گئی ہیں۔میں لڑکپن میں تھا اور اس عمر میں کچے ذہن میں اٹھنے والے ہراستفسار کا جواب میں نے اس دین کی توسط پا لیا۔وہ معمہ جس کے بارے میں بڑے سے بڑاسائنسی دماغ کوئی جواب نہیں دے پاتا، وہ سوال جس کا سراغ نہ پانے کے باعث امیر کبیر ڈپریشن کا شکار ہو کر خودکشی کو گلے لگانے کی طرف مائل ہوتے ہیں۔یہ کہ آخر جینے کا مقصد کیا ہے؟اس دنیا میں ہمارے وجود کا مدعا کیا ہے؟ اسلام نے میرے ہر سوال کا تسلی بخش جواب دیا اور کیونکہ یہاں مسیحیت کی طرح کی پابندیاں نہ تھیں، لہذا میں نے قرآن اورحدیث کو تفصیلاََ پڑھنے کی ٹھان لی، اس سفر پر گامزن ہو گیا جہاں سے آگہی کے در کھلنے لگتے ہیں ...صرف میرے لیے نہیں، دنیا کے ہر اس انسان کیلئے جو طالبِ حق ہے۔جوں جوں مجھ پر علم وعرفان کی راہیں کھلتی گئیں ، توں توں میں اس نعمتِ لازوال کا معترف ہوتا گیا۔ یہ تب کی بات ہے جب میں teens میں تھا، ہر فکر فاقے سے بے نیاز! مگر آج جج صاحب! پچھلے کچھ سالوں کی آزمائشوں کے باوجود میں یہاں آپکے اور اس کمرہ ء عدالت میں موجود ہر شخص کے سامنے کھڑا ہوں اور پورے فخر سے کہتا ہوں کہ ہاں!میں اس دین پر چلنے والا مسلمان ہوں۔
جہاں کہیں میری نظر گئی، میں نے مختلف طاقتوں کو اپنی عزیز چیزوں کو تباہ کرتے دیکھا۔ میں نے مشاہدہ کیا ہے کہ سوویت یونین نے افغانستان کے مسلمانوں کے ساتھ کیا سلوک کیا؟ اور یہ دیکھا کہ سربوں نے بوسنیا کےمسلمانوں کے ساتھ کیا کیا ۔ اور میں نے مشاہد ہ کیا کہ روس نے چچنیا کے مسلمانوں کے ساتھ کیا کر رہے تھے۔ میں نےمشا ہدہ کیا کہ اسرائیل نے لبنان میں کیا کیا۔اور امریکہ کی بھرپور پشت پناہی کے زور پر فلسطین میں کیا کر رہا ہے؟ اور امریکا خود مسلمانوں کے ساتھ کیا سلوک روا رکھے ہوئے ہے؟ میں نے خلیج کی جنگ اور تباہ شدہ یورینیم بموں کے بار میں جانا، جو ہزاروں کی ہلاکت کا سبب بنے اور عراق میں کینسر کی شرح آسمان کو چھونے لگی۔ میں نے امریکی ایماء پر لگائی گئی پابندیوں کو پہچانا، جنہوں نے خوراک، ادویات، اور طبی آلات کا عراق میں داخلہ ممنوع کردیا تھا اور اقوامِ متحدہ کے مطابق ۵لاکھ بچے اس کی نذر ہو گئے۔ مجھے ۶۰ منٹ میں میڈلن البرئیٹ کے انٹر ویو کا وہ کلپ یاد ہے جہاں اس نے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ ہلاک شدہ بچے اسی کے " مستحق"تھے۔
میں نے ۱۱ستمبر کا واقعہ دیکھا ہے جب کچھ افراد کے مجموعے نے اپنے بچوں کی اموات پر طیارے کو اغواء کرنے اور عمارت سے ٹکرانے پر مجبور کردیا تھا۔ پھر میں نے دیکھا کہ امریکہ نے براہ راست عراق پر حملہ کیا۔ میں نے حملے کے پہلے روز "وحشت و ظلم" کے اثرات بھی دیکھے۔ جہاں امریکی میزائلوں کے خول بچوں کی پیشانیاں چیرے ہوئے تھے۔[یقیناً یہ سب کچھ سی این این پر نہیں دکھایا گیا ]۔
میں نے حدثیہ کے قبصے کے بارے میں سنا، جہاں ۲۴ مسلمانوں کو بشمول ایک چھہتر سالہ بوڑھے شخص کے جو وہیل چیئر پر تھا۔ عورتوں اور حتیٰ کہ شیر خوار بچوں کو، ان کے سونے کے لباس میں مار کر جلا دیاگیا تھا۔ میں نے ایک ۱۴ سالہ عراقی لڑکی عبیر الجنابیؒ کے بارے میں بھی سنا، جیسے ۵ امریکی فوجیوں نے اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا اور پھر اسے اور اُس کے خاندان کے سروں میں گولی اتاری اور ان کو جلا کر راکھ کردیا۔ میں صرف یہ نکتہ واضح کرناچاہتا ہوں کہ مسلم خواتین غیر متعلقہ افراد کو اپنےبال تک نہیں دکھاتی تو آپ اس لڑکی کے بارے میں سوچیں جو ایک پسماندہ گاوں سے متعلق ہو، اور تار تا ر کپڑوں میں ایک نہیں، دو نہیں، تین نہیں، چار نہیں بلکہ پانچ پانچ فوجیوں کی زیادتی کا نشانہ بنی ہو۔ آج جب میں اپنی جیل میں بیٹھا ہوں، پاکستان، صومالیہ اور یمن میں ہونے والے ڈرون حملوں کے بارے میں پڑھتا ہوں جو روزانہ مسلمانوں کی ہلاکت کا سبب بنتے ہیں۔ بالکل پچھلے مہینے ہم سب نے ۱۷ افغان مسلمان[جن میں سے اکثریت ماؤں اور ان کے بچوں کی تھی] کے بارے میں سنا جنہیں ایک امریکی فوجی نے مار ڈالا ۔ یہ صرف کہانیاں ہیں جو شہ سرخیاں بن جاتی ہیں۔ لیکن اسلام کے ابتدائی عقائد میں سے جو میں نے سیکھا، وہ محبت اور بھائی چارے کا درس سیکھا۔ کہ ہر مسلمان خاتون میر ی بہن ہے، ہر مرد میر ا بھائی ہے۔ اور اجتماعی طور پر ہم ایک جسم کی مانند ہیں جسے ایک دوسرے کی حفاظت کرنی چاہیے۔ بہ الفاظ دیگر میں یہ برداشت نہیں کرسکتا کہ میرے بھائیوں اور بہنوں پر یہ سب کچھ ہو اور وہ امریکہ کی طرف سےہو اور میں خاموش رہوں۔ میری ہمدردی مظلوموں کے لیے جاری رہی اور اب ان کے لیے ذاتی احترام بھی ہے جو اِن کا دفاع کرتے ہیں۔
میں نے پال ریوری کا تذکرہ کیا۔ جو آدھی رات کو نکلا تاکہ لوگوں کو خبردار کرے کہ برطانیہ سام ایڈمز اور جان ہین کاسن کو گرفتار کرنے کے لیے لیزنگٹن کی طرف پیش قدمی کر رہا ہے۔ اور پھر Concord کی طرف تاکہ MinuteManکے اسلحے کے ذخیرے کو تحویل میں لے سکے۔ اور جب وہ concord پہونچے تو انہوں MinuteMan کو اسلحہ ہاتھ میں لئے اپنا منتظر پایا ۔ انہوں نے برطانیوں پر حملہ کیا، ان سے لڑے اور ان کا زیر کیا۔ اس جنگ سے امریکی انقلاب آیا۔ ایک عربی لفظ ہے جو ان جنگجوؤں کی اس دن کے طرزِ عمل کی وضاحت کرتاہے۔ وہ لفظ "جہاد" ہے۔ اور میرا امتحان اسی سے متعلق تھا۔ ان کی تما م ویڈیوز اور تراجم اور بچگانہ تو تکار اس بات پر ہے کہ "اوہ اس نے یہ پیرگراف ترجمہ کیا" اور "اوہ اس نے یہ جملہ درست کیا" اور یہ تمام افعال ایک مسئلے کی گرد گھومتے تھے۔ مسلمان امریکہ کے خلاف اپنا دفاع کررہے ہیں۔ جو ان کے ساتھ وہی طرز عمل دُہرا رہے ہیں جو برطانیہ نے امریکہ کے ساتھ کیا تھا۔ پیشی کے دوران یہ بات واضح انداز میں ثابت کی گئی کہ میں نے کبھی شاپنگ مالز میں "امریکیوں کے قتل" کی منصوبہ بندی نہیں کی یا جو بھی کہانیاں وہ گھڑتے رہے ہیں۔ حکومت کے اپنے مشاہدات اس وعدے کی نفی کرتے ہیں اور ہم نے ایک سے ایک ماہر بلایا جس نے میرے تحریر کردہ ایک ایک لفظ کی گھنٹوں وضاحت کی ، جو میرے عقائد کے ترجمان ہیں۔ مزید یہ کہ جب میں آزاد تھا تو حکومت نے ایک خفیہ ایجنٹ بھیجا کہ مجھے اپنے "دہشت گرد منصوبوں " میں شامل کریں لیکن میں نے انکار کیا۔ لیکن پرسرا ر بات یہ ہے کہ جیوری نے یہ واقعہ کبھی نہیں سُنا۔
تو اصل مقدمہ یہ نہیں ہے کہ مسلمانو کا امریکیوں کو مارنے کے بارے میں میرا کیا مؤقف ہے بلکہ مقدمہ یہ ہے کہ اگر امریکی مسلمانوں کے ماریں تو مسلمانوں کے ردعمل کے بارے میں میرا مؤقف کیا ہے ۔جس سے مراد یہ ہے کہ مسلمانوں کوبیرونی جارحین جیسے کہ روسی،امریکی اور فرانسیسوں سے اپنی زمینوں کا دفاع کرنے کا حق حاصل ہے ۔اس پر میرا روز اول سے یقین ہے اور اسی پر میں ہمیشہ یقین رکھوں گا۔یہ نہ دہشت گردی ہے اور نہ انتہا پسندی، یہ خود حفاظتی کی ایک سیدھی سادی سی منطق ہے اور اسی کی طرف تمھارے سر پر لٹکنے والا "مادر وطن کی حفاظت" کا نشان اشارہ کر رہا ہے۔تو میں اس معاملے میں اپنے وکلا کے ساتھ غیر متفق ہوں کہ ان کا میرے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے،کوئی بھی شخص جس میں ذرا سی عقل سلیم ہو وہ میرے ساتھ اس بات پر متفق ہو گا۔اگر کوئی تمھارے گھر میں لوٹنے اور تمھارے خاندان کو نقصان پہنچانے کی نیت سے داخل ہو جائے تو لازمی طور پر تم ہر وہ کام کرنے کے مجاز ہو جو اس ڈاکو کو گھر سے باہر نکالنے کے لیے ضروری ہے۔لیکن حیران کن طور پر جب یہ گھر کوئی مسلم زمین ہو اور حملہ آور امریکن آرمی تو یہ اصول کسی وجہ سے ایک دم بدل جاتا ہے!! اس سادہ فہم معاملے کو نام بدل کر "دہشت گردی" اور وہ لوگ جو سات سمندروں پار سے ان کو مارنے کے لیے آنی والی فوج سے اپنا دفاع کر رہے ہیں ان کو "دہشت گرد" کا نام دے دیا جاتا ہے!!۔ یہ وہی ذہنیت ہے جس کا شکار ڈھائی صدیوں پہلے امریکہ ہوا تھا جب برطانوی فوجوں نے اس کی زمین کو روندا تھا اور اب اس کا شکار مسلمان ہیں جن کی زمینوں کوآج امریکی فوجی روند رہے ہیں، یہ وہی "نوآبادیاتی" ذہنیت ہے
سارجنٹ بیلز نے جب پچھلے ماہ افغانوں کو قتل کیا تو تو میڈیا نے سارجنٹ بیلز،اس کی زندگی،اس کی پریشانی اس کا مقروض ہونا اس کا ذہنی انتشار کو یوں محور گفتگو بنایا کہ جیسے مظلوم سارجنٹ بیلز ہو!! اور وہ لوگ جو کہ اس کی جارحیت کا شکار بنے ان کے متعلق بہت کم ہمدردی کا اظہار کیا گیا جیسے کہ ان کی کوئی حقیقت ہی نہ تھی یا جیسے وہ انسان ہی نہ ہوں!!بد قسمتی سے یہ ذہنیت معاشرے میں ہر ایک کو متاثر کیے ہوئے ہے حتی کہ مجھے اپنے وکلا کو بھی یہ بات سمجھانے پر دو سال لگے یہاں تک کہ وہ اپنی محدود سوچ کے دائرے سے باہر نکل کر سوچنے پر مجبور ہوئے اور میری منطق سے رضامند۔
ان زہین لوگوں کو سمجھنے پر دو سال لگے جن کا کام ہی میری وکالت کرنا تھا اور پھر مجھے ایک "غیر جانبدارانہ" جیوری کے آگے پیش کرنا۔
میرا تو کہنا ہے کہ میں کسی غیر جانبدارانہ جیوری کے آگے پیش نہیں ہوا کیونکہ یہ ذہنیت جو پورے امریکہ کو جکڑے ہوئے ہے، اس کو مدنظر رکھتے ہوئے میرا کوئی دوست نہیں، مجھ پر امریکی سرکار نے الزام لگایا ہے اس لیے نہیں کہ اس کی ضرورت تھی بلکہ اس لیے کہ وہ ایسا کرسکتی تھی۔
میں نے تاریخ سے ایک اور سبق سیکھا ہے کہ امریکہ نے اقلیتوں کے خلاف غیر منصفانہ پالیسوں کی ہمیشہ حمائت کی ہے۔ وہ رسومات جن کی قانون میں بھی اجازت تھی تاکہ کسی دین ہم مڑ کر دیکھیں کیا " یہ ہم کیا سوچ رہے تھے" مثلا غلامی،جم کرو،جاپانیوں کو دوسری جنگ عظیم میں دفنانے کی اجازت ان سب کو امریکن معاشرے اور سپریم کورٹ کی مکمل تائید حاصل تھی لیکن جوں جوں وقت گزرتا گیا عدالتیں اور لوگ دونوں پیچھے مڑ کر دیکھنے لگے کہ "ہم کیا کہہ رہے تھے؟
نیلسن منڈیلا ساوتھ افریقن حکومت کے نزدیک ایک دہشت گرد تھا اور عمر قید کی سزا کا حقدار،لیکن وقت کے بدلنے کے ساتھ دنیا بھی بدلی اور یہ احساس پیدا ہوا کہ ان کی پالیسیز کتنی ظالمانہ اور غیر منصفانہ تھیں،اسے قید سے آزاد کردیا گیا اور وہ صدر تک بنا،اس کا مطلب ہے کہ ہر چیز بدل سکتی ہے یہاں تک کہ یہ دہشت گردی اور دہشت گرد کا الزام بھی،فرق صرف وقت اور جگہ کے بدلنے کا ہے اور اس کا کہ آج کی سپر پاور کون ہے۔
میں تمھاری نظروں میں دہشت گرد ہوں،صرف میں اکیلا ہی یہاں نارنجی کپڑے پہنے ہوئےہوں اور میرا یہاں نارنجی کپڑے پہنے ہوئےہونا بالکل جائز بات ہے،لیکن ایک دن آئے گا کہ امریکہ بدلے گا اورلوگ اس دن کے بارے میں سوچیں گے اور یہ بھی کہ کیسے لاکھوں مسلمانوں کودوسرے ممالک میں امریکی فوج نے موت کے گھاٹ اتار دیا۔
ابھی تو بہرحال میں ہی ان ممالک میں لوگوں کو مارنے کے جرم میں سزا بھگتوں گا کیونکہ میں ان مجاہدین کی حمایت کرتا ہوں جو ان لوگوں کا دفاع کر رہے ہیں لیکن ایک دن یہی لوگ سوچیں گے کہ کیسے ان کی سرکار نے مجھے پکڑنے کے لیے کروڑوں ڈالر خرچ کر ڈالے،ہاں اگر اس لمحے "عبیر الجبانی" کو دوبارہ زندہ کیا جائے۔جسے تمھارے فوجیوں نے اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا تھا اور اسے گواہی والے جگہ پر کھڑا کر کے فیصلہ لیا جائے کہ "دہشت گرد" کون ہے تو بے شک اس کی انگلی میری طرف نہ اٹھے گی۔
سرکار کہتی ہے کہ میں امریکیوں پر تشدد اور ان کو قتل کر دینے کے عزائم کا شکار ہوں لیکن ایک مسلم ہونے کے ناطے میں اس سے بڑے جھوٹ کا تصور بھی نہیں کرسکتا!!
اصل مضمون کا لنک: http://www.freetarek.com/tareks-sentencing-statement