مہ جبین
محفلین
آنکھیں لہو لہو تھیں ، نہ دل درد درد تھا
ہجرِ نبی میں ضبط کا انداز فرد تھا
صحرا نشیں و عرشِ معلّےٰ نورد تھا
اللہ ! ایک فرد دوعالم میں فرد تھا
اَسرا کی رات مہرِ رسالت کو دیکھ کر
رنگِ نجوم و چہرہء مہتاب زرد تھا
پل بھر میں بامِ عرش پہ تھا شہسوارِ نور
دامانِ کہکشاں تھا کہ رستے کی گرد تھا
خلدِ نظر تھا گلشنِ سرکار خواب میں
پژ مردہ کوئی گُل نہ کوئی برگ زرد تھا
گریہ سبب ہوا مرے عفوِ گناہ کا
آنکھیں جلیں تو شعلہء تقصیر سرد تھا
مدحت کے باب میں یہ عجب لطف تھا ایاز
میں خواب میں ، خیالِ مدینہ نورد تھا
ایاز صدیقی