ہجر تو روح کا موسم ہے - بانی

الف عین

لائبریرین
ہجر تو روح کا موسم ہے​




ہجر تو روح کا ایک موسم سا ہے جانے کب آئے گا
سرد تنہائیوں کا عجب سلسلہ ہے اُفق تا اُفق


 

الف عین

لائبریرین
بانی


نام : راجندر منچندہ
پیدائش: 12 نومبر 1932ء
تعلیم: ایم اے اقتصادیات
وطن: ملتان (مغربی پاکستان)

اصل کتاب: حرفِ معتبر
صلاح کار : راج نارائن راز
انتخاب : چندر پرکاش شاد
ترتیب : مہدی حیدر زیدی
موجودہ ای بک کے لیے انتخاب (حرفِ معتبر کی غزلیں) : اعجاز عبید
 

الف عین

لائبریرین
زماں مکاں تھے مرے سامنے بکھرتے ہوئے
میں ڈھیر ہو گیا طولِ سفر سے ڈرتے ہوئے
دکھا کے لمحۂ خالی کا عکسِ لا تفسیر
یہ مجھ میں کون ہے مجھ سے فرار کرتے ہوئے
بس ایک زخم تھا دل میں جگہ بناتا ہوا
ہزار زخم مگر بھولتے بسرتے ہوئے
وہ ٹوٹتے ہوئے رشتوں کا حسنِ آخر تھا
کہ چُپ سی لگ گئ دونوں کو بات کرتے ہوئے
عجب نظارہ تھا بستی کاا اس کنارے پر
سبھی بچھڑ گئے دریا سے پار اترتے ہوئے
میں ایک حادثہ بن کر کھڑا تھا رستے میں
عجب زمانے مرے سر سےتھے گزرتے ہوئے

وہی ہوا کہ تکلّف کا حسن بیچ میں تھا
بدن تھے قربِ تہی لمس سے بکھرتے ہوئے
 

الف عین

لائبریرین
پتّہ پتّہ بھرتے شجر پر ابر برستا دیکھو تم
منظر کی خوش تعمیری کو لمحہ لمحہ دیکھو تم!
مجھ کو اس دلچسپ سفر کی راہ نہیں کھوٹی کرنی
میں عجلت میں نہیں ہوں یارو، اہنا رستہ دیکھو تم
آنکھ سے آنکھ نہ جوڑ کے دیکھو سوئے اُفق اے ہم سفرو!
لاکھوں رنگ نظر آئیں گے، تنہا تنہا دیکھو تم!
آنکھیں٬ چہرے٬ پاؤں سبھی کچھ بکھرے پڑے ہیں رستے میں
پیش روؤں پر کیا کچھ بیتی، جا کے تماشہ دیکھو تم
کیسے لوگ تھے٬ چاہتے کیا تھے کیوں وہ یہاں سے چلے گئے
گُنگ گھروں سے کچھ مت پوچھو، شہر کا نقشہ دیکھو تم
میرے سر ہے شراپ کسی کا، چھوڑ دو میرا ساتھ یہیں
جانے اس ویران ڈگر پر آگے کیا کیا دیکھو تم
اب تو تمھارے بھی اندر کی بول رہی ہے مایوسی
مجھ کو سمجھانے بیٹھے ہو٬ اپنا لہجہ دیکھو تم!
پلک پلک من جوت سجا کر کوئ گگن میں بکھر گیا
اب ساری شب ڈھونڈو اس کو، تارا تارا دیکھو تم
بھاری رنگوں سے ڈرتا سا، رنگ جدا اک ہلکا سا
صاف کہیں نہ دکھائ دے گا، آڑا ترچھا دیکھو تم
پانی سب کچھ اندر اندر دور بہا لے جاتا ہے۔۔۔۔
کوئ شے اس گھاٹ نہ ڈھونڈو، ساتوں دریا دیکھو تم
جیسے میرے سارے دشمن مرے مقابل ہوں اک ساتھ
پاؤں نہیں آگے اٹھ پاتے، زور ہوا کا دیکھو تم
ابھی کہاں معلوم یہ تم کو ویرانے کیا ہوتے ہیں
میں خود ایک کھنڈر ہوں جس میں وہ آنگن آ دیکھو تم
ان بن گہری ہو جائے گی یوں ہی سمے گزرنے پر
اس کو منانا چاہوگےجب، بس نہ چلے گا۔۔۔ دیکھو تم
ایک ایسی دیوار کے پیچھے، اور کیا کیا دیواریں ہیں
اِک دیوار بھی راہ نہ دے گی، سر بھی ٹکرا دیکھو تم
ایک اتھاہ گھنی تاریکی کب سے تمھاری راہ میں ہے
ڈال دو ڈیرہ وہیں، جہاں پر نور ذرا سا دیکھو تم
سچ کہتے ہو! ان راہوں پر چَین سے آتے جاتے ہو
اب تھوڑا اس قید سے نکلو، کچھ ان دیکھا دیکھو تم
خالی خالی سے لمحوں کے پھول ملیں گے پوجا کو
آنے والی عمر کے آگے دامن پھیلا دیکھو تم
ہم پہنچے ہیں بیچ بھنور کے روگ لئے دنیا بھر کے
اور کنارے پر دنیا کو لَوٹ کے جاتا دیکھو تم
اِک عکسِ موہوم عجب سا اِس دھندلے خاکے میں ہے
صاف نظر آئے گا تم کو، اب جو دوبارہ دیکھو تم
اپنی خوش رقدیری جانو، اب جو راہیں سہل ہوئیں
ہم بھی اِدھر ہی سے گزرے تھے، حال ہمارا دیکھو تم

رات، دعا مانگی تھی بانی ہم نے سب کے کہنے پر
ہاتھ ابھی تک شل ہیں اپنے، قہر خدا کا دیکھو تم
 

الف عین

لائبریرین
مرے بدن میں پگھلتا ہوا سا کچھ تو ہے
اِک اور ذات میں ڈھلتا ہوا سا کچھ تو ہے
مری صدا نہ سہی۔۔ہاں۔۔ مرا لہو نہ سہی
یہ موج موج اچھلتا ہوا سا کچھ تو ہے
کہیں نہ آخری جھونکا ہو مِٹتے رِشتوں کا
یہ درمیاں سے نکلتا ہوا سا کچھ تو ہے
نہیں ہے آنکھ کے صحرا میں ایک بوند سراب
مگر یہ رنگ بدلتا ہوا سا کچھ تو ہے
جو میرے واسطے کل زہر بن کے نکلے گا
تِرے لبوں پہ سنبھلتا ہوا سا کچھ تو ہے
یہ عکسِ پیکرِ صد لمس ہے، نہیں۔۔ نہ سہی
کسی خیال میں ڈھلتا ہوا سا کچھ تو ہے
بدن کو توڑ کے باہر نکلنا چاہتا ہے
یہ کچھ تو ہے، یہ مچلتا ہوا سا کچھ تو ہے!
کسی کے واسطے ہوگاپیام یا کوئ قہر
ہمارے سر سے یہ ٹلتا ہوا سا کچھ تو ہے
یہ میں نہیں۔۔ نہ سہی۔۔۔ اپنے سرد بستر پر
یہ کروٹیں سی بدلتا ہوا سا کچھ تو ہے
وہ کچھ تو تھا، میں سہارا جسے سمجھتا تھا
یہ میرے ساتھ پھسلتا ہوا سا کچھ تو ہے
بکھر رہا ہے فضا میں یہ دودِ روشن کیا
اُدھر پہاڑ کے جلتا ہوا سا کچھ تو ہے
مِرے وجود سے جو کٹ رہا ہے گام بہ گام
یہ اپنی راہ بدلتا ہوا سا کچھ تو ہے!

جو چاٹتا چلا جاتا ہے مجھ کو اے بانی!
یہ آستین میں پلتا ہوا سا کچھ تو ہے!!
 

الف عین

لائبریرین
نہ منزلیں تھیں، نہ کچھ دل میں تھا،۔۔ نہ سر میں تھا
عجب نظارۂ لا سمتیت نظر میں تھا
عتاب تھا کسی لمحے کا اِک زمانے پر
کسی کو چین نہ باہر تھا، اور نہ گھر میں تھا
چھُپا کے لے گیا دُنیا سے اپنے دل کے گھاؤ
کہ ایک شخص بہت طاق اس ہنر میں تھا
کسی کے لَوٹنے کی جب صدا سنی تو کھُلا
کہ میرے ساتھ کوئ اور بھی سفر میں تھا
کبھی میں آب کے تعمیرکردہ قصر میں ہپوں
کبھی ہوا میں بنائے ہوئے سے گھر میں تھا
جھجھک رہا تھا وہ کہنے سے کوئ بات ایسی
میں چُپ کھڑا تھا۔ کہ سب کچھ مِری نظر میں تھا
یہی سمجھ کے اسے خود صدا نہ دی میں نے
وہ تیزگام کسی دور کے سفر میں تھا
کبھی ہوں تیری خموشی کے کٹتے ساحل پر
کبھی میں لَوٹتی آواز کے بھنور میں تھا
ہماری آنکھ میں آ کر بنا اک اشک، وہ رنگ
جو برگِ سبز کے اندر، نہ شاخِ تر میں تھا
کوئ بھی گھر میں سمجھتا نہ تھا مرے دُکھ سُکھ
اِک اجنبی کی طرح میں خود اپنے گھر میں تھا

ابھی نہ برسے تھے بانی گھِرے ہوئے بادل
میں اُڑتی خاک کی مانند رہگذر میں تھا
 

الف عین

لائبریرین
اِک گلِ تر بھی شرر سے نکلا
بسکہ ہر کام ہُنر سے نکلا
میں ترے بعد۔۔ پھر اے گمشدگی
خیمۂ گردِ سفر سے نکلا
غم نکلتا نہ کبھی سینے سے
اک محّبت کی نظر سے نکلا
اے صفِ ابرِ رواں تیرے بعد
اِک گھنا سایہ شجر سے نکلا
راست میں کوئ دیوار بھی تھی
وہ اسی ڈر سے نہ گھر سے نکلا
ذکر پھر اپنا، وہاں،مدّت بعد
کسی عنوانِ دِگر سے نکلا
ہم کہ تھے نشٓۂ محرومی میں،
یہ نیا درد کدھر سے نکلا!
ایک ٹھوکر پہ سفر ختم ہوا
ایک سودا تھا کہ سر سے نکلا
ایک اک قصّۂ بے معنی کا
سلسلہ تیری نظر سے نکلا
لمحے، آدابِ تسلسل سے چھُٹے
میں کہ امکانِ سحر سے نکلا

سرِ منزل ہی کھُلا اے بانیؔ
کون کس راہگزر سے نکلا
 

الف عین

لائبریرین
سیاہ خانۂ اُمٌّیدِ رائیگاں سے نکل
کھلی فضا میں ذرا آ، غبارِ جاں سے نکل
عجیب بھیڑ یہاں جمع ہے، یہاں سے نکل
کہیں بھی چل مگر اس شہرِ بے اماں سے نکل
اک اور راہ، اُدھر دیکھ، جا رہی ہے وہیں
یہ لوگ آتے رہیں گے، تو درمیاں سے نکل
ذرا بڑھا تو سہی واقعات کو آگے
طلسم کارئ آغازِ داستاں سے نکل
تو کوئ غم ہے تو دل میں جگہ بنا اپنی
تو اک صدا ہے تو احساس کی کماں سے نکل

یہیں کہیں ترا دشمن چھپا ہے اے بانیؔ
کوئ بہانہ بنا، بزمِ دوستاں سے نکل
 

الف عین

لائبریرین
تھی اپنی اک نگاہ کہ جس سے ہلاک تھے
سب واقعے ہمارے لئے دردناک تھے
اندازِ گفتگو تو بڑے پر تپاک تھے
اندر سے قربِ سرد سے دونوں ہلاک تھے
ٹوٹا عجب طرح سے طلسؕ سفر کہ جب
منظر ہمارے چار طرف ہولناک تھے
اب ہو کوئ چبھن تو محبّت سمجھ اسے
وہ ربط خود ہی مٹ گئے جو غم سے پاک تھے
ہم جسم سے ہٹا نہ سکے کاہلی کی برف
جس کی تہوں میں خواب بڑے تابناک تھے
 

الف عین

لائبریرین
میں اس کی بات کی تردید کرنے والا تھا
اک اور حادثہ مجھ پر گزرنے والا تھا
کہیں سے آ گیا اک ابر درمیاں ورنہ
مرے بدن میں یہ سورج اترنے والا تھا
مجھے سنبھال لیا تیری ایک آہٹ نے
سکوتِ شب کی طرح میں بکھرنے والا تھا
عجیب لمحۂ کمزور سے میں گزرا ہوں
تمام سلسلہ پَل میں بکھرنے والا تھا
میں لڑکھرا سا گیا سایۂ شجر میں ضرور
میں راستے میں مگر کب ٹھہرنے والا تھا
اب آسماں بھی بڑا شانت ہے، زمیں بھی سُکھی
گزر گیا ہے جو ہم پر گزرنے والا تھا
لھا جو پیٹھ پہ آ کر وہ تیر تھا کس کا
میں دُشمنوں کی صفوں میں نہ مرنے والا تھا
 

الف عین

لائبریرین
میں ایک بے برگ و بار منظر۔۔۔ کمر برہنہ۔۔ میں سنسناہٹ تمام یخ پوش۔۔ اپنی آواز کا کفن ہوں
محاذ سے لوٹتا ہوا نیم تن سپاہی۔۔ میں اپنا ٹوٹا ہوا عقیدہ۔۔ اب آپ اپنے لئے وطن ہوں

میں جانتا تھا گھنے گھنے جنگلوں کے سینے میں دفن ہے جومتاعِ نم وہ کسی طرح بھی نہ لا سکوں گا
میں پورے دن کی چتا جلا کر چلا ہوں گھر کو کہ جیسے سورج کے پیٹ میں ٹوٹتی ہوئ آخری کرن ہوں

مرا کوئ خواب تھا جسےمیں سجا چکا ہوں بڑی نفاست سے اہنے دیرینہ شہر کے سارے آئینوں میں
میں نام سے اک جُڑا ہوا شخص۔۔۔۔ طے شدہ شخص۔۔۔۔ ایک پہچان کے علاوہ نہ اب صدا ہوں نہ اب سخن ہوں

کہیں مری گرد لے اُڑی ہے مرے فسانے۔۔۔ کہیں کوئ رنگ لے اڑا ہے مرے حسیں بے بہا خزانے۔۔۔
کہیں۔۔۔ کسی کی نگاہ میں فکرِ رائگاں ہوں، کہیں۔۔۔ کسی کی نگاہ میں رونقِ فضائے ہزار فن ہوں

عدم زوال ایک تیرگی ہے۔۔ کسی اُفق سے سحر نہ ہر گز طلوع ہوگی ۔۔ کہاں تلک منتظر رہو گے۔۔۔۔
کہ میرے سینے میں لاکھوں شمعوں سا ہے الاؤ۔۔ مجھی سے یہ روشنی نکالو۔۔کہ اک یہاں میں ہی شب شکن ہوں
 

الف عین

لائبریرین
چاند سے ۔۔ سارا آسماں خالی
ہر جگہ ہے یہاں وہاں خالی
غم کے بے کیف سلسلے ہیں یہاں
حادثوں سے ہے داستاں خالی
آتشِ گل ہی جب ہوئ کچھ تیز
خود کئے ہم نے آشیاں خالی
یہ انا کیسی درمیاں آئ
ہو چلی بزمِ دوستاں خالی
وقت خود ہی عجب ؑذاب میں ہے
ایک اک لمحہ رائگاں۔۔ خالی
آتا جاتا کہیں نہیں کوئی
ایک اک راہ بے نشاں۔۔ خالی
کیسے کیسے مقام آے ہیں
میں ہوا ہوں کہاں کہاں خالی
عشق میں پوری زندگی کو سنبھال
اس میں جی کا نہیں زیاں خالی!!

اب ہے بانیؔ فضا فضا محروم
گونجتا ہے مکاں مکاں خالی
 

الف عین

لائبریرین
پی چکے تھے زہرِ غم۔۔۔ خستہ جاں پڑے تھے ہم۔۔ چین تھا
پھر کسی تمنّا نے، سانپ کی طرح ہم کو ڈس لیا
میرے گھر تک آتے ہی، کیوں جدا پوئ تجھ سے، کچھ بتا
ایک اور آہٹ بھی ساتھ ساتھ تھی تیرے، اے صبا!
سر میں جو بھی تھا سودا، اُڑ گیا خلاؤں میں مثلِ گرد
ہم پڑے ہیں رستے میں، نیم جاں۔۔۔۔ سکچتہ دل۔۔۔ خستہ پا
سب کھڑے تھے آنگن میں اور مجھ کو تکتے تھے، بار بار
گھر سے جب میں نکلا تھا، مجھ کو روکنے والا کون تھا؟

جوش گھٹتاجاتا تھا، ٹوٹتے سے جاتے تھے حوصلے
اور سامنے۔۔ بانی۔۔۔ دوڑتا سا جاتا تھا راستہ!
 

الف عین

لائبریرین
میں چپ کھڑا تھا تعلّق میں اختصار جو تھا
اُسی نے بات بنائ، وہ ہوشیار جو تھا
پٹخ دیا کسی جھونکے نے لا کے منزل پر
ہوا کے سر ہپہ کوئ دیر سے سوار جو تھا
محبّتیں نہ رہیں اس کے دل میں میرے لئے
مگر وہ ملتا تھا ہنس کر، کہ وضع دار جو تھا
عجب غرور میں آکر برس پڑا بادل
کہ پھیلتا ہوا چاروں طرف غبار جو تھا

قدم قدم رمِ پامال سے میں تنگ آ کر
ترے ہی سامنے آیا، ترا شکار جو تھا
 

الف عین

لائبریرین
سر بسر ایک چمکتی ہوئ تلوار تھا میں
موجِ دریا سے مگر بر سرِ پیکار تھا میں
میں کسی لمحۂ بے وقت کا اک سایہ تھا
یا کسی حرفِ تہی اسم کا اظہار تھا میں
ایک اک موج پٹخ دیتی تھی باہر مجھ کو
کبھی اِس پار تھا میں، اور کبھی اُس پار تھا میں
اُس نے پھر ترکِ تعلّق کا بھی موقع نہ دیا
گھٹتے رشتوں سے کہ ہر چند خبردار تھا میں

اس تماشے میں تاثّر کوئ لانے کے لئے
قتل، بانی، جسے ہونا تھا وہ کردار تھا میں
 

الف عین

لائبریرین
شب چاند تھا جہاں ۔۔ وہیں اب آفتاب ہے
در پر مرے یہ صبح کا پہلا عتاب ہے
آواز کوئ سر سے گزرتی چلی گئی
میں یہ سمجھ رہا تھا کہ حرفِ خطاب ہے
ہر گز یہ سچ نہیں کہ لگن خام تھی مری
ہاں کچھ بھی جو کہے۔۔۔ جو یہاں کامیاب ہے
شب، کون تھا یہاں جو سمندر کو پی گیا
اب کوئ موجِ آب نہ موجِ سراب ہے

اک لمحہ جس کے سینے میں کچھ پل رہا ہے کھوٹ
بانیؔ ابھی وہ اپنے لئے خود عذاب ہے
 

الف عین

لائبریرین
شعلہ ادھر اُدھر۔۔۔ کبھی سایا یہیں کہیں
ہو گا وہ برق جسم، سبک پا، یہیں کہیں!
کن پانیوں کا زور اسے کاٹ لے گیا
دیکھا تھا ہم نے ایک جزیرہ یہیں کہیں
منسوب جس سے ہو نہ سکا کوئ حادثہ
گم ہو کے رہ گیا ہے وہ لمحہ یہیں کہیں
آوارگی کا ڈر، نہ کوئ ڈوبنے کا خوف
صحرا ہی آس پاس۔۔۔ نہ دریا یہیں کہیں
وہ چاہتا یہ ہوگا کہ میں ہی اُسے بلاؤں
میری طرح وہ پھرتا ہے تنہا یہیں کہیں!

بانیؔ ذرا سنبھل کے محبّت کا موڑ کاٹ
اک حادثہ بھی تاک میں ہوگا یہیں کہیں
 
Top