مغزل
محفلین
غزل
ہجر سے مرحلہِ زیست عدم ہے ہم کو
فاصلہ اتنا زیادہ ہے کہ کم ہے ہم کو
سائے سے اُٹھ کے ابھی دھوپ میں جا بیٹھیں گے
گھر سے صحرا تو فقط ایک قدم ہے ہم کو
پا بہ جولاں ترے کوچے میں بھی کھیِنچے لائے
شحنہِ شہر سے اُمیّدِ کرم ہے ہم کو
قحطِ معمور ۂصورت سے ہیں پتھر آنکھیں
اب خدا بھی نظر آئے تو صنم ہے ہم کو
دیکھ کیا آئینہ بے جنبشِ لب کہتا ہے
جو خموشی سے ہو وہ بات اَہم ہے ہم کو
بے یقینی کو یقیں ہے کہ ہُوا کچھ بھی نہیں
اور اِک حادثہ آنکھوں کا بھرم ہے ہم کو
ہم کہاں اور کہاں کوچہء غالب عاصم
” جاد ۂرہ کششِ کافِ کرم ہے ہم کو “
لیاقت علی عاصم ،
اردو ڈکشنری بورڈ، کراچی
ہجر سے مرحلہِ زیست عدم ہے ہم کو
فاصلہ اتنا زیادہ ہے کہ کم ہے ہم کو
سائے سے اُٹھ کے ابھی دھوپ میں جا بیٹھیں گے
گھر سے صحرا تو فقط ایک قدم ہے ہم کو
پا بہ جولاں ترے کوچے میں بھی کھیِنچے لائے
شحنہِ شہر سے اُمیّدِ کرم ہے ہم کو
قحطِ معمور ۂصورت سے ہیں پتھر آنکھیں
اب خدا بھی نظر آئے تو صنم ہے ہم کو
دیکھ کیا آئینہ بے جنبشِ لب کہتا ہے
جو خموشی سے ہو وہ بات اَہم ہے ہم کو
بے یقینی کو یقیں ہے کہ ہُوا کچھ بھی نہیں
اور اِک حادثہ آنکھوں کا بھرم ہے ہم کو
ہم کہاں اور کہاں کوچہء غالب عاصم
” جاد ۂرہ کششِ کافِ کرم ہے ہم کو “
لیاقت علی عاصم ،
اردو ڈکشنری بورڈ، کراچی