فاتح
لائبریرین
وارث صاحب کا ارشاد تھا کہ ناچیز کی مزید کچھ تُک بندیاں محفل کے ماتھے پر بد نما داغ کے طور پر ضرور موجود ہونی چاہییں۔ تو خونِ دو عالم وارث صاحب کی گردن پر اور ایک مجموعۂ الفاظ، جسے شعرا و نقاد تکنیکی طور پر شاید "غزل" کا نام دیتے ہیں، حاضر خدمت ہے:
ہر نفَس اک وبال سا کچھ ہے
اب کے جینا محال سا کچھ ہے
ہے ہم آغوش چاند دریا سے
ہجر محوِ وصال سا کچھ ہے
سر سے پا تک وہ آپ اپنا جواب
لب پہ میرے سوال سا کچھ ہے
روح پرور ہے کیا بدن اُس کا
نور نور اک جمال سا کچھ ہے
اس مسیحا کے دستِ قدرت سے
زخم میں اندمال سا کچھ ہے
کس کی آمد ہے صحنِ گلشن میں
پتّا پتّا نہال سا کچھ ہے
آنکھ کو مل رہی ہے گویائی
خامشی میں کمال سا کچھ ہے
فاتح الدین بشیر
ہر نفَس اک وبال سا کچھ ہے
اب کے جینا محال سا کچھ ہے
ہے ہم آغوش چاند دریا سے
ہجر محوِ وصال سا کچھ ہے
سر سے پا تک وہ آپ اپنا جواب
لب پہ میرے سوال سا کچھ ہے
روح پرور ہے کیا بدن اُس کا
نور نور اک جمال سا کچھ ہے
اس مسیحا کے دستِ قدرت سے
زخم میں اندمال سا کچھ ہے
کس کی آمد ہے صحنِ گلشن میں
پتّا پتّا نہال سا کچھ ہے
آنکھ کو مل رہی ہے گویائی
خامشی میں کمال سا کچھ ہے
فاتح الدین بشیر