ہجوم کا سری لنکن شہری پر بہیمانہ تشدد، قتل کرنے کے بعد آگ لگادی

جاسم محمد

محفلین

مبینہ توہینِ مذہب: سیالکوٹ میں غیر ملکی شہری کو قتل کر کے آگ لگا دی گئی​

  • محمد زبیر خان
  • صحافی
2 گھنٹے قبل
سیالکوٹ

،تصویر کا ذریعہRESCUE 1122
پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر سیالکوٹ میں ایک مشتعل ہجوم نے توہین مذہب کے الزام میں ایک غیر ملکی شہری کو تشدد کر کے ہلاک کرنے کے بعد اس کی لاش کو آگ لگا دی ہے۔
سیالکوٹ پولیس کے ایک اہلکار نے بی بی سی کو بتایا کہ ہلاک ہونے والے شہری کی شناخت پریا نتھا کمارا کے نام سے ہوئی ہے۔ یہ سیالکوٹ کے وزیر آباد روڈ پر واقع ایک نجی فیکڑی میں بحثیت ایکسپورٹ مینیجر کے خدمات انجام دے رہے تھے۔
سیالکوٹ میں ہسپتال ذرائع کا کہنا ہے کہ ان کے پاس ایک انتہائی بری طرح جلی ہوئی لاش لائی گئی ہے۔ ان ذرائع کے مطابق ‘لاش تقریباً راکھ ہی بن چکی ہے۔‘
سوشل میڈیا پر اس وقت کئی ویڈیوز شیئر کی گئی ہیں جن کے بارے میں دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ وہ سیالکوٹ وزیر آباد روڈ کی ہیں۔
ان ویڈیوز میں ایک شخص کی جلی ہوئی لاش کو دیکھا جاسکتا ہے اور کچھ ویڈیوز میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ایک شخص کو جلایا جارہا ہے۔
پولیس کے مطابق اس واقعے کی تحقیقات کی جارہی ہیں۔
سیالکوٹ پولیس کے مطابق ہلاک ہونے والے شہری کی شناخت پریا نتھا کمارا کے نام سے ہوئی ہے۔یہ سیالکوٹ کے وزیر آباد روڈ پر واقع ایک نجی فیکڑی میں بحثیت ایکسپورٹ مینجر کے خدمات انجام دے رہے تھے۔

،تصویر کا ذریعہRESCUE 1122
،تصویر کا کیپشن
سیالکوٹ پولیس کے مطابق ہلاک ہونے والے شخص کی شناخت پریا نتھا کمارا کے نام سے ہوئی ہے
واقعے کے عینی شاید محمد بشیر کے مطابق صبح ہی سے فیکڑی کے اندر یہ افواہیں گرم تھیں کہ پریا نتھا کمارا نے توہین مذہب کی ہے۔ ‘یہ افواہ بہت تیزی سے پوری فیکڑی کے اندر پھیل گئی تھی، جس کے بعد فیکڑی ملازمین کی بڑی تعداد نے پہلے باہر نکل کر احتجاج کیا۔‘
ان کا کہنا ہے کہ احتجاج کے دوران ہی لوگ بڑی تعداد میں دوبارہ فیکڑی کے اندر داخل ہوئے اور پریا نتھا کمارا پر نہ صرف تشدد کیا بلکہ انھیں آگ بھی لگا دی۔
ریسکیو اہلکار مقتول کو بچانے میں ناکام کیوں ہوئے؟
ریسیکو 1122 کے ایک اہلکار نے بی بی سی کو بتایا کہ انھیں تقریباً 11:35 منٹ پر وزیر روڈ پر ہنگامہ آرائی کی کال موصول ہوئی تھی، جس کے چند ہی منٹ بعد ٹیم موقع پر پہنچ چکی تھی۔
وہ کہتے ہیں کہ جب ہم وہاں پہنچے تو اس وقت تک پولیس کی نفری کم تھی جبکہ مقتول کو فیکڑی کے اندر تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
امدادی اہلکار کے مطابق ’ہم لوگ وردی میں تھے۔ لوگ مشتعل تھے۔ ہمارے لیے ممکن نہیں تھا کہ ہم متاثرہ شخص کو کسی بھی طرح کوئی مدد فراہم کرسکیں اور نہ ہی یہ ممکن تھا کہ کوئی مداخلت کریں۔
اس دوران وہ لوگ متاثرہ شخص کو تشدد کرتے ہوئے روڈ پر لے آئے تھے‘۔
امدادی کارکن کے مطابق جب متاثرہ شخص کو روڈ پر لایا گیا تو اس وقت تک وہ ہلاک ہوچکا تھا۔ مشتعل لوگوں نے اس شخص کو روڈ پر لا کر نذر آتش کیا اور نعرے بازی کرتے رہے۔ اس دوران پولیس نے مداخلت کرنے کی کوشش کی مگر پولیس کی نفری بہت کم تھی جبکہ مشتعل عوام بہت بڑی تعداد میں تھے۔
امدادی کارکن کے مطابق تقریباً ساڑھے بارہ بجے کے قریب ہم لوگ جلی ہوئی لاش کو ہسپتال پہنچانے میں کامیاب ہوئے تھے۔
موقعے کے ایک اور عینی شاید کے مطابق فیکڑی ملازمین کا احتجاج بہت دیر تک جاری رہا تھا اور اس احتجاج میں اردگرد کے علاقوں کے لوگ بھی بڑی تعداد میں شامل ہو گئے۔
’احتجاج میں کئی لوگوں نے اشتعال انگیز تقاریر کیں تھیں۔ اس دوران مظاہرین میں سے کسی نے نے کہا کہ چلو خود قصہ صاف کرتے ہیں تو اس کے بعد ڈنڈوں، لاٹھیوں اوراسلحہ سے لیس لوگ فیکڑی کے اندر داخل ہو گئے تھے۔‘
سیالکوٹ سے مقامی صحافی یاسر رضا کے مطابق فیکڑی کے اندر صبح ہی سے یہ افواہیں گرم تھیں کہ توہین مذہب کی گئی ہے، ‘جس کے بعد نہ صرف فیکڑی کے اندر سے حالات کشیدہ ہونے کی اطلاعات آرہی تھیں بلکہ ارد گرد کے علاقے کے لوگ بھی مشتعل تھے۔‘
یاسر رضا کے مطابق دوپہر کے گیارہ، بارہ بجے کے قریب وزیرآباد روڈ پر بڑے احتجاج کی اطلاعات موصول ہوئی تھیں۔
‘اس کے ساتھ ہی ایسی اطلاعات ملنا شروع ہوئیں کہ فیکڑی کے غیر ملکی مینیجر کو جلا دیا گیا ہے۔ اس واقعے کی تصدیق ہمیں وہاں کے مقامی لوگوں کے علاوہ فیکڑی ملازمین نے بھی کی۔‘
یاسر رضا کے مطابق ہنگامہ آرائی اور کشیدہ حالات کی اطلاعات صبح سے تھیں مگر موقع پر مناسب حفاظتی اقدامات نہیں کیے جا سکے۔ اسی طرح جوں جوں وقت گزرا مظاہرین کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا گیا تھا۔ مگر اس وقت بھی صورتحال کو سنبھالا نہیں دیا گیا۔
یاسر رضا کے مطابق اب حالات قابو میں ہیں۔
 

الف نظامی

لائبریرین
سیالکوٹ میں مشتعل ہجوم نے ایک شخص کو بہیمانہ تشدد کرکے قتل کرنے کے بعد اس کی لاش نذرِ آتش کردی، صورتحال کو قابو میں کرنے کے لیے پولیس کی بھاری نفری علاقے میں روانہ کردی گئی ہے۔

سیالکوٹ میں واقعےکے چند گھنٹے بعد وزیراعلیٰ پنجاب کے معاون خصوصی حسان اور آئی جی پنجاب راؤ سردار علی خان کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے نمائندہ خصوصی برائے مذہبی امور حافظ طاہر محمود اشرفی نے علما کی جانب سے اس واقعے کی مذمت کی۔
انہوں نے کہا کہ اس وحشت پر پاکستانی قوم، پاکستان کے تمام مکاتب فکر کے علما، مشائخ اور تمام مذاہب کے ماننے والوں کی طرف سے مذمت کرتا ہوں۔

ان کا کہنا تھا کہ میں سمجھتا ہوں اس واقعے نے اسلام کو بھی بدنام کیا ہے اور ایسا کرنے والوں نے پاکستان کو بھی بدنام کیا ہے، اسلام امن، سلامتی، محبت اور روادری کا دین ہے اور رسول اللہﷺ رحمت اللعالمین ہیں۔

طاہر اشرفی نے کہا کہ خدانخواستہ کہیں اگر توہین ناموس رسالت ہویا توہین مذہب ہوتو اس حوالے سے ہمارے ہاں قوانین موجود ہیں، روز اس پر بات کرتے ہیں اور ان معاملات کو دیکھتے ہیں جومعاملات سنجیدہ ہوتے ہیں وہ عدالتوں میں موجود ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جن لوگوں نے یہ کام کیا ہے انہوں نے نہ تو پاکستان کی خدمت کی ہے اور نہ ہی اسلام کی خدمت کی ہے، حتیٰ کہ انہوں نے محمد رسول اللہ ﷺ کے احکامات اور رسول اکرمﷺکی سیرت طیبہ کی بھی مخالفت کی ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
جاہلیت کی انتہا ہے۔ اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔
حکومت کو چاہیے کو اس واقعہ کے ذمہ داروں کا تعین کرے اور انہیں سخت سے سخت سزا دی جائے۔
 

شمشاد

لائبریرین
جاہلیت کی انتہا ہے۔ اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔
حکومت کو چاہیے کو اس واقعہ کے ذمہ داروں کا تعین کرے اور انہیں سخت سے سخت سزا دی جائے۔
 

الف نظامی

لائبریرین
علما کو عوام الناس کو یہ تعلیم تواتر سے دینے کی ضرورت ہے کہ قانونی راستہ اپنایا جائے اور از خود عدالت بننے کی کوشش نہ کی جائے. اگر کسی نے جرم کیا ہے تو سزا کا اختیار عوام کے پاس نہیں ہے یہ عدالت کا کام ہے.

مزید یہ کہ سماجی سائنس دانوں کو یہ دیکھنا چاہیے کہ معاشرے مین یہ انتہا پسندی کیسے پیدا ہوئی اور اس کو نارملائز کرنا کیسے ممکن ہے.
 

اکمل زیدی

محفلین
واقعی افسوسناک۔۔ وارث بھائی اکثر پنجاب کے واقعات میں اور بالخصوص سیالکوٹ میں لوگ اتنے ایگریسو ہوجاتے ہیں ۔۔۔کیوں؟ کوئی خاص بات ایسے ہی ذہن میں یہ بات بلکہ سوال پہلے سے تھے اور یہ واقعہ پوچھنے کا محرک بن گیا ۔ ۔۔
 

الف نظامی

لائبریرین
واقعی افسوسناک۔۔ وارث بھائی اکثر پنجاب کے واقعات میں اور بالخصوص سیالکوٹ میں لوگ اتنے ایگریسو ہوجاتے ہیں ۔۔۔کیوں؟ کوئی خاص بات ایسے ہی ذہن میں یہ بات بلکہ سوال پہلے سے تھے اور یہ واقعہ پوچھنے کا محرک بن گیا ۔ ۔۔
معاشرے میں پرتشدد رویوں کے فروغ میں ایسی پنجابی فلموں کا بھی واضح کردار ہے جن میں پنجاب کے غنڈوں کو گلیمرائز کیا گیا ہے یا جن میں بڑھکیں مارنا اور بلند آہنگ گفتگو کرنا مروج تھا۔
 

محمد وارث

لائبریرین
واقعی افسوسناک۔۔ وارث بھائی اکثر پنجاب کے واقعات میں اور بالخصوص سیالکوٹ میں لوگ اتنے ایگریسو ہوجاتے ہیں ۔۔۔کیوں؟ کوئی خاص بات ایسے ہی ذہن میں یہ بات بلکہ سوال پہلے سے تھے اور یہ واقعہ پوچھنے کا محرک بن گیا ۔ ۔۔
کیا کہا جا سکتاہے زیدی صاحب، حالانکہ سیالکوٹ کی شرح خواندگی پنجاب کے دوسرے شہروں کے مقابلے میں کافی بہتر ہے اور فی کس آمدن تو شاید پورے پاکستان سے بہتر ہے اور بیروزگاری یہاں نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس کے باوجود کچھ سالوں میں ایسی جہالت کے مظاہرے یہاں ہوئے ہیں کہ بس افسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔
 

علی وقار

محفلین
جس کے جی میں آئے، کسی کو قتل کر دے۔ اب یہاں کوئی روک ٹوک نہیں۔ قانون کی حکمرانی محض لفاظی کی حد تک ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب کو استعفیٰ دینا چاہیے۔ یہ واقعہ ایسا بڑا ہے کہ اس کے اثرات عالمی سطح پر بھی پڑیں گے۔
 

زیک

مسافر
علم دین سے لیکر ممتاز قادری تک علما و عوام ایسے قاتلوں کو ہیرو بناتے آئے ہیں اور آج حیران ہیں کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔ ہر چند دن بعد پاکستان میں بلاسفیمی سا کوئی واقعہ ہوتا ہے۔ پاکستانی وزیراعظم پاکستان کا سا قانون پوری دنیا میں نافذ کرنا چاہتا ہے۔ جیسے بیج عرصہ سے بوئے ہیں اب وہی فصل کاٹ رہے ہیں۔
 

زیک

مسافر
اسلامی سٹکر اور پوسٹر اتارنے پر توہین کا الزام اور قتل و غارتگری کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔ اسی سال فیصل آباد میں ایک ہسپتال میں دو مسیحی نرسوں پر ایسا ہی الزام لگ چکا ہے اور انہیں بھی ایک اسلامی ہجوم نے مارنے کی کوشش کی تھی۔
 
Top