عامر خاکوانی لکھتے ہیں:
جس طرح لوگوں نے جلتی ہوئی لاش کی ویڈیوز بنائیں اور سینکڑوں لوگ مزے لے کر یہ ماجرا دیکھتے رہے، اس سے عوام کی بڑی خوفناک نفسیاتی تصویر سامنے آئی۔ حساس شخص کسی جانور کی جلتی ہوئی لاش بھی نہیں دیکھ سکتا، کجا یہ کہ جلتے انسان کو دیکھے۔ انسانی گوشت جلنے کی بو بھی ناقابل برداشت ہوتی ہے۔کلپس سے ظاہر ہے کہ پریشان ، دل گرفتہ یا وحشت طاری ہونے کے بجائے سینکڑوں لوگوں پر کمال درجے کا سکون قلب غالب تھا۔کہیں نہیں لگ رہا تھا کہ لوگ اس خوفناک منظر سے گھبرا رہے ہیں بلکہ وہ اچک اچک کر پوری جزئیات سے سب کچھ دیکھنا چاہ رہے تھے۔
اس اعتبار سے یہ سماجی، نفسیاتی سٹڈی کا کیس بھی ہے۔
سیالکوٹ کے اس سانحے میں سوال یہ بھی پیدا ہوا کہ
عوامی رویوں میں اس قدر شدت، عدم برداشت اور فرسٹریشن کیوں ا ٓگئی ہے؟لوگ صورتحال کو ہمیشہ ایک خاص منفی اور انتہائی زاویے سے دیکھنے پر کیوں اصرار کرتے ہیں؟ وہ ملزم کو صفائی کا موقعہ نہیں دینا چاہتے،کسی قسم کا حسن ظن نہیں رکھتے اور انتہائی شدت والا ردعمل ہی دیتے ہیں، آخر کیوں؟ کیا اس لئے کہ عمومی طور پر رویوں میں بے پناہ غصہ اور کڑواہٹ آ گئی ہے یا صرف مذہبی حوالے سے ایسی شدت ہے؟ کیا اس لئے کہ ایک خاص مذہبی حلقہ یا گروہ ان باتوں میں بہت سخت ، بے لچک اور نہایت عدم برداشت کا رویہ اپنانے کی تلقین کرتا ہے؟