ہجوم کا سری لنکن شہری پر بہیمانہ تشدد، قتل کرنے کے بعد آگ لگادی

جاسم محمد

محفلین
توہین رسالت پر سزا کا واویلا مچانے والے توہین ہولو کاسٹ پر سزا کا ماتم کیوں نہیں مناتے؟؟؟
توہین ہولوکاسٹ پر سزائے موت نہیں ملتی۔ معمولی سا جرمانہ ہے یا کچھ عرصہ جیل۔ توہین کے محض الزام پر گردنیں اڑانے کا کلچر کسی مغربی ملک میں موجود نہیں
 

جاسم محمد

محفلین
یعنی توہین اسلام محض ایک جھوٹا عذر ہے جو پاکستانی مسلمان آئے دن استعمال کرتے ہیں
مغرب کے وچ ہنٹ دور کی تاریخ پڑھ لیں۔ اس وقت بھی محض الزام پر چڑیلیں یا جادوگرنیاں سر عام جلا دی جاتی تھی۔ ان لوگوں کو تو صدیوں قبل آ گئی۔ مسلمانوں کو کب آئے گی؟
 

ضیاء حیدری

محفلین
انجنیئر پریانتھا 2012 سے سیالکوٹ کی اس فیکٹری میں بطور ایکسپورٹ مینیجر ملازمت کر رہے تھے۔
حکومت پنجاب کی ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فیکٹری مینیجر کے ڈسپلن اور کام لینے کی وجہ سے فیکٹری کے بعض ملازمین ان سے نالاں تھے۔ رپورٹ کے مطابق کچھ غیر ملکی کمپنیوں کے وفد نے فیکٹری کا دورہ کرنا تھا۔ سری لنکن فیکٹری مینیجر نے مشینوں کی مکمل صفائی کا حکم دیتے ہوئے مشینوں سے مذہبی سٹیکرز اتارنے کا کہا تھا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مبینہ طور پر جب فیکٹری ملازمین نے سٹیکر نہیں ہٹایا تو مینیجر نے خود ہٹا دیا۔ بی بی سی۔ رپورٹ کے مطابق وہ یہاں تقریبا دس سال سے کام کررہے تھے اور انکو لوکل بولی نہیں آتی تھی یہ حیرت کی بات ہے، توہین مذہب کے معاملے میں محتاط رویہ اختیار کرنا چاہئے کیونکہ اس کے اشتعال انگیز پہلو کو مدنظر رکھنا ضروری ہے
 

علی وقار

محفلین
مغرب کے وچ ہنٹ دور کی تاریخ پڑھ لیں۔ اس وقت بھی محض الزام پر چڑیلیں یا جادوگرنیاں سر عام جلا دی جاتی تھی۔ ان لوگوں کو تو صدیوں قبل آ گئی۔ مسلمانوں کو کب آئے گی؟
بات تو درست ہے مگر مغرب نے بیسویں صدی میں جنگ عظیم اول و دوم و ما بعدجو گُل کھلائے ، اس سے بھی ہم واقف ہیں۔ کہیں ہم یہ نہ سمجھنے لگ جائیں کہ مغرب کا ریکارڈ ہر حوالے سے بہت شاندار ہو چکا ہے۔ ہاں، یہ بات درست ہے کہ غلط کاموں کے لیے انہوں نے محض مذہب کا سہارا لینا ترک کردیا تھا ۔ ہم بوجوہ ایسا نہ کر پائے۔ ہمارے ہاں مذہب کے نام پر جو شدت پسندی اور انتہاپسندی ہے، اس کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ ایسے بیسیوں واقعات ہو چکے ہیں کہ محض توہین مذہب و رسالت کے نام پر بغیر ثبوت و شواہد اور عدالتی کارروائی کے خون بہایا گیا۔
 

عرفان سعید

محفلین
توہینِ رسالت اور تکریمِ رسالت کا معیار اب یہ ہے کہ مشینوں پر اسٹیکر لگائے جائیں یا اتارے جائیں!
انا للہ وانا الیہ راجعون
 
آخری تدوین:

علی وقار

محفلین
پاکستان میں یہ کوئی پہلا توہینی واقعہ تو ہے نہیں۔ روز ایسے واقعات ہوتے ہیں۔
ایسے واقعات تواتر سے ہو رہے ہیں اور بسا اوقات کسی سے ذاتی دشمنی ہو تو اس کے متعلق بھی کوئی افواہ اڑا دی جاتی ہے اور پھر، چل سو چل۔
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
ہاں، یہ بات درست ہے کہ غلط کاموں کے لیے انہوں نے محض مذہب کا سہارا لینا ترک کردیا تھا ۔ ہم بوجوہ ایسا نہ کر پائے۔
جنہوں نے ننگا گھومنا، شراب پینا، سور کھانا اور ہم جنس پرستی کو اپنے لیے جائز کر لیا ہو وہ کیسے مذہب کا سہارا لے سکتے ہیں۔ وہ پھر نئے راستے ڈھونڈتے ہیں۔ کبھی دہشت گرد کا لیبل لگا کر تو کبھی کالی چمڑی۔ آج بھی یورپ یا امریکہ جیسے نام نہاد مہذب معاشرے سب سے زیادہ اسلحہ فروخت کرتے ہیں۔ کیا یہ اسلحہ بچوں کے کھیلنے کے لیے بناتے ہیں۔ نیٹو افواج جس ملک کو چاہتی ہیں تاخت وتاراج کر دیتی ہیں۔ آج کی منافق دنیا محض آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے سے ہچکچاتی ہے۔ ورنہ تو لاکھوں لوگوں کو بے گھر کر دو۔ ان کو کنٹینر میں بند کر کے صحراؤں میں رکھ دو۔ ابو غریب کی جیل میں انسانیت سوز معاملہ کرو۔ سب جائز ہے
 

زیک

مسافر
یہ تو صرف دو ہفتوں کی خبریں ہیں۔
 

ضیاء حیدری

محفلین
بڑی سوشل میڈیا کمپنیوں کی پالیسی ہمشہ پاکستان دشمن رہی ہے، افسوس ہم پاکستانی بھی بنا سوچے سمجھے ان کا ساتھ دیتے ہیں اور نہیں سوچتے ہیں ملک کی بدنامی کا،،،، اگر کوئی واردات ہوئی ہے تو یقینا کوئی محرک بھی ہوگا ایسے میں قانون کے کیا تقاضے ہیں، وہ متعلقہ ادارے جانتے ہیں انھیں اپنا کام کرنے دیں، سوشل میڈیا پر معلومات بناؤٹی بھی ہوتی ہیں، بعد میں کہانی فٹ کردی جاتی ہے، میں ایک مثال پیش کرتا ہوں، گذشتہ دنوں اسلام آباد میں ایک لڑکی چپکے سے اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ رات گذارنے گئی اور قتل ہوگئی، سوشل میڈیا پر بڑی کہانیاں چلیں، لیکن کسی نے یہ نہیں کہا کہ لڑکیوں کو ایسی حرکت نہیں کرنا چاہئے کہ ان کی جان خطرے میں پڑ جائے، آگے آپ کی مرضی مگر میں ہمیشہ یہی کہوں گا کہ ایسی حرکت سے بچو جو مروا دے، البتہ جن کو مرن کا شوق ہے وہ اپنی مرضی کے اپنے فعل کے بھگتان بھگت لیتے ہیں۔۔۔۔

جس کا جی چاہے وہ اُنگلی پہ نچا لیتا ہے
جیسے بازار سے منگوائے ہوئے لوگ ہیں ہم
 
آخری تدوین:

ضیاء حیدری

محفلین
بڑی سوشل میڈیا کمپنیوں کی پالیسی ہمشہ پاکستان دشمن رہی ہے، افسوس ہم پاکستانی بھی بنا سوچے سمجھے ان کا ساتھ دیتے ہیں اور نہیں سوچتے ہیں ملک کی بدنامی کا،،،، اگر کوئی واردات ہوئی ہے تو یقینا کوئی محرک بھی ہوگا ایسے میں قانون کے کیا تقاضے ہیں، وہ متعلقہ ادارے جانتے ہیں انھیں اپنا کام کرنے دیں، سوشل میڈیا پر معلومات بناؤٹی بھی ہوتی ہیں، بعد میں کہانی فٹ کردی جاتی ہے، میں ایک مثال پیش کرتا ہوں، گذشتہ دنوں اسلام آباد میں ایک لڑکی چپکے سے اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ رات گذارنے گئی اور قتل ہوگئی، سوشل میڈیا پر بڑی کہانیاں چلیں، لیکن کسی نے یہ نہیں کہا کہ لڑکیوں کو ایسی حرکت نہیں کرنا چاہئے کہ انکی جان خطرے میں پڑ جائے، آگے آپ کی مرضی مگر میں ہمیشہ یہی کہوں گا کہ ایسی حرکت سے بچو جو مروا دے، البتہ جن کو مرن کا شوق ہے وہ اپنی مرضی کے اپنے فعل کے بھگتان بھگت لیتے ہیں۔۔۔۔

جس کا جی چاہے وہ اُنگلی پہ نچا لیتا ہے
جیسے بازار سے منگوائے ہوئے لوگ ہیں ہم
 

جاسم محمد

محفلین
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مبینہ طور پر جب فیکٹری ملازمین نے سٹیکر نہیں ہٹایا تو مینیجر نے خود ہٹا دیا۔ بی بی سی۔ رپورٹ کے مطابق وہ یہاں تقریبا دس سال سے کام کررہے تھے اور انکو لوکل بولی نہیں آتی تھی یہ حیرت کی بات ہے، توہین مذہب کے معاملے میں محتاط رویہ اختیار کرنا چاہئے کیونکہ اس کے اشتعال انگیز پہلو کو مدنظر رکھنا ضروری ہے
پوسٹر یا اسٹیکر اتارنا توہین کب سے ہو گیا؟
 
Top