فراز ہر آشنا میں کہاں خوئے محرمانہ وہ - احمد فراز

غزل

ہر آشنا میں کہاں خوئے محرمانہ وہ
کہ بے وفا تھا مگر دوست تھا پرانا وہ

کہاں سے لائیں اب آنکھیں اسے کہ رکھتا تھا
عداوتوں میں بھی انداز مخلصانہ وہ

جو ابر تھا تو اسے ٹوٹ کر برسنا تھا
یہ کیا کہ آگ لگا کر ہوا روانہ وہ

پکارتے ہیں مہ و سال منزلوں کی طرح
لگا ہے تو سن ہستی کو تازیانہ وہ

ہمیں بھی غم طلبی کا نہیں رہا یارا
ترے بھی رنگ نہیں گردش زمانہ وہ

اب اپنی خواہشیں کیا کیا اسے رلاتی ہیں
یہ بات ہم نے کہی تھی مگر نہ مانا وہ

یہی کہیں گے کہ بس صورت آشنائی تھی
جو عہد ٹوٹ گیا یاد کیا دلانا وہ

اس ایک شکل میں کیا کیا نہ صورتیں دیکھیں
نگار تھا نظر آیا نگارخانہ وہ

فراز خواب سی غفلت دکھائی دیتی ہے
جو لوگ جان جہاں تھے ہوئے فسانہ وہ

احمد فراز​
 

فرخ منظور

لائبریرین
واہ! فراز کی بہت خوبصورت غزل ہے۔ شکریہ شامی صاحب۔ اردو محفل میں خوش آمدید جناب۔ ہو سکے تو تعارف سیکشن میں اپنا تعارف ضرور کروائیں۔
 

عین عین

لائبریرین
جو ابر تھا تو ٹوٹ کر برسنا تھا

غزل بہت خوب ہے۔ اس مصرعے میں کچھ کمی محسوس ہو رہی ہے اگر میں غلط ہوں تو مجھے بتا دیجیے ورنہ اسے درست کر دیں۔
میرا خیال ہے

جو ابر تھا تو ’اُسے‘ ٹوٹ کر برسنا تھا
 
جو ابر تھا تو ٹوٹ کر برسنا تھا

غزل بہت خوب ہے۔ اس مصرعے میں کچھ کمی محسوس ہو رہی ہے اگر میں غلط ہوں تو مجھے بتا دیجیے ورنہ اسے درست کر دیں۔
میرا خیال ہے

جو ابر تھا تو ’اُسے‘ ٹوٹ کر برسنا تھا

نہیں محترم آپ نے بجا فرمایا ہے اور آپ کی ہدایت اور کتاب سے موافقت کے بعد میں نے اسے درست کر دیا ہے ۔ وہ کیا ہے کہ روانی میں ٹائپنگ کے دوران اکثر کوئی لفظ رہ جاتا ہے ۔ یہ دوسرا واقعہ ہے ۔ امید ہے کہ آپ طبع پر یہ غلطی ناگوار نہ گزری ہو گی ۔ بہرحال معذرت خواہ ہوں۔
 

ظفری

لائبریرین
ہر آشنا میں کہاں خوئے محرمانہ وہ
کہ بے وفا تھا مگر دوست تھا پرانا وہ

کہاں سے لائیں اب آنکھیں اسے کہ رکھتا تھا
عداوتوں میں بھی انداز مخلصانہ وہ

جو ابر تھا تو اسے ٹوٹ کر برسنا تھا
یہ کیا کہ آگ لگا کر ہوا روانہ وہ

ہمیں بھی غم طلبی کا نہیں رہا یارا
تیرے بھی رنگ نہیں گردشِ زمانہ وہ

اب اپنی خواہشیں کیا کیا اسے رُلاتی ہیں
یہ بات ہم نے کہی تھی مگر نہ مانا وہ

یہی کہیں گے کہ بس صورت آشنائی تھی
جو عہد ٹوٹ گیا یاد کیا دلانا وہ

اس ایک شکل میں کیا کیا نہ صورتیں دیکھیں
نگار تھا نظر آیا نگار خانہ وہ

فراز خواب سے غفلت دکھائی دیتی ہے
جو لوگ جانِ جہاں تھے ہوئے فسانہ وہ​
 
Top