ہر ادبی تنقید ایک تخلیق ہے ۔۔۔

ہرادبی تنقید ایک تخلیق ہے ۔ کون کون متفق ہے ؟


سوال میں تدوین کررہا ہوں کہ یہ محمد احسن فاروقی کے ایک مضمون "تنقید: علم وفن" کاحصہ ہے۔
 
آخری تدوین:

محمداحمد

لائبریرین
میرا خیال ہے کہ ہر ادبی تنقید کا تخلیق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تخلیق کے لئے لازم ہے کہ کچھ نئی بات کہی جائے سو اگر لگے بندھے طریقے سے کسی ادبی تحریر کی تنقید کا فرض ادا کر دیا جائے تو ایسی تنقید تخلیق کے زمرے میں کیسے جگہ بنا سکتی ہے۔
 

سید فصیح احمد

لائبریرین
خرم برادر،

تنقید کے لغوی معنی تو، ایسی رائے جو برے بھلے کی تمیز کر سکے یا کھوٹا کھرا جانچنے کے ہیں۔ لغوی اعتبار سے نکتہ چینی اور اعتراضات نامے بھی اسی میں شمار ہوتے ہیں۔ لیکن ادبی تناطر میں یہ ایک مخصوص دائرے میں محدود وجود ہے۔

اصطلاحاً: وہ تحریر جس میں کسی فن پارے کے محاسن و نقائص پر فنی اصول و ضوابط کی روشنی میں اظہارِ خیال کیا گیا ہو۔

اب یہاں کچھ باتیں سمجھ لینی اہم ہیں۔ باقاعدہ تنقید کسی ادبی صنف کے اتار چڑھاؤ اور مروجہ داخلی جزویات کو سمجھے بغیر ( عام زبان میں یوں سمجھ ہونی جیسے کوئی شے گھول کی پی ہو! ) ممکن نہیں۔ تو پھر یہ سب جانے بغیر جو نوشتہِ نکتہ چیں نظر آتا ہے وہ کیا ہے؟ وہ ایک اچھے قاری کا تبصرہ کہلایا جا سکتا ہے جو اس کے محدود ذاتی مشاہدے اور مطالعے پر مبنی ہو گا۔ مروجہ نمائندہ ادب میں اس کی حیثیت اس سے زیادہ نہیں۔

اب دیکھتے ہیں کہ جو باقاعدہ تنقید ہے وہ تخلیق کے زمرے میں شمار ہوتی ہے یا نہیں؟

عام زبان میں تو جواب مثبت ہے۔ کہ بہر حال اسے تخلیق تو کیا گیا ہے۔ لیکن وہ ادب پارہ ( کسی ادبی صنف کے نمونے کے طور پر شمار ہو سکنے والی تخلیق ) نہیں کہلائی جا سکتی۔ جب تک نقاد رائج قوانینِ تنقید کی تقلید نہ کرے۔ اگر وہ اتباع نہیں کرتا تو ذاتی طور پر میں اسے تبصرہ یا مشتعل تحریر کی صورت میں تنقیص شمار کروں گا!

بہت دعائیں!
 

سید فصیح احمد

لائبریرین
بہت ہی گھٹیا بات ہے
کیا میری یہ تنقید بھی تخلیق شمار ہو گی؟

ڈھاڈے استادوں کی طرح ضرب لگائی، مگر کاری چوٹ ہے! اس کے علاوہ یہ مخصوص ٹکڑا اگر سرگوشی سے جدا کر دیں تو تنقیص ہو جائے گا۔ مع سرگوشی البتہ تنقید ہی ہے!
 
بہت ہی گھٹیا بات ہے
کیا میری یہ تنقید بھی تخلیق شمار ہو گی؟

فاتح سوال دوبارہ پڑھیے۔ بات ادبی تنقید کی ہو رہی ہے۔ میرا خیال ہے اس کو آپ صحیح طرح سے سمجھ نہیں پائے۔
یہ سوال جو میں نے پوچھا ہے یہ محمد احسن فاروقی کا ہے جو ان کے مضمون تنقید: علم و فن کا حصہ ہے۔ حوالے کے لیے آپ چالیس سالہ مخزن دیکھ سکتے ہیں۔ اگر تنقید میں ادبیت شامل ہے اور وہ ادب پر رہتے ہوئے ادب سے ہی بحث کر رہی ہے تو اسے ادبی تنقید کا نام دیا جا سکتا ہے۔ اگر میسر ہوسکے تو آپ احسن فاروقی کا یہ مضمون ضرور پڑھیے گا۔ مزید یہ کہ آپ کا یہ سوال کہ آپ کی
"بہت ہی گھٹیا بات ہے" تخلیق میں شمار ہوگی کہ نہیں تو میرے خیال میں یہ تاثرات ہیں اور ان کا بیانیہ ادبی نہیں، اسے تخلیق میں شمار نہیں کیا جا سکتا۔
 
میرا خیال ہے کہ ہر ادبی تنقید کا تخلیق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تخلیق کے لئے لازم ہے کہ کچھ نئی بات کہی جائے سو اگر لگے بندھے طریقے سے کسی ادبی تحریر کی تنقید کا فرض ادا کر دیا جائے تو ایسی تنقید تخلیق کے زمرے میں کیسے جگہ بنا سکتی ہے۔

درست فرمایا۔ متفق ہوں۔
 
ہرادبی تنقید ایک تخلیق ہے ۔ کون کون متفق ہے ؟


سوال میں تدوین کررہا ہوں کہ یہ محمد احسن فاروقی کے ایک مضمون "تنقید: علم وفن" کاحصہ ہے۔
ہماری رائے میں ادبی تنقید اور ادب کا کم و بیش وہی تعلق ہے جو فلسفے اور زندگی کا ہے۔ یعنی اول الذکر مظاہر موخر الذکر کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اب اگر کوئی کہے کہ فلسفہ فی ذاتہِ زندگی ہے تو یہ بات مجازاً تو درست ہو سکتی ہے کہ فلسفے کی اہمیت سے صرفِ نظر ممکن نہیں۔ مگر ٹھیٹھ منطقی اعتبار سے یہ بات قابلِ گرفت ہے۔ اسی طرح تنقید کو تخلیق قرار دینے کا معاملہ بھی ہے۔ لغوی، عملی اور نظری اعتبار سے تنقید اور تخلیق میں بعدِ قطبین ہے۔ مگر خوش بیانی کی حد تک کوئی انھیں متحد الاصل قرار دیتا ہے تو اس میں حرج نہیں۔ :):):)
 

فاتح

لائبریرین
فاتح سوال دوبارہ پڑھیے۔ بات ادبی تنقید کی ہو رہی ہے۔ میرا خیال ہے اس کو آپ صحیح طرح سے سمجھ نہیں پائے۔
مزید یہ کہ آپ کا یہ سوال کہ آپ کی
"بہت ہی گھٹیا بات ہے" تخلیق میں شمار ہوگی کہ نہیں تو میرے خیال میں یہ تاثرات ہیں اور ان کا بیانیہ ادبی نہیں، اسے تخلیق میں شمار نہیں کیا جا سکتا۔
آپ ٹھنڈے دل و دماغ سے میری تنقید کو دوبارہ پڑھیے اور بتائیے کہ کون سا عنصر ہے جو اسے ادب سے خارج کر رہا ہے؟
نیز کیونکر اس کا بیانیہ ادبی نہیں؟
اور اگر تاثرات ہیں تو کیا تاثرات کو ادب سے نکال باہر کر دیا ہے آپ نے؟
رہے احسن یا کوئی اور فاروقی۔۔۔ کیا وہ گھٹیا بات نہیں کر سکتے؟
 

سید فصیح احمد

لائبریرین
در اصل مسئلہ یہ ہوا کہ فاتح برادر نے سرگوشی شامل کر دی، نہ جانے خرم بھائی وہ پڑھ سکے یا نہیں۔

بقول فاتح:
"بہت ہی گھٹیا بات ہے"
کیا میری یہ تنقید بھی تخلیق شمار ہو گی؟

یہاں یہی کہا گیا ہے کہ ہر تنقید تخلیق نہیں ہوتی۔ جس کی وضاحت میں اپنے تئیں کر چکا ہوں!

دعائیں!
 
ہماری رائے میں ادبی تنقید اور ادب کا کم و بیش وہی تعلق ہے جو فلسفے اور زندگی کا ہے۔ یعنی اول الذکر مظاہر موخر الذکر کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اب اگر کوئی کہے کہ فلسفہ فی ذاتہِ زندگی ہے تو یہ بات مجازاً تو درست ہو سکتی ہے کہ فلسفے کی اہمیت سے صرفِ نظر ممکن نہیں۔ مگر ٹھیٹھ منطقی اعتبار سے یہ بات قابلِ گرفت ہے۔ اسی طرح تنقید کو تخلیق قرار دینے کا معاملہ بھی ہے۔ لغوی، عملی اور نظری اعتبار سے تنقید اور تخلیق میں بعدِ قطبین ہے۔ مگر خوش بیانی کی حد تک کوئی انھیں متحد الاصل قرار دیتا ہے تو اس میں حرج نہیں۔ :):):)
مزا نہیں آیا۔ آپ اس بات کو مزید تفصیل سے بیان کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ :)
 

نایاب

لائبریرین
ایک معصوم سا سوال : تو کیا تخریبی تنقید تخلیق کے زمرے میں آسکتی ہے؟
اگر تو صرف تنقید برائے تنقید کرتے دل کے پھپھولے پھوڑے جائیں تو تخلیق تو دور کی بات تنقید بھی تنقید نہ کہلائے گی ۔
تنقید کرتے دلائل کے ساتھ کسی کی سوچ کا محاکمہ کیا جاتا ہے ۔کسی کی بیان کردہ سوچ کے شش جہات میں بکھرتے بیانئے کو مشاہدے اور مطالعے کے بل پر پرکھا جاتا ہے ۔ سوچ سے ابھری تحریر پر ناقد ہوتے سوچ کے کچھ نئے زاویئے سامنے لائے جاتے ہیں ۔ ایسے زاویئے جو کہ بیان ہوئی سوچ کا براہ راست رد تو نہیں کرتے ۔ لیکن بیانیہ سوچ کہ مخالف ہوتے مخفی حقیقتوں کو سامنے لاتے ہیں ۔ اور ایسی تنقید اک نئی تخلیق کے خلق ہونے میں معاون ہوتی ہے ۔
تنقید اپنے آپ میں تخریب کے مماثل ہی عمل ہوتا ہے جو کہ کسی موجود شئے کو توڑ پھوڑ کر اک نئی صورت تعمیر کرنے میں معاون ہوتا ہے ۔
سو تنقید کو تعمیری یا تخریبی کا عنوان دینا مناسب ہی نہیں ۔۔۔۔۔۔۔
یہ میری ذاتی سوچ ہے جوکہ سراسر غلط بھی ہو سکتی ہے ۔
بہت دعائیں
 

نایاب

لائبریرین
بہت ہی گھٹیا بات ہے
کیا میری یہ تنقید بھی تخلیق شمار ہو گی؟
میرے محترم بھائی
یہ تو آپ نے براہ راست رد کیا ہے سوال کو
آپ نے تنقید تو کی ہی نہیں سو تخلیق کا کیا پوچھنا ۔
آپ سوال میں موجود چاہے کسی بھی اک لفظ پر گرفت کرتے اور اس پر ناقد ہوتے تو آپ کی بات " تنقید " میں شامل ہوتی اور عین ممکن ہے اک نئی تخلیق کا سبب بھی ۔
بہت دعائیں
 
Top