کاشفی

محفلین
غزل
از ڈاکٹر جاوید جمیل
ہر ایک شب کو ترے نام ہونا پڑتا ہے
اداس دل کو سرِ شام ہونا پڑتا ہے

خبیث تہمتیں دامن کو چیر جاتی ہیں
تمہارے واسطے بدنام ہونا پڑتا ہے

ہمیں سے لگتا نہیں ہے کسی پہ بھی الزام
ہمیں کو موردِ الزام ہونا پڑتا ہے

قلم ہیں کتنے جو تلوار بن کے جیتے ہیں
یہاں قلم کو بھی نیلام ہونا پڑتا ہے

یہی ہے ارض و سماوات کا اصول، ہمیں
کبھی سبب کبھی انجام ہونا پڑتا ہے

ہر اک گناہ گواہی سے بچ نہیں سکتا
کبھی تو رجم سرِ عام ہونا پڑتا ہے

ہدف پہ لگنے سے پہلے یہ ہوتا ہے جاوید
کئی نشانوں کو ناکام ہونا پڑتا ہے
 

طارق شاہ

محفلین
ہمیں سے لگتا نہیں ہے کسی پہ بھی الزام
ہمیں کو موردِ الزام ہونا پڑتا ہے


بہت خوب!
تشکّر شیئر کرنے پر
بہت خوش رہیں :)
 
Top