عباس اعوان
محفلین
تھوڑی روشنی ڈالیں مُرشد، کیا پتا برادر راحیل فاروق کے قلم سے اس طرح کے مزید سوتے پھوٹ پڑیںاچھا منی اور شیلا کو تو بھلے چھوڑیے لیکن"حشرات الارض" سے متعلق گیتوں سے یوں بےرخی اچھی نہیں۔۔۔۔
تھوڑی روشنی ڈالیں مُرشد، کیا پتا برادر راحیل فاروق کے قلم سے اس طرح کے مزید سوتے پھوٹ پڑیںاچھا منی اور شیلا کو تو بھلے چھوڑیے لیکن"حشرات الارض" سے متعلق گیتوں سے یوں بےرخی اچھی نہیں۔۔۔۔
مومنو! خود سے جستجو کرو۔۔۔۔تھوڑی روشنی ڈالیں مُرشد، کیا پتا برادر راحیل فاروق کے قلم سے اس طرح کے مزید سوتے پھوٹ پڑیں
یہ پھکڑپن کیا ہوتا ہے؟پھکڑ پن سے ہی مزاح پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں
میں بری طرح ممنون ہوں۔ہاہاہاہاہاہا۔۔۔۔۔ہاہاہاہاہاہاہا۔۔۔۔۔۔۔ہاہاہاہاہاہاہاہاہاا۔۔۔۔۔۔۔ہاہاہاہاہاہاہاہا۔۔۔۔
ہاہاہاہااااااا۔۔۔ لاجواب۔۔۔۔ میں بےاختیار ہنس رہا ہوں۔۔۔
اچھا منی اور شیلا کو تو بھلے چھوڑیے لیکن"حشرات الارض" سے متعلق گیتوں سے یوں بےرخی اچھی نہیں۔۔۔۔
باقی یہ نیرنگ خیال بھائی کہ آپ کی داد میرے لیے بہت معنیٰ رکھتی ہے۔ہم اپنی لیاقت کی بابت ہرگز کسی خوش فہمی میں مبتلا نہیں۔
مجھے لکھنے ہی میں عرصہ لگ گیا۔ آپ خود کو بےقصور سمجھیے!عرصے کے بعد ایسی جاندار اور اصیل تحریر پڑھنے کو ملی
بہت شکریہ۔اتنی اچھی اور عمدہ تحریر پر مبارکباد قبول فرمائیے
اچھے لوگ اچھی طرح ممنون ہوتے ہیں۔میں بری طرح ممنون ہوں۔
اور باقی بے معنی ہے؟باقی یہ نیرنگ خیال بھائی کہ آپ کی داد میرے لیے بہت معنیٰ رکھتی ہے۔
یہ بھی خوب رہی۔ ارے اچھے لوگ تو ممنون ہوتے ہی نہیں، جاسمن آپی۔ یہ تو مجھ جیسے گنہگار ہوتے ہیں جن کی گردنوں کے طوق انھیں پیوندِ زمین رکھتے ہیں۔اچھے لوگ اچھی طرح ممنون ہوتے ہیں۔
یقین جانیں میں کنواریوں کی طرح شرما گیا ہوں۔ کتنی وہ ہیں آپ!اور باقی بے معنی ہے؟
تو پھر اپنی ٹیلیفونک گفتگوؤں کا ربط مرحمت فرمائیے۔نوٹ: میری کسی تحریر کی مثال نہ دی جائے۔
میں ابھی اتنا اہم نہیں ہوا کہ میری کالیں ٹیپ کی جائیںتو پھر اپنی ٹیلیفونک گفتگوؤں کا ربط مرحمت فرمائیے۔
تب تک انتظار کریں ہم؟میں ابھی اتنا اہم نہیں ہوا کہ میری کالیں ٹیپ کی جائیں
مگر اس سے پہلے مجھے اس مقام تک پہنچانے کے لئے آپ کو دعائیں کرنا ہونگیتب تک انتظار کریں ہم؟
اب ایک انگلی اور ایک انگوٹھا باقی ہے دیکھیے وہ کب گھی سے سیراب ہوں گے۔موصوف کی شاعری پڑھی تُو شاعر لگے۔ جب نثر پڑھی تو نثر نگار اب کہ مزاح نگاری میں یہی یکتاء ! تینوں انگلیاں گھی میں ! واہ
باقی دو انگلیوں سے عدم التفات کی کوئی خاص وجہ؟تینوں انگلیاں گھی میں ! واہ
میرا خیال ہے کہ شیخ صاحبہ جس مقامِ محمود سے اس فقیر کے مضامین ملاحظہ فرماتی ہیں وہاں سے چھنگلیا دکھائی نہیں دیتی۔ باقی رہا انگوٹھا تو وہ انگلیوں میں محسوب نہیں!اب ایک انگلی اور ایک انگوٹھا باقی ہے دیکھیے وہ کب گھی سے سیراب ہوں گے۔
متشکرم، بھائی۔بہت خوب فکاہی تحریر ہے، راحیل صاحب!
حالات حاضرہایک خاتون یوں نغمہ سنج ہوتی ہیں:
گڈی تو منگا دے، تیل میں پوانی ہاں!
اس گیت کی حقیقی معنویت سے کوئی تب تک آگاہ نہیں ہو سکتا جب تک اس نے کم از کم بی اے تک معاشیات نہ پڑھی ہو۔ ہم تو یہاں تک سمجھتے ہیں کہ ورلڈ اکنامک فورم کے سیمیناروں میں اس نغمے کو تھیم سونگ کی حیثیت حاصل ہونی چاہیے۔ تاہم کند ذہن افراد کے لیے یہ وضاحت ضروری ہے کہ نغمہ نگار نے دراصل اس گیت میں رواں صدی کے انتہائی خطرناک تیل کے بحران کی جانب اشارہ کیا ہے۔ شاعر چونکہ عصری تقاضوں پہ نہایت گہری نگاہ رکھتا ہے اور تیل کے بحران کے نتائج بھی اپنی چشمِ بصیرت سے دیکھ رہا ہے، لیکن براہِ راست بات کر کے ذلیل بھی نہیں ہونا چاہتا سو وہ بالواسطہ طور پہ بیان کرتا ہے کہ اس زمانے میں عشق کرنے والے تارے توڑنے کی بجائے تیل ڈلوانے کے بہانے محبوب کو پھسلاتے ہیں۔ اللہ اکبر!
واضح رہے کہ گیت کی کلاسیکی روایت میں عورت عاشق ہوتی ہے۔ اس روایت کو زندہ کر کے بھی شاعر نے رجعت پسند مردوں کے منہ پر وہ طمانچہ رسید کیا ہے کہ الامان!
مگر کیا کیجیے کہ پرانے لوگ ابھی تک سعدیؔ کے اس شعر میں کھوئے ہوئے ہیں جس میں انھوں نے کہا ہے:
چناں قحط افتاد اندر دمشق---یعنی دمشق میں ایسا کال پڑا کہ لوگ عاشقی معشوقی وغیرہ بھول گئے۔ کس قدر بھونڈا مضمون ہے۔ ایک معاصر شاعر نے غالباً اسی لیے سوال کیا ہے کہ
کہ یاراں فراموش کردند عشق
میں اپنے پیٹ کا دوزخ بھروں کہ پیار کروں؟بات بھی ٹھیک ہے۔ ان قدامت پرستوں کو چاہیے کہ وہ آنکھیں کھولیں،دورِ حاضر کے بحرانوں پہ غور کریں اور گیت نگار کے فن کی داد دیں کہ کس طرح اس نے پیٹ جیسے قبیح اور غیرشاعرانہ مضمون سے دامن بچاتے ہوئے گاڑی اور تیل کے سفری الفاظ کے ذریعے اپنے عہد کی ترجمانی کی ہے۔ بقولِ غالبؔ:
تو اے کہ محوِ سخن گسترانِ پیشینی(اے تُو کہ پرانے سخنوروں میں کھویا ہوا ہے، غالبؔ کا منکر مت ہو جائیو جو تیرے زمانے میں ہے!)
مباش منکرِ غالبؔ کہ در زمانۂِ تست
ہم یہیں پہ بات ختم کر دینا چاہتے ہیں لیکن ہمیں خوف ہے کہ بعض کورسواد اب بھی معاصر گیتوں کی معنویت کا انکار کر کے اپنی حماقت کا ثبوت دینے سے باز نہیں آئیں گے۔ لہٰذا ہم ایک آخری مثال اور پیش کرتے ہیں اور امید رکھتے ہیں کہ اگر وہ دل میں ذرہ بھر بھی خوفِ الٰہی رکھتے ہیں تو فوراً اپنے موقف سے رجوع کر لیں گے۔
واہ کیا کہنے ۔سچ کہا کہ کانوں سے دھواں نکلنے لگتا ہےسر کم اور بے ہنگمی زیادہ ہے ۔۔۔اس مضمون کے اختتام پہ ہم اپنی بے بضاعتی کا اعتراف کرنا چاہتے ہیں۔ ہمارے زمانے کے گیتوں میں مثلاً شیلا کی جوانی اور منی کی بدنامی وغیرہ کو جو خراجِ تحسین پیش کیا گیا ہے اس پہ گفتگو کرنا شاید سب سے زیادہ ضروری تھا۔ مگر ہم اپنی لیاقت کی بابت ہرگز کسی خوش فہمی میں مبتلا نہیں۔ اس سے آگے ہمارے پر جلتے ہیں۔ بلکہ کانوں سے بھی دھواں نکلنے لگتا ہے!
ماخذ: دل دریا