ہر دم گلِ تازہ ہے سلامی سخن اپنا - میر مونس

حسان خان

لائبریرین
ہر دم گلِ تازہ ہے سلامی سخن اپنا
محفوظ ہے آسیبِ خزاں سے چمن اپنا

شہ وقتِ سفر دیکھ کے کہتے تھے بہ حسرت
اب ہم سے چھٹا تا بہ قیامت وطن اپنا

قاسم نے کہا خلعتِ شادی کو پہن کر
ہووے گا یہی بیاہ کا جوڑا کفن اپنا

شہ کہتے تھے صبر ایسا عطا کر مجھے یا رب
سر تیغ سے کٹ جائے تو تڑپے نہ تن اپنا

کٹوا دیا سر شاہ نے اللہ ری ہمت
جو منہ سے کہا تھا سو نباہا سخن اپنا

ماں کہتی تھی قاسم کی نہ جیتے رہے ورنہ
کٹواتے گلا بھائی سے پہلے حسن اپنا

شہ کہتے تھے سر کٹتے ہی لٹ جائے گی پوشاک
ہووے گی فقط گردِ بیاباں کفن اپنا

کہتے تھے دکھا ماریہ کو شہ رفقا سے
چھوڑ آئے ہم اس دشت کی خاطر وطن اپنا

زینب سے کہا رختِ کہن شہ نے پہن کر
پوشاک یہی اور یہی ہے کفن اپنا

میدان میں برچھی لگی اکبر کے تو دوڑے
ہاتھوں سے جگر تھام کے شاہِ زمن اپنا

(قطعہ)
کوفے میں ہر اک کہتا تھا سجاد سے رو رو
کچھ نام تو بتلا ہمیں اے بے وطن اپنا

کہتے تھے وہ تب کھینچ کے دل سے نفسِ سرد
کیا حال کہے تم سے یہ رنجور تن اپنا

ہیں فاطمہ دادی مری مخدومۂ عالم
دادا ہے علی سا شہِ خیبر شکن اپنا

شپیر کا بیٹا ہوں مجھے کہتے ہیں عابد
پر ان دنوں ہے نام اسیرِ رسن اپنا

جب کٹ گئے بازو ہوئے مجبور علمدار
کر جاتا تھا وار آ کے ہر اک تیغ زن اپنا

شپیر چُساتے تھے زباں پیاس میں اپنی
رکھ کر علی اصغر کے دہن پر دہن اپنا

بولا سرِ شہ دیکھ کے زینب کو کھلے سر
قسمت یہ تمہاری یہ مقدر بہن اپنا

عابد نے کہا دیکھیے کیونکر ہو رہائی
نہ طوق گلا چھوڑتا ہے نہ رسن اپنا

سر دیکھ کے کوفے میں سناں پر شہِ دیں کا
سب رو رو کے سر پیٹتے تھے مرد و زن اپنا

سر پیٹ کے کہتے تھے علی لاشِ پسر پر
پھر آج سے تازہ ہوا زخم کہن اپنا

قاسم چلے مرنے تو کہا شاہ نے رو رو
کیا داغ دیے جاتے ہو ابنِ حسن اپنا

امداد کریں تیری نہ کس طرح سے مونس
مداح سمجھتے ہیں تجھے پنجتن اپنا
(میر مونس)
 
Top