سیما علی
لائبریرین
ہر دن ماں کا دن ہے۔ماؤں کا عالمی دن پر آپ سب کی نذر !!!!!
یہ کامیابیاں عزت یہ نام تم سے ہے
اے مری ماں مرا سارا مقام تم سے ہے
جناب امجد اسلام امجد صاحب کی اپنی والدہ کے نام نظم آپ سب کی نذر !!!!
ماں کے عالمی دن پر تمام ماؤں کو مبارکبادماں صرف ایک مادی رشتے کا نام نہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو ان کے جانے سے یہ رشتہ ختم ہو جاتا۔ ماں نام ہے پیار، خیال، حفاظت اور بےلوث ہونے جیسے لافانی احساسات کا۔ تمام ماؤں کو سلام🙏🏻🙏🏻🙏🏻🙏🏻🙏🏻
وہ جو اک دعائے سکون تھی مرے رخت میں ، وہی کھو گئی
میں جدھر گیا میں جہاں رہا
مرے ساتھ تھا
وہی ایک سایہ مہرباں
وہ جو ایک پارہء ابر تھا سرِ آسماں
پس ہر گماں
وہ جو ایک حرفِ یقین تھا
مرے ہر سفر کا امین تھا
وہ جو ایک باغ ارم نما ، سبھی موسموں میں ہرا رہا
وہ اجڑ گیا
وہ جو اک دُعا کا چراغ سا ، مرے راستوں میں جلا رہا
وہ بکھر گیا
مرے غم کو جڑ سے اُکھاڑتا
وہ جو ایک لمسِ عزیز تھا
کسی کپکپاتے سے ہاتھ کا ، وہ نہیں رہا
وہ جو آنکھ رہتی تھی جاگتی ، مرے نام پر
وہی سو گئی
وہ جو اک دعائے سکون تھی میرے رخت میں ، وہی کھو گئی
اے خدُائےِ واحد و لم یزل
تیرے ایک حرف کے صید ہیں
یہ زماں مکاں
ترے فیصلوں کے حضور میں
نہ مجال ہے کسی عذر کی نہ کسی کو تابِ سوال ہے
یہ جو زندگی کی متاع ہے
تری دین ہے تیرا مال ہے
مجھے ہے تو اتنا ملال ہے
کہ جب اُسکی ساعتِ آخری سرِ راہ تھی
میں وہاں نہ تھا
مرے راستوں سے نکل گئی وہ جو ایک جائے پناہ تھی
میں وہاں نہ تھا
سرِ شامِ غم مجھے ڈھونڈتی میری ماں کی بجھتی نگاہ تھی
میں وہاں نہ تھا
مرے چار سو ہے دُھواں دُھواں
مرے خواب سے مری آنکھ تک
یہ جو سیلِ اشک ہے درمیاں
اُسی سیلِ اشک کے پار ہے
کہیں میری ماں
ترے رحم کی نہیں حد کوئی
ترے عفو کی نہیں انتہا
کہ تو ماں سے بڑھ کے شفیق ہے
وہ رفیق ہے
کہ جو ساتھ ہو تو یہ زندگی کی مسافتیں
یہ اذیتیں یہ رکاوٹیں
فقط اک نگاہ کی مار ہیں
یہ جو خار ہیں
ترے دست معجزہ ساز ہیں
گل خوش جمال بہار ہیں
مری التجا ہے تو بس یہی
مری زندگی کا جو وقت ہے
کٹے اُس کی اُجلی دعاؤں میں
تری بخشِشوں کے دِیار میں
مری ماں کی روحِ جمیل کو
سدا رکھنا اپنے جوار میں
سد ا پُر ِفضا وہ لحد رہے تیری لطفِ خاص کی چھاؤں میں
وہ جو ایک پارہء ابر تھا سرِ آسماں
پس ہر گماں
وہ جو ایک حرفِ یقین تھا
مرے ہر سفر کا امین تھا
وہ جو ایک باغ ارم نما ، سبھی موسموں میں ہرا رہا
وہ اجڑ گیا
وہ جو اک دُعا کا چراغ سا ، مرے راستوں میں جلا رہا
وہ بکھر گیا
مرے غم کو جڑ سے اُکھاڑتا
وہ جو ایک لمسِ عزیز تھا
کسی کپکپاتے سے ہاتھ کا ، وہ نہیں رہا
وہ جو آنکھ رہتی تھی جاگتی ، مرے نام پر
وہی سو گئی
وہ جو اک دعائے سکون تھی میرے رخت میں ، وہی کھو گئی
اے خدُائےِ واحد و لم یزل
تیرے ایک حرف کے صید ہیں
یہ زماں مکاں
ترے فیصلوں کے حضور میں
نہ مجال ہے کسی عذر کی نہ کسی کو تابِ سوال ہے
یہ جو زندگی کی متاع ہے
تری دین ہے تیرا مال ہے
مجھے ہے تو اتنا ملال ہے
کہ جب اُسکی ساعتِ آخری سرِ راہ تھی
میں وہاں نہ تھا
مرے راستوں سے نکل گئی وہ جو ایک جائے پناہ تھی
میں وہاں نہ تھا
سرِ شامِ غم مجھے ڈھونڈتی میری ماں کی بجھتی نگاہ تھی
میں وہاں نہ تھا
مرے چار سو ہے دُھواں دُھواں
مرے خواب سے مری آنکھ تک
یہ جو سیلِ اشک ہے درمیاں
اُسی سیلِ اشک کے پار ہے
کہیں میری ماں
ترے رحم کی نہیں حد کوئی
ترے عفو کی نہیں انتہا
کہ تو ماں سے بڑھ کے شفیق ہے
وہ رفیق ہے
کہ جو ساتھ ہو تو یہ زندگی کی مسافتیں
یہ اذیتیں یہ رکاوٹیں
فقط اک نگاہ کی مار ہیں
یہ جو خار ہیں
ترے دست معجزہ ساز ہیں
گل خوش جمال بہار ہیں
مری التجا ہے تو بس یہی
مری زندگی کا جو وقت ہے
کٹے اُس کی اُجلی دعاؤں میں
تری بخشِشوں کے دِیار میں
مری ماں کی روحِ جمیل کو
سدا رکھنا اپنے جوار میں
سد ا پُر ِفضا وہ لحد رہے تیری لطفِ خاص کی چھاؤں میں
(آمین )