سید ذیشان
محفلین
ہر دور میں مظلومیت کی داستاں لکھی گئی
تادیبِ جبر و سلطنت کے درمیاں لکھی گئی
لمحوں کی زنجیروں میں سطرِ جاوداں لکھی گئی
تشریحِ بے عنواں، زبانِ بے زباں لکھی گئی
جتنا شعارِ محتسب دشوار تر ہوتا گیا
اتنا ہی ذکرِ خونِ ناحق مشتہر ہوتا گیا
اشکوں سے طغیانی اٹھی، آہوں سے افسانے بنے
جلتے ہوئے حرفوں کے خاکستر سے پروانے بنے
ہر خاکِ خوں آلود سے تسبیح کے دانے بنے
ہر تشنگی سے ساقیِ کوثر کے میخانے بنے
تردید کی تکرار میں حق کی صدا بڑھتی گئی
جبر و تشدد میں نوائے بے نوا بڑھتی گئی
تیغوں کا جوہر جل گیا جھنکار باقی رہ گئی
سیلاب کا رخ مڑ گیا دیوار باقی رہ گئی
شامِ وفا دارانِ طوق و دار باقی رہ گئی
صبحِ اذانِ سیدِ ابرار باقی رہ گئی
سقراط کے ہونٹوں کو چھو کر زہرِ قاتل مر گیا
کیلوں کا چھوٹا پن صلیبوں کو نمایاں کر گیا
سو داستانوں کا سبب اجڑے ہوئے لوح و قلم
پتھر کی رگ رگ میں ہزاروں نا تراشیدہ صنم
اونچی فصیلیں، جست کرتے حوصلوں کے، قد سے کم
مہوش کے زینے پر فروزاں ماہِ تاباں سے قدم
فاتح کے چہرے پر حزیمت کے نشاں اترے ہوئے
مفتوح کے در پر زمین و آسماں اترے ہوئے
خونِ شہیداں کو خراج اہلِ حق ملتا رہا
لیکن شہادت سے تو ہے مظلومیت کی ابتدا
بعدِ امامِ لشکرِ تشنہ دہاں جو کچھ ہوا
کس سے کہوں، کیسے کہوں، اے کربلا، اے کربلا
گردِ لب و مژگاں نہیں کربِ حلیمِ دل ہے یہ
لوح و قلم کے عجز کی سب سے بڑی منزل ہے یہ
کیسے رقم ہو بے کسی، بے حرمتی کی داستاں
اک کنبہِ عالی نسب کی در بدر رسوائیاں
اک اشک جس کو کر گئی سیراب تیروں کی زباں
اک سبز پرچم جھک گیا جو خاک و خوں کے درمیاں
اک آہ جو سینے سے نکلی اور فضا میں کھو گئی
اک روشنی جو دن کی ڈھلتی ساعتوں میں کھو گئی
وہ اہلبیتِ ہاشمی ہر لمحہ جن پر بار تھا
وہ عترتِ اطہار جن کو ہر نفس آزار تھا
جس ہاتھ سے تھپڑ پڑے وہ ہاتھ اک کردار تھا
عارض سکینہ کے نہ تھے تاریخ کا رخسار تھا
حرفِ تپاں اسلام کا منشور بن کر رہ گیا
جو زخم تھا تہذیب کا ناسور بن کر رہ گیا
وہ شامِ خونِ بے وطن، وہ شام ملبوسِ کہن
شورش، تحیر، رستخیزی، جاں کنی،دیوانہ پن
تضحیک، نفرت، طنطنہ، تعریض، عیاری، جلن
الٹی قناتوں کا سماں، لٹتی رداؤں کا چلن
الٹی قناتوں میں رواں آتش یزیدی جاہ کی
لٹتی صفوں میں در بدر عترت رسول اللہ (ص) کی
وہ جرمنی کا آشویز (Auschwitz) جاپان کا ہیروشیما
ان کی بھیانک نزع کی آواز کو کس نے سنا؟
ان کے تو لاکھوں دوست تھے لیکن یہ خونی سانحہ
ان کے لئے علمی مباحث کے سوا کچھ بھی نہ تھا
اپنی ذہانت کے علاوہ سب سے پردہ پوش تھے
سب جیسپر، سب مارکاوو، سب سارتھر خاموش تھے
سارے جرائم سے بڑی ہے یہ مہذب خامشی
اس کے تو آگے ہیچ ہے قاتل کی زہریلی ہنسی
اس علم کے ساغر میں شامل ہے ہلاکت علم کی
اس سے زیادہ اور کیا سنگین ہو گی دوستی
تاریخ پوچھے گی کہ جب مہمان ویرانے میں تھے
کوفے کے سارے مرد کس گھر کے نہاں خانے میں تھے؟
اور یاد رکھنا اے میرے ہم عصر، اربابِ ذکا
ہم پر بھی گر طاری رہا ہے عالم سنہرے خواب کا
کل ہم بھی ہوں گے رو برو ہم سے بھی پوچھا جائے گا
سننا پڑے گا ہم سب ہی کو کربلا کا فیصلہ
قاتل تو شائد عفو کے قابل ہوں وہ مجبور تھے
ہم دوست ہو کر کیوں ضمیرِ ارتقا سے دور تھے؟
وہ دود نعرہ حیدری کی آلِ پیغمبر کی لاش
وہ آیتوں کی گود میں سوئے ہوئے اکبر کی لاش
وہ اک بریدہ بازووں والے علم پرور کی لاش
وہ دودھ پیتے لوریاں سنتے علی اصغر کی لاش
معصوم بچے وحشیوں کی جھڑکیاں کھائے ہوئے
عون و محمد چھوٹے چھوٹے ہاتھ پھیلائے ہوئے
ابرِ کرم، میساں قدم، کہسار قامت، آدمی
گلشن بہ کف، گوہر بہ لب، بارانِ رحمت، آدمی
لوحِ صداقت آدمی، مہرِ نبوت آدمی
دار الامارت کے ولی، درویش سیرت آدمی
وہ تشنہِ لب جو سمندر کا دہانہ پاٹ دیں
وہ موم جیسے دل جو تلواروں کا لوہا کاٹ دیں
اور اس کے بعد ایسی گھٹا ٹوپ آندھیوں کا قافلہ
تپتی ہوئی ریگِ رواں، جلتا ہوا دشتِ بلا
خونی چٹانیں، ناچتے شعلے، گرجتا زلزلہ
سفاک آنکھیں، سرخ تلواریں، کف آلودہ خلا
کالی فصیلیں، آتش و آہن کا منہ کھولے ہوئے
وحشی عناصر آبنوسی برچھیاں تولے ہوئے
تیزی سے چکر کاٹتی وحشت زدہ گونگی زمیں
جیسے کسی شے میں کوئی معنی کوئی مقصد نہیں
بے صوت لہجے، بے صدا آواز، بے ایقاں یقیں
حفظِ مراتب بے محافظ، حفظِ ایماں بے امیں
بادِ حوس کی زد میں شمعِ آبرو آئی ہوئی
ہر آستیں الٹی ہوئی، ہر آنکھ گہنائی ہوئی
سجاد سے زینب کا یہ کہنا کہ مولا جاگیے
غفلت سے آنکھیں کھولیے لٹتا ہے کنبہ جاگیے
اُٹھتے ہیں شعلے دیکھیے، جلتا ہے خیمہ جاگیے
اے باقیِ ذریتِ یٰس و طٰحہ جاگیے
سارے محافظ سو رہے ہیں اشقیا بیدار ہیں
طوق و سلاسل منتظر ہیں بیڑیاں تیار ہیں
سونی ہیں ساری بارگاہیں، نوحہ خواں ہیں چوکھٹیں
اجڑے ہوئے ہیں بام و در، ویراں پڑی ہیں مسندیں
مدھم ہوئیں، پھر بجھ گئیں ساری چراغوں کی لویں
ہم پر یکایک اجنبی سی ہو گئیں سب سرحدیں
ذروں کے دل بڑھتے گرجتے زلزلوں سے بھر گئے
چمڑے کے ٹکڑوں پر نمازیں پڑھنے والے مر گئے
تادیبِ جبر و سلطنت کے درمیاں لکھی گئی
لمحوں کی زنجیروں میں سطرِ جاوداں لکھی گئی
تشریحِ بے عنواں، زبانِ بے زباں لکھی گئی
جتنا شعارِ محتسب دشوار تر ہوتا گیا
اتنا ہی ذکرِ خونِ ناحق مشتہر ہوتا گیا
اشکوں سے طغیانی اٹھی، آہوں سے افسانے بنے
جلتے ہوئے حرفوں کے خاکستر سے پروانے بنے
ہر خاکِ خوں آلود سے تسبیح کے دانے بنے
ہر تشنگی سے ساقیِ کوثر کے میخانے بنے
تردید کی تکرار میں حق کی صدا بڑھتی گئی
جبر و تشدد میں نوائے بے نوا بڑھتی گئی
تیغوں کا جوہر جل گیا جھنکار باقی رہ گئی
سیلاب کا رخ مڑ گیا دیوار باقی رہ گئی
شامِ وفا دارانِ طوق و دار باقی رہ گئی
صبحِ اذانِ سیدِ ابرار باقی رہ گئی
سقراط کے ہونٹوں کو چھو کر زہرِ قاتل مر گیا
کیلوں کا چھوٹا پن صلیبوں کو نمایاں کر گیا
سو داستانوں کا سبب اجڑے ہوئے لوح و قلم
پتھر کی رگ رگ میں ہزاروں نا تراشیدہ صنم
اونچی فصیلیں، جست کرتے حوصلوں کے، قد سے کم
مہوش کے زینے پر فروزاں ماہِ تاباں سے قدم
فاتح کے چہرے پر حزیمت کے نشاں اترے ہوئے
مفتوح کے در پر زمین و آسماں اترے ہوئے
خونِ شہیداں کو خراج اہلِ حق ملتا رہا
لیکن شہادت سے تو ہے مظلومیت کی ابتدا
بعدِ امامِ لشکرِ تشنہ دہاں جو کچھ ہوا
کس سے کہوں، کیسے کہوں، اے کربلا، اے کربلا
گردِ لب و مژگاں نہیں کربِ حلیمِ دل ہے یہ
لوح و قلم کے عجز کی سب سے بڑی منزل ہے یہ
کیسے رقم ہو بے کسی، بے حرمتی کی داستاں
اک کنبہِ عالی نسب کی در بدر رسوائیاں
اک اشک جس کو کر گئی سیراب تیروں کی زباں
اک سبز پرچم جھک گیا جو خاک و خوں کے درمیاں
اک آہ جو سینے سے نکلی اور فضا میں کھو گئی
اک روشنی جو دن کی ڈھلتی ساعتوں میں کھو گئی
وہ اہلبیتِ ہاشمی ہر لمحہ جن پر بار تھا
وہ عترتِ اطہار جن کو ہر نفس آزار تھا
جس ہاتھ سے تھپڑ پڑے وہ ہاتھ اک کردار تھا
عارض سکینہ کے نہ تھے تاریخ کا رخسار تھا
حرفِ تپاں اسلام کا منشور بن کر رہ گیا
جو زخم تھا تہذیب کا ناسور بن کر رہ گیا
وہ شامِ خونِ بے وطن، وہ شام ملبوسِ کہن
شورش، تحیر، رستخیزی، جاں کنی،دیوانہ پن
تضحیک، نفرت، طنطنہ، تعریض، عیاری، جلن
الٹی قناتوں کا سماں، لٹتی رداؤں کا چلن
الٹی قناتوں میں رواں آتش یزیدی جاہ کی
لٹتی صفوں میں در بدر عترت رسول اللہ (ص) کی
وہ جرمنی کا آشویز (Auschwitz) جاپان کا ہیروشیما
ان کی بھیانک نزع کی آواز کو کس نے سنا؟
ان کے تو لاکھوں دوست تھے لیکن یہ خونی سانحہ
ان کے لئے علمی مباحث کے سوا کچھ بھی نہ تھا
اپنی ذہانت کے علاوہ سب سے پردہ پوش تھے
سب جیسپر، سب مارکاوو، سب سارتھر خاموش تھے
سارے جرائم سے بڑی ہے یہ مہذب خامشی
اس کے تو آگے ہیچ ہے قاتل کی زہریلی ہنسی
اس علم کے ساغر میں شامل ہے ہلاکت علم کی
اس سے زیادہ اور کیا سنگین ہو گی دوستی
تاریخ پوچھے گی کہ جب مہمان ویرانے میں تھے
کوفے کے سارے مرد کس گھر کے نہاں خانے میں تھے؟
اور یاد رکھنا اے میرے ہم عصر، اربابِ ذکا
ہم پر بھی گر طاری رہا ہے عالم سنہرے خواب کا
کل ہم بھی ہوں گے رو برو ہم سے بھی پوچھا جائے گا
سننا پڑے گا ہم سب ہی کو کربلا کا فیصلہ
قاتل تو شائد عفو کے قابل ہوں وہ مجبور تھے
ہم دوست ہو کر کیوں ضمیرِ ارتقا سے دور تھے؟
وہ دود نعرہ حیدری کی آلِ پیغمبر کی لاش
وہ آیتوں کی گود میں سوئے ہوئے اکبر کی لاش
وہ اک بریدہ بازووں والے علم پرور کی لاش
وہ دودھ پیتے لوریاں سنتے علی اصغر کی لاش
معصوم بچے وحشیوں کی جھڑکیاں کھائے ہوئے
عون و محمد چھوٹے چھوٹے ہاتھ پھیلائے ہوئے
ابرِ کرم، میساں قدم، کہسار قامت، آدمی
گلشن بہ کف، گوہر بہ لب، بارانِ رحمت، آدمی
لوحِ صداقت آدمی، مہرِ نبوت آدمی
دار الامارت کے ولی، درویش سیرت آدمی
وہ تشنہِ لب جو سمندر کا دہانہ پاٹ دیں
وہ موم جیسے دل جو تلواروں کا لوہا کاٹ دیں
اور اس کے بعد ایسی گھٹا ٹوپ آندھیوں کا قافلہ
تپتی ہوئی ریگِ رواں، جلتا ہوا دشتِ بلا
خونی چٹانیں، ناچتے شعلے، گرجتا زلزلہ
سفاک آنکھیں، سرخ تلواریں، کف آلودہ خلا
کالی فصیلیں، آتش و آہن کا منہ کھولے ہوئے
وحشی عناصر آبنوسی برچھیاں تولے ہوئے
تیزی سے چکر کاٹتی وحشت زدہ گونگی زمیں
جیسے کسی شے میں کوئی معنی کوئی مقصد نہیں
بے صوت لہجے، بے صدا آواز، بے ایقاں یقیں
حفظِ مراتب بے محافظ، حفظِ ایماں بے امیں
بادِ حوس کی زد میں شمعِ آبرو آئی ہوئی
ہر آستیں الٹی ہوئی، ہر آنکھ گہنائی ہوئی
سجاد سے زینب کا یہ کہنا کہ مولا جاگیے
غفلت سے آنکھیں کھولیے لٹتا ہے کنبہ جاگیے
اُٹھتے ہیں شعلے دیکھیے، جلتا ہے خیمہ جاگیے
اے باقیِ ذریتِ یٰس و طٰحہ جاگیے
سارے محافظ سو رہے ہیں اشقیا بیدار ہیں
طوق و سلاسل منتظر ہیں بیڑیاں تیار ہیں
سونی ہیں ساری بارگاہیں، نوحہ خواں ہیں چوکھٹیں
اجڑے ہوئے ہیں بام و در، ویراں پڑی ہیں مسندیں
مدھم ہوئیں، پھر بجھ گئیں ساری چراغوں کی لویں
ہم پر یکایک اجنبی سی ہو گئیں سب سرحدیں
ذروں کے دل بڑھتے گرجتے زلزلوں سے بھر گئے
چمڑے کے ٹکڑوں پر نمازیں پڑھنے والے مر گئے
آخری تدوین: