کاشفی
محفلین
غزل
(ساغر صدیقی)
ہر شے ہے پر ملال بڑی تیز دھوپ ہے
ہر لب پہ ہے سوال بڑی تیز دھوپ ہے
چکرا کے گر نہ جاؤں میں اس تیز دھوپ میں
مجھ کو ذرا سنبھال بڑی تیز دھوپ ہے
دے حکم بادلوں کو خیاباں نشیں ہوں میں
جام و سبو اچھال بڑی تیز دھوپ ہے
ممکن ہے ابر رحمت یزداں برس پڑے
زلفوں کی چھاؤں ڈال بڑی تیز دھوپ ہے
اب شہر آرزو میں وہ رعنائیاں کہاں
ہیں گل گدے نڈھال بڑی تیز دھوپ ہے
سمجھی ہے جسے سایہء امید عقل خام!
ساغر کا ہے خیال بڑی تیز دھوپ ہے
(ساغر صدیقی)
ہر شے ہے پر ملال بڑی تیز دھوپ ہے
ہر لب پہ ہے سوال بڑی تیز دھوپ ہے
چکرا کے گر نہ جاؤں میں اس تیز دھوپ میں
مجھ کو ذرا سنبھال بڑی تیز دھوپ ہے
دے حکم بادلوں کو خیاباں نشیں ہوں میں
جام و سبو اچھال بڑی تیز دھوپ ہے
ممکن ہے ابر رحمت یزداں برس پڑے
زلفوں کی چھاؤں ڈال بڑی تیز دھوپ ہے
اب شہر آرزو میں وہ رعنائیاں کہاں
ہیں گل گدے نڈھال بڑی تیز دھوپ ہے
سمجھی ہے جسے سایہء امید عقل خام!
ساغر کا ہے خیال بڑی تیز دھوپ ہے