ہر طرف خوف کے آثار نظر آتے ہیں

ایم اے راجا

محفلین
دو غزلہ۔ غزل نمبر1۔

ہر طرف خوف کے آثار نظر آتے ہیں
بس شکستہ در و دیوار نظر آتے ہیں

بے یقینی کی ہوا ایسی چلی ہے ، توبہ
سبکے اڑتے ہوئے کردار نظر آتے ہیں

جنهیں سکهلائے تهے آداب۔ تکلم میں نے
دوست وہ مجهسے بهی ہشیار نظر آتے ہیں

کیا خبر آج کی برسات ستم کیا ڈهائے ؟
ڈر سے سمٹے ہوئے بازار نظر آتے ہیں

درد ہیں عام ، دوا ہو گئی نایاب یہاں !
شہر کے شہر ہی بیمار نظر آتے ہیں

جنکو سینچا تها کبهی خون۔ جگردے دیکر
پیڑ اب وہ مجهے بیکار نظر آتے ہیں

پیٹ بهرتا ہی نہیں آج کسی کا صاحب !
لوگ کها کر بهی طلبگار نظر آتے ہیں

دیکهکر بهوک مری پهیر گئے منہ سارے
دور تک بهی کہاں دلدار نظر آتے ہیں

ہر کسی کو ہیں شفاعت کی امیدیں راجا
ملک کے ملک ! گنہگار نظر آتے ہیں
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
ارے یہ کیسے رہ گئی؟ لیکن دو غزلہ کی دوسری غزل ابھی نہیں کہی؟
یہ تو بہت کمزور لگ رہی ہے۔ اب اس کا پوسٹ مارٹم

ہر طرف خوف کے آثار نظر آتے ہیں
بس شکستہ در و دیوار نظر آتے ہیں
÷÷دو لخت ہے۔ خوف کے آثار تو در و دیوار کی شکستگی سے ظاہر نہیں ہوتے۔ یہ تو ماضی کی ٹوٹ پھوٹ، ظلم و استبداد کی نشان دہی کرتے ہیں۔

بے یقینی کی ہوا ایسی چلی ہے ، توبہ
سبکے اڑتے ہوئے کردار نظر آتے ہیں
۔۔اڑتے ہوئے کردار؟

جنهیں سکهلائے تهے آداب۔ تکلم میں نے
دوست وہ مجهسے بهی ہشیار نظر آتے ہیں
۔۔آدابِ تکلم؟ اس کا بھی ہشیاری سے تعلق کم ہی نظر آتا ہے

کیا خبر آج کی برسات ستم کیا ڈهائے ؟
ڈر سے سمٹے ہوئے بازار نظر آتے ہیں
۔۔بازار کا ڈرنا؟ یہ بھی عجیب ہے۔

درد ہیں عام ، دوا ہو گئی نایاب یہاں !
شہر کے شہر ہی بیمار نظر آتے ہیں
شہر کا شہر کا بیمار ہونا تو قبول کیا جا سکتا ہے لیکن جمع میں؟ خاص کر جب دوا بھی واحد ہے تو یوں بہتر ہوتا
درد ہے عام، دوا ۔۔۔۔۔۔
شہر کا شہر ہی بیمار نظر آتا ہے
لیکن اس ردیف و زمین میں پسند نہیں آ رہا مجھے۔


جنکو سینچا تها کبهی خون۔ جگردے دیکر
پیڑ اب وہ مجهے بیکار نظر آتے ہیں
÷÷پیڑ وں کا بیکار ہونا؟

پیٹ بهرتا ہی نہیں آج کسی کا صاحب !
لوگ کها کر بهی طلبگار نظر آتے ہیں
۔۔درست

دیکهکر بهوک مری پهیر گئے منہ سارے
دور تک بهی کہاں دلدار نظر آتے ہیں
۔۔بھوک ہی کیوں؟
’بھی کہاں‘ غلط لگ رہا ہے، دلداروں کا قافیہ بھی محض برائے قافیہ لگ رہا ہے۔

ہر کسی کو ہیں شفاعت کی امیدیں راجا
ملک کے ملک ! گنہگار نظر آتے ہیں
۔۔ملک گنہگار نہیں، لوگ ہوتے ہیں۔ ’سارے انسان‘ کہا جا سکتا ہے۔
 
بے یقینی کی ہوا ایسی چلی ہے ، توبہ
سبکے اڑتے ہوئے کردار نظر آتے ہیں
بہت خوب راجا صاحب، زبر دست۔ جناب ساغر مرحوم کی یاد تازہ کر دی۔"یہ جو دیوانے سے دو چار نظر آتے ہیں"
 

ایم اے راجا

محفلین
استاد محترم الف عین صاحب حاضر ہے غزل دوئم برائے آپریشن۔

سب محبت کے خریدار نظر آتے ہیں
بے وفا آج وفا دار نظر آتے ہیں !

جو خطاوار تهے بچ نکلے عدالت سے تری
بے خطا سارے سر_ دار نظر آتے ہیں

جنکو دعوی تها کہ ہم تیرے ہیں بس تیرے ہیں
وقت آیا ہے تو انکار نظر آتے ہیں

میں کہ حاکم بهی ہوں محکوم بهی اس بستی میں
رخ مرے دو یہاں یکبار نظر آتے ہیں

چاہیئے تو تها ہمیں ہونا مگر کیا کیجے
غیر ، فردوس کے حقدار نظر آتے ہیں

پست کردار انهیں میں نے عموما پایا
جو بڑے صاحب_ کردار نظر آتے ہیں

مجهکو حیرت ہے نئے دور کے ان بچوں پر
جو بڑوں سے بهی سمجهدار نظر آتے ہیں

ہوش رہتا ہے کہاں انکو کسی چیز کا پهر
جنهیں لٹتے ہوئے گهر بار نظر آتے ہیں

ہیں بجا تیرے دلائل سبهی، لیکن راجا
لوگ کب تیرے طرفدار نظر آتے ہیں
 

الف عین

لائبریرین
یہ انڈر سکور کو بطور زیر استعمال کرنے والے مجھے بیکار نظر آتے ہیں!!!
اصلاح کے لئے مختصر یہ کہ کوئی خامی بھی نہیں، اور کوئی خوبی بھی نہیں۔ اوسط غزل ہے، اسے مشق کے لئے رکھ لو۔
 

ایم اے راجا

محفلین
یہ انڈر سکور کو بطور زیر استعمال کرنے والے مجھے بیکار نظر آتے ہیں!!!
اصلاح کے لئے مختصر یہ کہ کوئی خامی بھی نہیں، اور کوئی خوبی بھی نہیں۔ اوسط غزل ہے، اسے مشق کے لئے رکھ لو۔
سر دراصل میں محفل کو موبائیل فون پر استعمال کرتا ہوں اور اس کیپیڈ میں زیر نہیں سو مجبورا انڈر اسکور سے مدد لیتا ہوں۔
 
Top