ہر منزل پر ایک نیا دریا ملتا ہے :( ثمینہ راجہ)

سارہ خان

محفلین
ہر منزل پر ایک نیا دریا ملتا ہے
کون بھلا اس عالم میں پیاسا ملتا ہے

خوشبو دھوم مچا دیتی ہے پہلے آ کر
پھر گلشن میں جشنِ بہار بپا ملتا ہے

شہر کے سارے لوگ ہیں اپنی ذات کے قیدی
دیواروں میں کب کوئی در وا ملتا ہے

سوکھ رہا ہے دھوپ میں ایک اکیلا منظر
باغ کو غور سے دیکھو تو صحرا ملتا ہے

یوں ہوتا ہے تنہائی کے سخت سفر میں
پیچھے اک آہٹ، آگے سا یا ملتا ہے

خوابِ محبت مانگنے والی ان آنکھوں کو
کس کے حکم سے داغِ غمِ دنیا ملتا ہے

تجھ سے آگے ہم نے کبھی دیکھا ہی نہیں تھا
ورنہ تو ہر موڑ پر اک چہرہ ملتا ہے

کوئی خوشی آدھی ملتی ہے کوئی ادھوری
اور جو رنج ہو وہ پورا پورا ملتا ہے

کیسے گھنے جنگل سے گزرتی ہیں یہ نیندیں
کس مشکل سے خوابوں کو رستہ ملتا ہے

تم نے دیکھا ہو گا دنیا دار نظر سے
ہم کو اپنے دل میں شہرِ وفا ملتا ہے

کیسا ستم ہے ساری عمر کا حاصل یونہی
ماضی کے اک طاقچے پر رکھا ملتا ہے

ایسے لپک کر دل ملتا ہے اُس کے غم سے
جیسے کوئی عمروں کا بچھڑا ملتا ہے

ٹوٹنے والا اک وعدہ جب واپس دوں تو
ٹوٹنے والا ایک نیا وعدہ ملتا ہے

غیر بھلے ہیں جن سے کوئی امّید نہ رکھیے
ورنہ اپنوں سے بھی کسی کو کیا ملتا ہے

جس پر دشواری کے ڈر سے چلتے نہیں ہیں
پھر وہی راستہ پاؤں سے لپٹا ملتا ہے

ڈوبنے والے جب واپس آنے کا سوچیں
ساگر بھی ساگر ہی میں ڈوبا ملتا ہے

حبس تلک بڑھتی ہے شجر کے تن کی خواہش
پھر کہیں جا کر موجۂ بادِ صبا ملتا ہے

ہم تو اُسی پتھر سے لپٹ کر سو جاتے ہیں
جس کے پاس اک خواب کا پھول کھلا ملتا ہے

تم کو کسی سے کیا، تم تو منزل والے ہو
راہ میں گر کوئی بھُولا بھٹکا ملتا ہے

رات کو جس بوچھاڑ سے ڈر کر تم نہیں آتے
دن بھی اُسی بارش میں مجھے بھیگا ملتا ہے

تن پر اس کی روشنی آنکھوں میں اس کی لَو
یہ جو دل کے اندر اک شعلہ ملتا ہے

دور زمیں سے ایک نئی منزل کا بلاوا
دور افق پر کوئی ستارہ سا ملتا ہے

میں تو اندھیرے میں کھو جاتی سایا بن کر
سامنے تیرے غم کا دِ یا جلتا ملتا ہے

دل کو بھی ہلکی سی کسک مل جائے جیسے
لمسِ ہوا سے گُل کو چاکِ قبا ملتا ہے

دھوپ کی صورت کوئی اُتر آتا ہے زمیں پر
اُس کے بعد یہ تن کندن جیسا ملتا ہے

ہم ناداں ہر روز نئی امید لگائیں
اور اُدھر سے روز نیا دھوکا ملتا ہے

باغِ عدن سے باغِ جہاں تک آتے آتے
ایک عجب حیرانی کا قریہ ملتا ہے

پہلے ہم دنیا سے ہاتھ چھُڑا لیتے ہیں
پھر دروازۂ شہرِ کمال کھُلا ملتا ہے
 
ہر منزل پر ایک نیا دریا ملتا ہے
کون بھلا اس عالم میں پیاسا ملتا ہے

خوشبو دھوم مچا دیتی ہے پہلے آ کر
پھر گلشن میں جشنِ بہار بپا ملتا ہے

شہر کے سارے لوگ ہیں اپنی ذات کے قیدی
دیواروں میں کب کوئی در وا ملتا ہے

سوکھ رہا ہے دھوپ میں ایک اکیلا منظر
باغ کو غور سے دیکھو تو صحرا ملتا ہے

یوں ہوتا ہے تنہائی کے سخت سفر میں
پیچھے اک آہٹ، آگے سا یا ملتا ہے

خوابِ محبت مانگنے والی ان آنکھوں کو
کس کے حکم سے داغِ غمِ دنیا ملتا ہے

تجھ سے آگے ہم نے کبھی دیکھا ہی نہیں تھا
ورنہ تو ہر موڑ پر اک چہرہ ملتا ہے

کوئی خوشی آدھی ملتی ہے کوئی ادھوری
اور جو رنج ہو وہ پورا پورا ملتا ہے

کیسے گھنے جنگل سے گزرتی ہیں یہ نیندیں
کس مشکل سے خوابوں کو رستہ ملتا ہے

تم نے دیکھا ہو گا دنیا دار نظر سے
ہم کو اپنے دل میں شہرِ وفا ملتا ہے

کیسا ستم ہے ساری عمر کا حاصل یونہی
ماضی کے اک طاقچے پر رکھا ملتا ہے

ایسے لپک کر دل ملتا ہے اُس کے غم سے
جیسے کوئی عمروں کا بچھڑا ملتا ہے

ٹوٹنے والا اک وعدہ جب واپس دوں تو
ٹوٹنے والا ایک نیا وعدہ ملتا ہے

غیر بھلے ہیں جن سے کوئی امّید نہ رکھیے
ورنہ اپنوں سے بھی کسی کو کیا ملتا ہے

جس پر دشواری کے ڈر سے چلتے نہیں ہیں
پھر وہی راستہ پاؤں سے لپٹا ملتا ہے

ڈوبنے والے جب واپس آنے کا سوچیں
ساگر بھی ساگر ہی میں ڈوبا ملتا ہے

حبس تلک بڑھتی ہے شجر کے تن کی خواہش
پھر کہیں جا کر موجۂ بادِ صبا ملتا ہے

ہم تو اُسی پتھر سے لپٹ کر سو جاتے ہیں
جس کے پاس اک خواب کا پھول کھلا ملتا ہے

تم کو کسی سے کیا، تم تو منزل والے ہو
راہ میں گر کوئی بھُولا بھٹکا ملتا ہے

رات کو جس بوچھاڑ سے ڈر کر تم نہیں آتے
دن بھی اُسی بارش میں مجھے بھیگا ملتا ہے

تن پر اس کی روشنی آنکھوں میں اس کی لَو
یہ جو دل کے اندر اک شعلہ ملتا ہے

دور زمیں سے ایک نئی منزل کا بلاوا
دور افق پر کوئی ستارہ سا ملتا ہے

میں تو اندھیرے میں کھو جاتی سایا بن کر
سامنے تیرے غم کا دِ یا جلتا ملتا ہے

دل کو بھی ہلکی سی کسک مل جائے جیسے
لمسِ ہوا سے گُل کو چاکِ قبا ملتا ہے

دھوپ کی صورت کوئی اُتر آتا ہے زمیں پر
اُس کے بعد یہ تن کندن جیسا ملتا ہے

ہم ناداں ہر روز نئی امید لگائیں
اور اُدھر سے روز نیا دھوکا ملتا ہے

باغِ عدن سے باغِ جہاں تک آتے آتے
ایک عجب حیرانی کا قریہ ملتا ہے

پہلے ہم دنیا سے ہاتھ چھُڑا لیتے ہیں
پھر دروازۂ شہرِ کمال کھُلا ملتا ہے
بهت خوب
 
Top