ہر نئی موت پر ہی ڈر جائیں ۔ رفیق اظہر

فرخ منظور

لائبریرین
ہر نئی موت پر ہی ڈر جائیں
کیوں نہ سب ایک بار مر جائیں

رفتنی ہیں یہاں کے لوگ تمام
رفتہ رفتہ گزر گزر جائیں

مانگتے ہیں کوئی خلا خالی
تا یہ وحشی بکھر بکھر جائیں

مانگ لیتا ہوں پھر کوئی صحرا
جب یہ دیدے لہو سے بھر جائیں

غم ترے ہیں چمکتے سیّارے
جن دلوں پر بھی یہ اتر جائیں

تو ہی کہہ تیرِ نیم کش کے ترے
اب یہ زخمی ہرن کدھر جائیں

دفن تو تعزیہ ہو کب کا
اب عزادار اپنے گھر جائیں

(رفیق اظہر)
 

مغزل

محفلین
ہر نئی موت پر ہی ڈر جائیں
کیوں نہ سب ایک بار مر جائیں

آہا ۔۔ واہ واہ ۔ کیا بات ہے

رفتنی ہیں یہاں کے لوگ تمام
رفتہ رفتہ گزر گزر جائیں

مصرع اولیٰ پر ’’ بے شک ‘‘ اور ثانی میں ’’گزر گزر ‘‘ محلِ نظر ہے

مانگتے ہیں کوئی خلا خالی
تا یہ وحشی بکھر بکھر جائیں

تلازمہ درست نہیں جناب ، اسالیبِ شعری میں وحشت کا تلازمہ دشت و بیاباں ہے ،، خلا نہیں،

مانگ لیتا ہوں پھر کوئی صحرا
جب یہ دیدے لہو سے بھر جائیں

’’ دیدے ‘‘ ۔۔ اردو کا لفظ نہیں ۔۔ پنجابی میں اور دیگر بولیوں میں کہا جاتا ہے اور وہ بھی طنزاً ۔۔
مصرعے بے ربط و بے جوڑ ۔۔ محض غزل کا پیٹ بھرا ہے ۔


غم ترے ہیں چمکتے سیّارے
جن دلوں پر بھی یہ اتر جائیں

غم۔۔ چمکتے ستارے تو کہا گیا ہے ، سیّارے بھی خوشگوار تجربہ ہے ۔ واہ واہ ۔
لیکن شعریت عنقا ہے ، کہ یہ محض بیان ہے ،


تو ہی کہہ تیرِ نیم کش کے ترے
اب یہ زخمی ہرن کدھر جائیں

واہ واہ واہ ۔۔ کیا غزل کاشعرکہا ہے واہ ۔ سبحان اللہ

دفن تو تعزیہ ہو کب کا ------------ ( ہُوا ، ہوگا صاحب)
اب عزادار اپنے گھر جائیں

قبلہ ، تعزیہ ٹھنڈا کیا جاتا ہے ، دفن نہیں ، میری ناقص معلومات میں اضافہ فرماکر شکریہ کا موقع دیجے

سخنور صاحب ، بہت بہت شکریہ ، پیش کرنے کو ، سدا سلامت شاد باد
 
Top