مہ جبین
محفلین
ہر نبی شاہدِ خدا نہ ہوا
آپ سا کوئی دوسرا نہ ہوا
کرمِ شہرِ علم سے پہلے
نعت کہنے کا حوصلہ نہ ہوا
دل رہا ہر قدم پہ سر بسجود
میں مدینے کو جب روانہ ہوا
لاکھ پلکوں سے خاکِ طیبہ چنی
" حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا"
فرشِ خاکی سے عرشِ نوری تک
کس جگہ ذکرِ مصطفےٰ نہ ہوا
آپ کی یاد کے سوا کوئی
کشتیء جاں کا ناخدا نہ ہوا
دل کہ تھا ایک بے نوائے ازل
آپ کے لطف کا خزانہ ہوا
آپ کا در نہ وا ہوا جس پر
کوئی دروازہ اس پہ وا نہ ہوا
جالیوں ہی کو چوم لیں گے ایاز
گر کرم باِلمشافِہہَ نہ ہوا
ایاز صدیقی