قرۃالعین اعوان
لائبریرین
ہر پل دھیان میں بسنے والے، لوگ فسانے ہوجاتے ہیں
آنکھیں بوڑھی ہوجاتی ہیں،خواب پرانے ہوجاتے ہیں
ساری بات تعلق والی،جذبوں کی سچائی تک ہے
میل دلوں میں آجائے تو ،گھر ویرانے ہوجاتے ہیں
منظر منظر کھل اٹھتی ہے ،پیراہن کی قوسِ قزاح
موسم تیرے ہنس پڑنے سے اور سہانے ہوجاتے ہیں
جھونپڑیوں میں ہر اک تلخی پیدا ہوتے مل جاتی ہے
اس لیئے تو وقت سے پہلے طفل سیانے ہوجاتے ہیں
موسمِ عشق کی آہٹ سے ہی ہر اک چیز بدل جاتی ہے
راتیں پاگل کردیتی ہیں،دن دیوانے ہوجاتے ہیں
دنیا کے اس شور نے امجد کیا کیا ہم سے چھین لیا ہے
خود سے بات کیئے بھی اب تو کئی زمانے ہوجاتے ہیں