ایم اسلم اوڈ
محفلین
بھارت میں مہنگائی اور غذائی اشیاء کی کمی کے سبب لوگوں کی ایک بڑی تعداد پیٹ بھر کھانا نہیں کھا پاتی ہے
ہندوستان تیزی سے دنیا کے 'ہنگر کیپیٹل' کے طور پر ابھر رہا ہے اور ملک میں ہر چار میں سے ایک شخص کو دو وقت کی روٹی بھی میسر نہیں ہے۔
یہ بات خوارک کے شعبے میں کام کرنے والے غیر سرکاری ادارے نودانیا ٹرسٹ نےاپنی رپورٹ میں کہی ہے۔
ادارے سے وابستہ وندنا شیوا کے مطابق حالات اس قدر خراب ہیں کہ پانچ کروڑ ستر لاکھ بچے مناسب غذا نہ مل پانے کی وجہ سے کمزوری کا شکار ہیں یعنی ان کا وزن اتنا نہیں جتنا کہ ایک صحت مند بچے کا ہونا چاہیے۔ یہ تعداد دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔
ہندوستان میں حکومت خوراک کے شعبے میں بتیس ہزار کروڑ روپے سے زیادہ کی مالی اعانت دیتی ہے لیکن اس کے باوجود ملک میں اجناس کا فی کس سالانہ استعمال انیس سو اکیانوے میں ایک سو باون کلو سے گھٹ کر صرف ایک سو باون کلو رہ گیا ہے۔
وندنا شیوا کے مطابق ''یہ بھوک تب سے بڑھی ہے جب سے ہندوستان نے نئی اقتصادی پالیسیاں اختیار کی ہیں۔ زراعت کی حوصلہ شکنی کی جارہی ہے اور غریبوں کے لیے اجناس کی تقسیم کا نظام تباہ کر دیا گیا ہے۔ اس سب سے ایک سنگین بحران پیدا ہوگیا ہے۔''
'ہر چوتھا ہندوستانی بھوکا کیوں ہے؟' کے عنوان سے جاری اس رپورٹ میں کہا گیا ہےکہ دنیا بھر میں تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ جو لوگ اجناس پیدا کرتے ہیں وہ خود ہی بھوکے رہ جاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ رپورٹ زراعت و خوارک سے متعلق اقوام متحدہ کے ادارے ایف اے او کے فراہم کردہ اعداد و شمار کی بنیاد پر تیار کی گئی ہے۔ 'لیکن یہ اعداد و شمار گزشتہ برس اس وقت جمع کیے گیے تھے جب اجناس کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ شروع نہیں ہوا تھا۔'
'لیکن قیمتوں میں اضافے کے بعد حالات اور خراب ہوئے ہیں۔ جو پہلے دو روٹی کھا رہا تھا وہ اب ایک کھا رہا ہے۔ ہمارا تخمینہ تو بہت محتاط ہے۔ سپریم کورٹ کے فوڈ کمشنر کے مطابق ملک کی آدھی آبادی غریب ہے۔ اور غریبی کا پیمانہ ہندوستان میں یہ ہے کہ پوری خوارک مل رہی ہے یا نہیں۔ لہذا اس اعتبار سے ہر دوسرا ہندوستانی بھوکا ہے۔'
وندنا کے مطابق اجناس کی پیداور کا طریقہ بدل کر ہی اس مسئلہ سے نمٹا جاسکتا ہے۔' نقد فصلوں کے بجائے ہمیں کھانے(دالیں وغیرہ) کی پیداوار پر توجہ دینی ہوگی۔'
ہندوستان میں حکومت آجکل فوڈ سکیورٹی بل کو حتمی شکل دے رہی ہے۔ اس کے تحت خط افلاس سے نیچے زندگی گزارنے والے ہرکنبے کو تین روپے کلو کے حساب سے پچیس کلو چاول یا گیہوں ہر مہینے فراہم کرنے کی تجویز ہے لیکن اس کے اطلاق کی راہ میں ابھی بہت سے دشواریاں حائل ہیں۔
http://www.bbc.co.uk/urdu/india/2009/07/090731_food_hunger_sz.shtml
ہندوستان تیزی سے دنیا کے 'ہنگر کیپیٹل' کے طور پر ابھر رہا ہے اور ملک میں ہر چار میں سے ایک شخص کو دو وقت کی روٹی بھی میسر نہیں ہے۔
یہ بات خوارک کے شعبے میں کام کرنے والے غیر سرکاری ادارے نودانیا ٹرسٹ نےاپنی رپورٹ میں کہی ہے۔
ادارے سے وابستہ وندنا شیوا کے مطابق حالات اس قدر خراب ہیں کہ پانچ کروڑ ستر لاکھ بچے مناسب غذا نہ مل پانے کی وجہ سے کمزوری کا شکار ہیں یعنی ان کا وزن اتنا نہیں جتنا کہ ایک صحت مند بچے کا ہونا چاہیے۔ یہ تعداد دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔
ہندوستان میں حکومت خوراک کے شعبے میں بتیس ہزار کروڑ روپے سے زیادہ کی مالی اعانت دیتی ہے لیکن اس کے باوجود ملک میں اجناس کا فی کس سالانہ استعمال انیس سو اکیانوے میں ایک سو باون کلو سے گھٹ کر صرف ایک سو باون کلو رہ گیا ہے۔
وندنا شیوا کے مطابق ''یہ بھوک تب سے بڑھی ہے جب سے ہندوستان نے نئی اقتصادی پالیسیاں اختیار کی ہیں۔ زراعت کی حوصلہ شکنی کی جارہی ہے اور غریبوں کے لیے اجناس کی تقسیم کا نظام تباہ کر دیا گیا ہے۔ اس سب سے ایک سنگین بحران پیدا ہوگیا ہے۔''
'ہر چوتھا ہندوستانی بھوکا کیوں ہے؟' کے عنوان سے جاری اس رپورٹ میں کہا گیا ہےکہ دنیا بھر میں تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ جو لوگ اجناس پیدا کرتے ہیں وہ خود ہی بھوکے رہ جاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ رپورٹ زراعت و خوارک سے متعلق اقوام متحدہ کے ادارے ایف اے او کے فراہم کردہ اعداد و شمار کی بنیاد پر تیار کی گئی ہے۔ 'لیکن یہ اعداد و شمار گزشتہ برس اس وقت جمع کیے گیے تھے جب اجناس کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ شروع نہیں ہوا تھا۔'
'لیکن قیمتوں میں اضافے کے بعد حالات اور خراب ہوئے ہیں۔ جو پہلے دو روٹی کھا رہا تھا وہ اب ایک کھا رہا ہے۔ ہمارا تخمینہ تو بہت محتاط ہے۔ سپریم کورٹ کے فوڈ کمشنر کے مطابق ملک کی آدھی آبادی غریب ہے۔ اور غریبی کا پیمانہ ہندوستان میں یہ ہے کہ پوری خوارک مل رہی ہے یا نہیں۔ لہذا اس اعتبار سے ہر دوسرا ہندوستانی بھوکا ہے۔'
وندنا کے مطابق اجناس کی پیداور کا طریقہ بدل کر ہی اس مسئلہ سے نمٹا جاسکتا ہے۔' نقد فصلوں کے بجائے ہمیں کھانے(دالیں وغیرہ) کی پیداوار پر توجہ دینی ہوگی۔'
ہندوستان میں حکومت آجکل فوڈ سکیورٹی بل کو حتمی شکل دے رہی ہے۔ اس کے تحت خط افلاس سے نیچے زندگی گزارنے والے ہرکنبے کو تین روپے کلو کے حساب سے پچیس کلو چاول یا گیہوں ہر مہینے فراہم کرنے کی تجویز ہے لیکن اس کے اطلاق کی راہ میں ابھی بہت سے دشواریاں حائل ہیں۔
http://www.bbc.co.uk/urdu/india/2009/07/090731_food_hunger_sz.shtml