منصور مکرم
محفلین
پہلے تصحیح ہوجائے یا
ابھی سے تبصرہ کرلیں
ابھی سے تبصرہ کرلیں
کیوں نہیں جنابپہلے تصحیح ہوجائے یا
ابھی سے تبصرہ کرلیں
گویا درستگی کا سرٹیفیکیٹ مل گیا۔کیوں نہیں جناب
جیہ کی تصدیق کے بعد کسی تصدیق کی ضرورت نہیں رہ جاتی
(مدون شدہ )توبہ ہے۔ آپ نے تو کٹی ہوئی تصویر کے کندھے پر بندوق رکھ کر چلا دی
یہ تو جیہ سے پوچھنا پڑے گاگویا درستگی کا سرٹیفیکیٹ مل گیا۔
پوچھ لیجئے ۔۔۔ درے وال تو نہیں
وہ بھی کٹا ہوا، ریڈی میڈکندھا تو پھر بھی بوجھ سنبھال سکتا ہے۔
تشکّر، سید شہزاد ناصر صاحب!ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے
ڈرے کیوں میرا قاتل؟ کیا رہے گا اُس کی گردن پر
وہ خوں، جو چشم تر سے عمر بھر یوں دم بہ دم نکلے؟
نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے ہیں لیکن
بہت بے آبرُو ہو کر ترے کوچے سے ہم نکلے
بھرم کھل جائے ظالم تیرے قامت کی درازی کا
اگر اس طرۂ پرپیچ و خم کا پیچ و خم نکلے
مگر لکھوائے کوئی اُس کو خط تو ہم سے لکھوائے
ہوئی صبح اور گھر سے کان پر رکھ کر قلم نکلے
ہوئی اِس دور میں منسُوب مُجھ سے بادہ آشامی
پھر آیا وہ زمانہ جو جہاں میں جامِ جم نکلے
ہوئی جن سے توقع خستگی کی داد پانے کی
وہ ہم سے بھی زیادہ خستۂ تیغِ سِتم نکلے
محبت میں نہیں ہے فرق جینے اور مرنے کا
اُسی کو دیکھ کر جیتے ہیں، جس کافر پہ دم نکلے
ذرا کر زور سینے پر کہ تیر پُرسِتم نکلے
جو وہ نکلے تو دل نکلے، جو دل نکلے تو دم نکلے
خدا کے واسطے پردہ نہ کعبہ سے اُٹھا ظالم
کہیں ایسا نہ ہو یاں بھی وہی کافر صنم نکلے
کہاں میخانے کا دروازہ غالب! اور کہاں واعظ
پر اِتنا جانتے ہیں، کل وہ جاتا تھا کہ ہم نکلے
تشکّر، سید شہزاد ناصر صاحب!
بہت خُوب غزل ہے غالب کی، اِس پیش کردہ غزل میں (مقطع سے قبل)
دو اشعار وہ یا ایسے بھی شامل ہیں جو مرزا غالب صاحب نےشاید لکھے تو ہوں
مگر اپنے زندگی میں شائع کردہ یا ترتیب شدہ کتاب میں شامل نہیں کِیا
وجہ وہی جو شاعروں کا وطیرہ رہا ہو ؟ ' غیر مطمئن ہونا '
ذیل میں یہی غزل ہو بہو (اُسی طرح سے ) پیش کررہا ہوں
جو غالب اکیڈمی، نئی دہلی مطبوعہ ١٩٩٣ بعنوان "دیوان غالب (نسخۂ اکیڈمی) "
مجموعہ کلام غالب میں ہے ۔
تشکّر شیئر کرنے پر ، بہت خوش رہیں
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ، ہرخواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے مِرے ارمان، لیکن پھر بھی کم نکلے
ڈرے کیوں میرا قاتل، کیا رہے گا اُس کی گردن پر
وہ خوں، جو چشمِ تر سے، عمربھر یُوں دم بہ دم نکلے
نکلنا خُلد سے آدم کا سُنتے آئے ہیں، لیکن
بہت بے آبرُو ہو کر تِرے کوچے سے ہم نکلے
بھرم کُھل جائے ظالم! تیرے قامت کی درازی کا
اگر اُس طُرّۂ پُرپیچ و خم کا پیچ و خم نکلے
مگر لکھوائے کوئی اُس کو خط ، تو ہم سے لکھوائے
ہوئی صبح، اور گھر سے کان پر رکھ کر قلم نکلے
ہوئی اِس دَور میں منسُوب مُجھ سے، بادہ آشامی
پھر آیا وہ زمانہ ، جو جہاں میں جامِ جم نکلے
ہوئی جن سے توّقع، خستگی کی داد پانے کی
وہ ہم سے بھی زیادہ خستۂ تیغِ سِتم نکلے
محبّت میں نہیں ہے فرق، جینے اور مرنے کا
اُسی کو دیکھ کر جیتے ہیں، جس کافر پہ دَم نکلے
کہاں میخانے کا دروازہ غالب! اور کہاں واعظ !
پر اِتنا جانتے ہیں، کل وہ جاتا تھا کہ ہم نکلے
مرزا اسد الله خاں غالب
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے
ڈرے کیوں میرا قاتل؟ کیا رہے گا اُس کی گردن پر
وہ خوں، جو چشم تر سے عمر بھر یوں دم بہ دم نکلے؟
نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے ہیں لیکن
بہت بے آبرُو ہو کر ترے کوچے سے ہم نکلے
بھرم کھل جائے ظالم تیرے قامت کی درازی کا
اگر اس طرۂ پرپیچ و خم کا پیچ و خم نکلے
مگر لکھوائے کوئی اُس کو خط تو ہم سے لکھوائے
ہوئی صبح اور گھر سے کان پر رکھ کر قلم نکلے
ہوئی اِس دور میں منسُوب مُجھ سے بادہ آشامی
پھر آیا وہ زمانہ جو جہاں میں جامِ جم نکلے
ہوئی جن سے توقع خستگی کی داد پانے کی
وہ ہم سے بھی زیادہ خستۂ تیغِ سِتم نکلے
محبت میں نہیں ہے فرق جینے اور مرنے کا
اُسی کو دیکھ کر جیتے ہیں، جس کافر پہ دم نکلے
ذرا کر زور سینے پر کہ تیر پُرسِتم نکلے
جو وہ نکلے تو دل نکلے، جو دل نکلے تو دم نکلے
خدا کے واسطے پردہ نہ کعبہ سے اُٹھا ظالم
کہیں ایسا نہ ہو یاں بھی وہی کافر صنم نکلے
کہاں میخانے کا دروازہ غالب! اور کہاں واعظ
پر اِتنا جانتے ہیں، کل وہ جاتا تھا کہ ہم نکلے