غالب ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے

منصور مکرم

محفلین
مجھے تو چند اشعار بہت ہی مزے کے لگے

نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے ہیں لیکن
بہت بے آبرُو ہو کر ترے کوچے سے ہم نکلے

جب بھی کسی دوست کے ہاں جاتے ہیں اور وہ خرچہ کرنے سے انکار کردیتا ہے تو ہم یہی ورد کرتے ہوئے اسکے ہاں سے جاتے ہیں۔بے تکلفی ہےنا:):):)
میں نے شائد کہیں اس جگہ بڑے بے آبرو پڑھا تھا۔معلوم نہیں کونسا درست ہے۔

ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے
اُفففففففف مر گئے لیکن ۔۔۔ (باقی آپ خود سمجھدار ہیں نا)


ہوئی جن سے توقع خستگی کی داد پانے کی
وہ ہم سے بھی زیادہ خستۂ تیغِ سِتم نکلے
ہاہاہاہا۔اکثر اسطرح ہوجاتا ہے۔

خدا کے واسطے پردہ نہ کعبہ سے اُٹھا ظالم
کہیں ایسا نہ ہو یاں بھی وہی کافر صنم نکلے
(یہ شعر پڑھنے پر تو بہت سے کیسز میرے سامنے گھوم گئے)
 

طارق شاہ

محفلین
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے​
تشکّر، سید شہزاد ناصر صاحب!
بہت خُوب غزل ہے غالب کی، اِس پیش کردہ غزل میں (مقطع سے قبل)
دو اشعار وہ یا ایسے بھی شامل ہیں جو مرزا غالب صاحب نےشاید لکھے تو ہوں
مگر اپنے زندگی میں شائع کردہ یا ترتیب شدہ کتاب میں شامل نہیں کِیا
وجہ وہی جو شاعروں کا وطیرہ رہا ہو ؟ ' غیر مطمئن ہونا '

ذیل میں یہی غزل ہو بہو (اُسی طرح سے ) پیش کررہا ہوں
جو غالب اکیڈمی، نئی دہلی مطبوعہ ١٩٩٣ بعنوان "دیوان غالب (نسخۂ اکیڈمی) "
مجموعہ کلام غالب میں ہے ۔

تشکّر شیئر کرنے پر ، بہت خوش رہیں :)


ہزاروں خواہشیں ایسی کہ، ہرخواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے مِرے ارمان، لیکن پھر بھی کم نکلے


ڈرے کیوں میرا قاتل، کیا رہے گا اُس کی گردن پر
وہ خوں، جو چشمِ تر سے، عمربھر یُوں دم بہ دم نکلے


نکلنا خُلد سے آدم کا سُنتے آئے ہیں، لیکن
بہت بے آبرُو ہو کر تِرے کوچے سے ہم نکلے


بھرم کُھل جائے ظالم! تیرے قامت کی درازی کا
اگر اُس طُرّۂ پُرپیچ و خم کا پیچ و خم نکلے


مگر لکھوائے کوئی اُس کو خط ، تو ہم سے لکھوائے
ہوئی صبح، اور گھر سے کان پر رکھ کر قلم نکلے


ہوئی اِس دَور میں منسُوب مُجھ سے، بادہ آشامی
پھر آیا وہ زمانہ ، جو جہاں میں جامِ جم نکلے


ہوئی جن سے توّقع، خستگی کی داد پانے کی
وہ ہم سے بھی زیادہ خستۂ تیغِ سِتم نکلے


محبّت میں نہیں ہے فرق، جینے اور مرنے کا
اُسی کو دیکھ کر جیتے ہیں، جس کافر پہ دَم نکلے

کہاں میخانے کا دروازہ غالب! اور کہاں واعظ !
پر اِتنا جانتے ہیں، کل وہ جاتا تھا کہ ہم نکلے

مرزا اسد الله خاں غالب


 
آخری تدوین:
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے

ڈرے کیوں میرا قاتل؟ کیا رہے گا اُس کی گردن پر
وہ خوں، جو چشم تر سے عمر بھر یوں دم بہ دم نکلے؟

نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے ہیں لیکن
بہت بے آبرُو ہو کر ترے کوچے سے ہم نکلے

بھرم کھل جائے ظالم تیرے قامت کی درازی کا
اگر اس طرۂ پرپیچ و خم کا پیچ و خم نکلے

مگر لکھوائے کوئی اُس کو خط تو ہم سے لکھوائے
ہوئی صبح اور گھر سے کان پر رکھ کر قلم نکلے

ہوئی اِس دور میں منسُوب مُجھ سے بادہ آشامی
پھر آیا وہ زمانہ جو جہاں میں جامِ جم نکلے

ہوئی جن سے توقع خستگی کی داد پانے کی
وہ ہم سے بھی زیادہ خستۂ تیغِ سِتم نکلے

محبت میں نہیں ہے فرق جینے اور مرنے کا
اُسی کو دیکھ کر جیتے ہیں، جس کافر پہ دم نکلے

ذرا کر زور سینے پر کہ تیر پُرسِتم نکلے
جو وہ نکلے تو دل نکلے، جو دل نکلے تو دم نکلے


خدا کے واسطے پردہ نہ کعبہ سے اُٹھا ظالم
کہیں ایسا نہ ہو یاں بھی وہی کافر صنم نکلے

کہاں میخانے کا دروازہ غالب! اور کہاں واعظ
پر اِتنا جانتے ہیں، کل وہ جاتا تھا کہ ہم نکلے​

خدا کے واسطے پردہ نہ کعبہ سے اُٹھا ظالم
کہیں ایسا نہ ہو یاں بھی وہی کافر صنم نکلے
یہ شعر بہادر شاہ ظفر کا ہے یہ غالب کا تو نہیں بھائی عام طور پر غالب کی اس غزل میں لکھا جاتا ہے لیکن یہ ان کا نہیں
خدا کے واسطے زاہد اٹھا پردہ نہ کعبہ کا
کہیں ایسا نہ ہو یاں بھی وہی کافر صنم نکل
بہادر شاہ ظفر
 
وہ سو سو اٹھکھٹوں سے گھر سے باہر دو قدم نکلے
بلا سے اس کی گر اس میں کسی مضطر کا دم نکلے

کہاں آنسو کے قطرے خون دل سے ہیں بہم نکلے
یہ دل میں جمع تھے مدت سے کچھ پیکان غم نکلے

مرے مضمون سوز دل سے خط سب جل گیا میرا
قلم سے حرف جو نکلے شرر ہی یک قلم نکلے

نکال اے چارہ گر تو شوق سے لیکن سر پیکاں
ادھر نکلے جگر سے تیر ادھر قالب سے دم نکلے

تصور سے لب لعلیں کے تیرے ہم اگر رو دیں
تو جو لخت جگر آنکھوں سے نکلے اک رقم نکلے

نہیں ڈرتے اگر ہوں لاکھ زنداں یار زنداں سے
جنون اب تو مثال نالۂ زنجیر ہم نکلے

جگر پر داغ لب پر دود دل اور اشک دامن میں
تری محفل سے ہم مانند شمع صبح دم نکلے

اگر ہوتا زمانہ گیسوئے شب رنگ کا تیرے
مری شب دیز سودا کا زیادہ تر قدم نکلے

کجی جن کی طبیعت میں ہے کب ہوتی وہ سیدھی ہے
کہو شاخ گل تصویر سے کس طرح خم نکلے

شمار اک شب کیا ہم نے جو اپنے دل کے داغوں سے
تو انجم چرخ ہشتم کے بہت سے ان سے کم نکلے

خدا کے واسطے زاہد اٹھا پردہ نہ کعبہ کا
کہیں ایسا نہ ہو یاں بھی وہی کافر صنم نکلے

تمنا ہے یہ دل میں جب تلک ہے دم میں دم اپنے
ظفرؔ منہ سے ہمارے نام اس کا دم بہ دم نکل

بہادر شاہ ظفر
 
تشکّر، سید شہزاد ناصر صاحب!
بہت خُوب غزل ہے غالب کی، اِس پیش کردہ غزل میں (مقطع سے قبل)
دو اشعار وہ یا ایسے بھی شامل ہیں جو مرزا غالب صاحب نےشاید لکھے تو ہوں
مگر اپنے زندگی میں شائع کردہ یا ترتیب شدہ کتاب میں شامل نہیں کِیا
وجہ وہی جو شاعروں کا وطیرہ رہا ہو ؟ ' غیر مطمئن ہونا '

ذیل میں یہی غزل ہو بہو (اُسی طرح سے ) پیش کررہا ہوں
جو غالب اکیڈمی، نئی دہلی مطبوعہ ١٩٩٣ بعنوان "دیوان غالب (نسخۂ اکیڈمی) "
مجموعہ کلام غالب میں ہے ۔

تشکّر شیئر کرنے پر ، بہت خوش رہیں :)


ہزاروں خواہشیں ایسی کہ، ہرخواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے مِرے ارمان، لیکن پھر بھی کم نکلے


ڈرے کیوں میرا قاتل، کیا رہے گا اُس کی گردن پر
وہ خوں، جو چشمِ تر سے، عمربھر یُوں دم بہ دم نکلے


نکلنا خُلد سے آدم کا سُنتے آئے ہیں، لیکن
بہت بے آبرُو ہو کر تِرے کوچے سے ہم نکلے


بھرم کُھل جائے ظالم! تیرے قامت کی درازی کا
اگر اُس طُرّۂ پُرپیچ و خم کا پیچ و خم نکلے


مگر لکھوائے کوئی اُس کو خط ، تو ہم سے لکھوائے
ہوئی صبح، اور گھر سے کان پر رکھ کر قلم نکلے


ہوئی اِس دَور میں منسُوب مُجھ سے، بادہ آشامی
پھر آیا وہ زمانہ ، جو جہاں میں جامِ جم نکلے


ہوئی جن سے توّقع، خستگی کی داد پانے کی
وہ ہم سے بھی زیادہ خستۂ تیغِ سِتم نکلے


محبّت میں نہیں ہے فرق، جینے اور مرنے کا
اُسی کو دیکھ کر جیتے ہیں، جس کافر پہ دَم نکلے

کہاں میخانے کا دروازہ غالب! اور کہاں واعظ !
پر اِتنا جانتے ہیں، کل وہ جاتا تھا کہ ہم نکلے

مرزا اسد الله خاں غالب



ان میں سے اک تو بہادر شاہ ظفر کا ہے جو کچھ اس طرح ہے
خدا کے واسطے زاہد اٹھا پردہ نہ کعبہ کا
کہیں ایسا نہ ہو یاں بھی وہی کافر صنم نکل
 

خالد عثمان

محفلین
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے

ڈرے کیوں میرا قاتل؟ کیا رہے گا اُس کی گردن پر
وہ خوں، جو چشم تر سے عمر بھر یوں دم بہ دم نکلے؟

نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے ہیں لیکن
بہت بے آبرُو ہو کر ترے کوچے سے ہم نکلے

بھرم کھل جائے ظالم تیرے قامت کی درازی کا
اگر اس طرۂ پرپیچ و خم کا پیچ و خم نکلے

مگر لکھوائے کوئی اُس کو خط تو ہم سے لکھوائے
ہوئی صبح اور گھر سے کان پر رکھ کر قلم نکلے

ہوئی اِس دور میں منسُوب مُجھ سے بادہ آشامی
پھر آیا وہ زمانہ جو جہاں میں جامِ جم نکلے

ہوئی جن سے توقع خستگی کی داد پانے کی
وہ ہم سے بھی زیادہ خستۂ تیغِ سِتم نکلے

محبت میں نہیں ہے فرق جینے اور مرنے کا
اُسی کو دیکھ کر جیتے ہیں، جس کافر پہ دم نکلے

ذرا کر زور سینے پر کہ تیر پُرسِتم نکلے
جو وہ نکلے تو دل نکلے، جو دل نکلے تو دم نکلے


خدا کے واسطے پردہ نہ کعبہ سے اُٹھا ظالم
کہیں ایسا نہ ہو یاں بھی وہی کافر صنم نکلے

کہاں میخانے کا دروازہ غالب! اور کہاں واعظ
پر اِتنا جانتے ہیں، کل وہ جاتا تھا کہ ہم نکلے​
 
Top