یاسر شاہ
محفلین
مذمتِ اہلِ دنیا
کیا کیا فریب کہیے دنیا کی فطرتوں کا
مکر و دغا و دُزدی ہے کام اکثروں کا
جب دوست مل کے لوٹیں اسباب مُشفِقوں کا
پھر کس زباں سے شکوہ اب کیجے دشمنوں کا
ہشیار یار جانی یہ دشت ہے ٹھگوں کا
یاں ُٹک نگاہ چوکی اور مال دوستوں کا
___________
گر دِن کو ہے اُچَکّا تو چور رات میں ہے
نَٹ کَھٹ کی کچھ نہ پوچھو ہر بات بات میں ہے
اس کی بغل میں کُتّی تیغ اس کے ہاتھ میں ہے
وہ اس کی فکر میں ہے یہ اس کی گھات میں ہے
ہشیار یار جانی یہ دشت ہے ٹھگوں کا
یاں ُٹک نگاہ چوکی اور مال دوستوں کا
__________
دیکھے کوئی ہے جن کا ہے گَٹھ کَٹی وتیرہ
جامے پہ کھا رہا ہے لُچّے کا دل حریرا
لَٹھ مار تاکتا ہے ہر آن سر کا چِیرا
جوتی کو تک رہا ہے ہر دم اٹھائی گیرا
ہشیار یار جانی یہ دشت ہے ٹھگوں کا
یاں ُٹک نگاہ چوکی اور مال دوستوں کا
__________
عیّار اور چھچھورا نت اپنے کار میں ہے
اور صبح خیزیا بھی اپنی بہار میں ہے
قزّاق جس مکاں پر فکرِ سوار میں ہے
پیادہ غریب اس جا پھر کس شمار میں ہے
ہشیار یار جانی یہ دشت ہے ٹھگوں کا
یاں ُٹک نگاہ چوکی اور مال دوستوں کا
__________
اس راہ میں جو آیا اسوار گہہ سے گھوڑا
ٹھگ سے بچا تو آگے قزّاق نے نہ چھوڑا
سویا سرا میں جا کے تو چور نے جِھنجھوڑا
تیغہ رہا نہ بھالا گھوڑا رہا نہ کوڑا
ہشیار یار جانی یہ دشت ہے ٹھگوں کا
یاں ُٹک نگاہ چوکی اور مال دوستوں کا
__________
نادان کو پِلا کر اک بھنگ کا پیالا
کپڑے بَغَل میں مارے اور لے لیا دوشالا
دانا ملا تو اس میں گھولا دھتورا کالا
ہوتے ہی غافل اس کو پھانسی میں کھینچ ڈالا
ہشیار یار جانی یہ دشت ہے ٹھگوں کا
یاں ُٹک نگاہ چوکی اور مال دوستوں کا
__________
پیسے روپے اَشَرفی یا سیم زر کا پَترا
پھر جیت گھر میں لاوے ہے کون ایسا چَترا
میدان ،چوک ،کھائی یہ فن ہے وہ دَھنترا
کترے ہے جیب چڑھ کر ہاتھی پہ جیب کَترا
ہشیار یار جانی یہ دشت ہے ٹھگوں کا
یاں ُٹک نگاہ چوکی اور مال دوستوں کا
___________
چڑیا نے دیکھ غافل کپڑا ادھر گھسیٹا
کوّے نے وقت پا کر چڑیا کا گھر گھسیٹا
چیلوں نے مار پنجے کوّے کا سر گھسیٹا
جو جس کے ہاتھ آیا وہ اس نے در گھسیٹا
ہشیار یار جانی یہ دشت ہے ٹھگوں کا
یاں ُٹک نگاہ چوکی اور مال دوستوں کا
___________
صیّاد چاہتا ہے ہو صید کا گزارا
اور صید چاہے دانا کھا کر کرے کنارا
قابو چڑھا تو اس کا دانہ وہ کھا سدھارا
اور کچھ بھی چال چُوکا تو ووہیں جال مارا
ہشیار یار جانی یہ دشت ہے ٹھگوں کا
یاں ُٹک نگاہ چوکی اور مال دوستوں کا
____________
نکلا ہے شیر گھر سے گیدڑ کا گوشت کھانے
گیدڑ کی دُھن لگا دے خود شیر کو ٹھکانے
کیا کیا کریں ہیں باہم مکر و دغا بہانے
یاں وہ بچا نظؔیر اب جس کو رکھا خدا نے
ہشیار یار جانی یہ دشت ہے ٹھگوں کا
یاں ُٹک نگاہ چوکی اور مال دوستوں کا
از انتخاب نظیر (ناصر کاظمی )
کیا کیا فریب کہیے دنیا کی فطرتوں کا
مکر و دغا و دُزدی ہے کام اکثروں کا
جب دوست مل کے لوٹیں اسباب مُشفِقوں کا
پھر کس زباں سے شکوہ اب کیجے دشمنوں کا
ہشیار یار جانی یہ دشت ہے ٹھگوں کا
یاں ُٹک نگاہ چوکی اور مال دوستوں کا
___________
گر دِن کو ہے اُچَکّا تو چور رات میں ہے
نَٹ کَھٹ کی کچھ نہ پوچھو ہر بات بات میں ہے
اس کی بغل میں کُتّی تیغ اس کے ہاتھ میں ہے
وہ اس کی فکر میں ہے یہ اس کی گھات میں ہے
ہشیار یار جانی یہ دشت ہے ٹھگوں کا
یاں ُٹک نگاہ چوکی اور مال دوستوں کا
__________
دیکھے کوئی ہے جن کا ہے گَٹھ کَٹی وتیرہ
جامے پہ کھا رہا ہے لُچّے کا دل حریرا
لَٹھ مار تاکتا ہے ہر آن سر کا چِیرا
جوتی کو تک رہا ہے ہر دم اٹھائی گیرا
ہشیار یار جانی یہ دشت ہے ٹھگوں کا
یاں ُٹک نگاہ چوکی اور مال دوستوں کا
__________
عیّار اور چھچھورا نت اپنے کار میں ہے
اور صبح خیزیا بھی اپنی بہار میں ہے
قزّاق جس مکاں پر فکرِ سوار میں ہے
پیادہ غریب اس جا پھر کس شمار میں ہے
ہشیار یار جانی یہ دشت ہے ٹھگوں کا
یاں ُٹک نگاہ چوکی اور مال دوستوں کا
__________
اس راہ میں جو آیا اسوار گہہ سے گھوڑا
ٹھگ سے بچا تو آگے قزّاق نے نہ چھوڑا
سویا سرا میں جا کے تو چور نے جِھنجھوڑا
تیغہ رہا نہ بھالا گھوڑا رہا نہ کوڑا
ہشیار یار جانی یہ دشت ہے ٹھگوں کا
یاں ُٹک نگاہ چوکی اور مال دوستوں کا
__________
نادان کو پِلا کر اک بھنگ کا پیالا
کپڑے بَغَل میں مارے اور لے لیا دوشالا
دانا ملا تو اس میں گھولا دھتورا کالا
ہوتے ہی غافل اس کو پھانسی میں کھینچ ڈالا
ہشیار یار جانی یہ دشت ہے ٹھگوں کا
یاں ُٹک نگاہ چوکی اور مال دوستوں کا
__________
پیسے روپے اَشَرفی یا سیم زر کا پَترا
پھر جیت گھر میں لاوے ہے کون ایسا چَترا
میدان ،چوک ،کھائی یہ فن ہے وہ دَھنترا
کترے ہے جیب چڑھ کر ہاتھی پہ جیب کَترا
ہشیار یار جانی یہ دشت ہے ٹھگوں کا
یاں ُٹک نگاہ چوکی اور مال دوستوں کا
___________
چڑیا نے دیکھ غافل کپڑا ادھر گھسیٹا
کوّے نے وقت پا کر چڑیا کا گھر گھسیٹا
چیلوں نے مار پنجے کوّے کا سر گھسیٹا
جو جس کے ہاتھ آیا وہ اس نے در گھسیٹا
ہشیار یار جانی یہ دشت ہے ٹھگوں کا
یاں ُٹک نگاہ چوکی اور مال دوستوں کا
___________
صیّاد چاہتا ہے ہو صید کا گزارا
اور صید چاہے دانا کھا کر کرے کنارا
قابو چڑھا تو اس کا دانہ وہ کھا سدھارا
اور کچھ بھی چال چُوکا تو ووہیں جال مارا
ہشیار یار جانی یہ دشت ہے ٹھگوں کا
یاں ُٹک نگاہ چوکی اور مال دوستوں کا
____________
نکلا ہے شیر گھر سے گیدڑ کا گوشت کھانے
گیدڑ کی دُھن لگا دے خود شیر کو ٹھکانے
کیا کیا کریں ہیں باہم مکر و دغا بہانے
یاں وہ بچا نظؔیر اب جس کو رکھا خدا نے
ہشیار یار جانی یہ دشت ہے ٹھگوں کا
یاں ُٹک نگاہ چوکی اور مال دوستوں کا
از انتخاب نظیر (ناصر کاظمی )