ہفتۂ شعر و ادب - خطاط شفیق الزماں از انور انصاری (تصویری عکس)

محمد وارث

لائبریرین
Page_13S.jpg
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 469

جائےتو ترکی، مصر، ایران، افغانستان، یمن، سوریا اور عراق میں مشکل ہی سے اس پائے کا کوئی فن کار نظر آئے گا۔ شفیق صاحب کا تعلق نئی نسل سے ہے وہ ابھی بالکل نوجوان ہیں اور اس مختصر سے عمر ہی میں انہوں نے انتھک محنت، ریاضت اور فن سے لگن کا وہ ثبوت فراہم کیا ہے کہ یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ چند برسوں میں فن خطاطی کے افق پر نمودار ہونے والا یہ مہر عالم تاب اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ چمکے گا اور اس کی ضوفشانیوں سے نہ صرف پاکستان منور ہو گا بلکہ اس کی ضیا پاشیاں ایک عالم کے لئے مشعل راہ ثابت ہوں گی۔ جن سے کسب نور کر کے انے والی نسل خطاطی کے میدان میں خوب سے خوب تر کی جانب رواں دواں رہے گی۔

شفیق صاحب نے پاکستان مین عربی خطاطی کو فروغ دینے کے لئے بہت سے دلچسپی رکھنے والے خطاطوں کو اپنا شاگرد بنا لیا ہے۔ اس دفعہ پاکستان آمد پر انہوں نے متعدد شاگردوں کو اصلاح بھی دی ہے۔

فن خطاطی سے دلچسپی رکھنے والے قارئین اور دیگر خطاط مھترم شفیق الزماں سے مندرجہ ذیل پتوں کے ذریعے رابطہ قائم کر سکتے ہیں۔

سعودی عرب :
شفیق الزماں
(خطاط حرم النبوی صلی اللہ علیہ وسلم الشریف)
پوسٹ بکس نمبر 20039
المدینہ المنورہ – المملکۃ العربیۃ السعودیۃ۔
فون دفتر : 8242588 (سعودی وقت کے مطابق رات 9 بجے کے بعد)

پاکستان :
شفیق الزماں (خطاط)
کورٹر نمبر 10/3-1-d ملیر ایکسٹنشن کالونی۔
کھوکھراپار نمبر 2، کراچی
فون گھر : 200890
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 468

التحصیل ہو کر معاشرے میں باعزت اور قابل قدر روزگار بھی حاصل کرتے ہیں۔ اگر پاکستان میں اس طرز پر کوئی ادارہ قائم ہو جس میں برادر اسلامی ممالک کے مستند اساتذہ کی خدمات حاصل کر کے یہاں کے فن کاروں کی تربیت کا کوئی معقول انتظام کیا جائے تو میرے خیال میں یہ فن پاکستان میں فروغ اور ترقی پائے گا اور ہم دنیا کے مسل فنکاروں کے مقابلے میں اپنا کام بھی پیش کر سکیں گے۔ یہی ایک ذریعہ رہ جاتا ہے کہ ہم بتدریج یہ فن عام لوگوں میں مقبول بنا سکتے ہیں۔

یہاں یہ بات انتہائی قابل ذکر ہے کہ پاکستان میں پی ٹی وی (صبح کی نشریات) کی جانب سے بچوں کو دس منٹ کا جو پروگرام پیش کیا جاتا ہے وہ ناکافی ہے اور میں یہ بات نہیں مانتا کہ ٹیلیویژن پروگرام کے ذریعے دنیا کا یہ عظیم ترین فن لوگوں کو سکھایا جا سکے۔ اس کے لئے انتہائی ضروری ہے کہ کوئی اکیڈمی ہو اور فن کار اور فن سیکھنے والے طالب علم دونوں ایک ہی جگہ موجود ہوں۔ استاذ سب طالب علموں کے سامنے لکھتے ہوئے بتائے، اور طالب علم اپنے استاذ کے بتائے ہوئے خطوط کے ذریعے ان کو لکھے۔ بعد میں سب طالب علموں کو استاذ اصلاح دے۔ اس طرح اس کے ذہن و دماغ میں اس لفظ کی صحیح شکل ثبت ہو جائے گی۔ قلم کو پکڑنے اور قرطاس پر لفظوں کو بنانے کا طریقہ بھی باآسانی ذہن نشین ہو جائے گا۔ بہرحال خطاطی کے فروغ کے ضمن میں پی ٹی وی اور جناب رشید بٹ اس لحاظ سے مبارک باد کے مستحق ضرور ہیں کہ چلو پاکستان میں کچھ نہ کچھ تو ہو رہا ہے۔

محترم شفیق نے اپنی گفتگو کے دوران بتایا کہ خط ثلث کے حوالے سے میں سب سے زیادہ ترک استاذ محترم حامد الامدی (مرحوم) کے فن، ان کی شخصیت اور ان کے لکھے ہوئے کنبات سے بہت زیادہ متاثر ہوں، یہی وجہ ہے کہ میں نے استاذ حامد کے اسلوب کو اپنایا۔ ان کے خط میں اس قدر فورس لچک اور لفظوں میں اتنی خوبصورتی اور حسن ہے کہ دنیا کے کسی اور فن کار کے فن میں نہیں ہے۔ خط ثلث کے حوالے سے اگر ان کو خطاطی کا امام کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ اس کے علاوہ اگر دیگر مسلم ممالک کے فن کاروں کا تذکرہ نہ کیا جائے تو زیادتی ہو گی۔ اس لئے کہ اپنے اپنے ملکوں میں ان سب فنکاروں نے حقیقتاً اپنی زندگیاں فن کی خدمت میں صرف کر دیں۔

اس ضمن میں ترکی کے مصطفٰے راقم سرفہرست ہیں۔ اس کے علاوہ عبد اللہ زھدی، شفیق آفندی، سامی آفندی، محمد لطیف بک، محمد شوقی، مصر میں سید ابراہیم، محمد حسن مکاوی، محمد ابراہیم سالم، سوریا میں علی بدوی الدیرانی، بشیر الدلبی، عثمان طہ، عبیدہ البنکی، عبد الناصر بشعان، ابرہیم رفاعی، نجیب ھواوینی، ماجد خیاط، ایران میں سرفہرست عماد الحسنی، عباس اخویں، ید اللہ کابلی، حجت اللہ کشفی (ماہر شکستہ) محمد وکیل شفیقی (نستعلیق) غلام حسین امیر خانی، افغانستان میں عزیز الدین وکیلی، عراق کے ہاشم البغدادی، عباس بغدادی، یوسف ذنون، صلاح الدین شہرزاد، مہدی جبوری، امریکہ کے نومسلم محمد ذکریا اور مقبول "الخط العربی" کے مصنف محمد طاہر الکردی کے اسمائے گرامی قابل ذکر ہیں۔

محترم شفیق الزمان بہت سی گوناں گوں کوبیوں کے مالک ہیں۔ وہ جہاں ایک بہت بڑے فنکار کے روپ میں سامنے آئے ہیں وہیں ایک شریف النفس انسان کے حوالے سے بھی جانے پہچانے جاتے ہیں۔ جو فن کار ایک دفعہ ان سے مل لیتا ہے ان کا گرویدہ ہو جاتا ہے۔ کم گو اور دھیمے لہبے میں ہر وقت مسکرا کر بات کرنے والا یہ فن کار اپنے اندر فن سے محبت اور فن کی کدمت کرنے کا جذبہ لئے آہستہ آہستہ منزل کی جانب رواں دواں ہے۔

میں یہ بات پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ برصغیر اور ایشیا کی حدود سے نکل کر ان کے فن کا موازنہ کیا
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 467

1 – خط ثلث، 2 – نسخ (فارسی)، 3 – دیوانی، 4 – جلی دیوانی، 5 – اجازہ، 6 – کوفی (اب تک 120 طرز پر لکھا جاتا ہے)، 7 – رقعہ، 8 – شکستہ، 9 – سنبلی، 10 – خط طغرا وغیرہ۔

ان خطوط میں سب سے مشکل ترین خط "خط ثلث" ہے، اسے تمام خطوط کا بادشاہ کہا جاتا ہے اس خط کو متعدد اساتذہ نے دلہن سے بھی تشبیہ دی ہے۔ جس طرح شادی کے موقع پر کسی دلہن کو بنایا، سجایا اور سنوارا جاتا ہے، اس کا میک اپ کیا جاتا ہے، ماتھے پر جھومر، کانوں میں بالیاں اور ناک میں نتھ پہنائی جاتی ہے، ہاتھوں میں مہندی اور پھولوں کے گجرے پہنائے جاتے ہیں بالکل اسی طرح خط ثلث کو نئی نویلی دلہن کی طرح سجایا اور سنوارا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا : جہاں تک میرا تعلق ہے میں عربی خطاطی میں اپنے طور پر تمام ہی خطوط لکھتا ہوں لیکن میرا سب سے پسندیدہ خط "ثلث " ہے خط ثلث کی نوک پلک سنوارنے اور اس کی ترش خراش میں دنیا کے متعدد اساتذہ نے اپنا کردار ادا کیا۔ لیکن ترکی متعدد اساتذہ نے اس خط پر سب سے زیادہ محنت کی، ترکی کے خطاطوں کے جد امجد استاذ مصطفٰے راقم (پیدائش 1171ھ بمطابق 1758 ع ۔ وفات 1241 ھ بمطابق 1826 ع) سے لیکر استاذ حامد الامدی (پیدائش 1309 ھ بمطابق 1891 ع وفات 1402ھ بمطابق 1982 ع) تک تقریباً دو صدی تک اس خط میں طبع آزمائی کی اور یہ خط آج اپنی انتہائی خوبصورت شکل میں اس وقت موجود ہے۔

پاکستان کے حوالے سے بات کرتے ہوئے شفیق الزماں نے بتایا کہ ایک مسلم ملک ہونے کے ناطے پاکستان میں عربی خطاطی پر کوئی خاص توجہ نہیں دی گئی۔ یہاں لوگوں نے صرف نستعلیق کے خط کو اپنایا اور اس خط کو ایسا بنا دیا کہ دنیا کے کسی بھی ملک میں اس طرز کو قبول نہیں کیا جاتا اور یہ خط صرف برصغیر میں محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ عربی خطاطی میں "خط ثلث" کے حوالے سے صرف اتنا کہوں گا کہ محترم حافظ محمد یوسف سدیدی (مرحوم) نے کچھ توجہ دی اور اپنے طور پر یہ کوشش کی کہ پاکستان میں عربی خطاطی کو فروغ دیا جائے، حالانکہ حکومت پاکستان کو چاہیے کہ وہ اس ملک میں عربی خطاطی کو فروغ دینے کے لئے سرکاری سطح پر موثر اور ٹھوس اقدام کرے جبکہ حکومت ترکی اس فن کو زندہ رکھنے اور فروغ دینے کے لئے ہر قسم کے اقدام کرتی ہے۔ یہاں ہر دو سال بعد ایک بین الاقوامی خطاطی کا مقابلہ ہوتا ہے جس میں دنیا بھر کے فن کار اپنا کام پیش کرتے ہیں۔ اس طرح ان فن کاروں میں اس فن سے محبت اور مختلف خطور کو خوب سے خوب تر لکھنے کا جذبہ بیدار رہتا ہے۔ اس تمام پروگرام کو حکومت سعودی عرب مالی طور پر مدد فراہم کرتی ہے۔ لاکھوں ڈالر خرچ کر کے اس پروگرام کو منعقد کیا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں ترکی نژاد استاذ احمد ضیا ابراہیم (سعودی نیشنل) اس عالمی مقابلہ خطاطی کو منعقد کرنے میں اپنا بھر پور کردار ادا کرتے ہیں اور اس کے منصف اعلٰی اور آرگنائزر کے فرائض بھی انجام دیتے ہیں۔ اس سلسلے میں حکومت سعودی عرب اور جلالتہ الملک خاص طور پر قابل تحسین ہیں کہ جن کی مالی امداد اور کاوشوں سے ان نمائشوں کا اہتمام ہوتا ہے اور فن کاروں کی خوب حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔

پاکستان میں عربی خطاطی کو فروغ دینے کے ضمن میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے شفیق الزماں نے کہا : میں سمجھتا ہوں کہ جس طرح دیگر اسلامی ملکوں میں عربی خطاطی کو فروغ دینے کے لئے مختلف ادارے قائم ہیں بالکل اسی طرح یہاں بھی پروگرام بنائے جائیں اور دلچسپی رکھنے والے فن کاروں کو عربی خطاطی کی تربیت دی جائے۔ مثلاً مصر میں مدرسہ تحسین الخطوط قائم ہے۔ بغداد میں فنون الجمیلہ، ترکیہ میں صنایع نفیسہ الاقارمینہ. ایران میں انجمن خوشنویسان۔ ایرا ن اور دیگر اسلامی ممالک میں اس قسم کے ادارے سرکاری سطے پر خدمات انجام دے رہے ہیں جہاں تشنگان فن نہ صرف اپنے علم کی پیاس بجھاتے ہیں بلکہ ان اداروں سے فارغ
 
Top