ہفتۂ شعر و ادب - غزلیں

شاہ حسین

محفلین
محبّت میں تپاک ظاہری سے کچھ نہیں ہوتا
جہاں دل کی لگی ہو ، دل لگی سے کچھ نہیں ہوتا

یہ ہے خیرِ مشیّت یا مری تقدیر ہے یارب
سہارا جس کا لیتا ہوں ، اُسی سے کچھ نہیں ہوتا

کوٕئی میری خطا ہے یا تری صنعت کی خامی ہے
فرشتے کہہ رہے ہیں آدمی سے کچھ نہیں ہوتا

رضا تیری ، لکھا تقدیر کا ، میری زیاں کوشی
کسی کی دوستی یا دشمنی سے کچھ نہیں ہوتا

مرے دستِ طلب کو جراتِ گستاخ دے یارب
یہاں دستِ دعا کی عاجزی سے کچھ نہیں ہوتا

اگر تیری خوشی ہے تیرے بندوں کی مسرّت میں
تو اے میرے خدا تیری خوشی سے کچھ نہیں ہوتا


ہری چند اختر
 

شاہ حسین

محفلین
کیا قیامت ہے کہ اک شخص کا ہو بھی نہ سکوں
زندگی کون سی دولت ہے کہ کھو بھی نہ سکوں

گھر سے نکلوں تو بھرے شہر کے ہنگامے میں
میں وہ مجبور تری یاد میں رو بھی نہ سکوں

دل کے پہلو سے لگا رہتا ہے اندیشہ شام
صبح کے خوف سے نیند آئے تو سو بھی نہ سکوں

دل کو سمجھاؤں کہ دریائے سراب اچھا ہے
پار اُتر بھی نہ سکوں ، ناؤ ڈبو بھی نہ سکوں

شاذ معلوم ہوا عجز بیانی کیا ہے
دِل میں وہ آگ ہے لفظوں میں سموں بھی نہ سکوں


شاذ تمکنت
 

شاہ حسین

محفلین
دنیا سجی ہوئی ہے بازار کی طرح
ہم بھی چلیں گے آج خریدار کی طرح

ٹوٹے ہوں یا پُرانے ہوں اپنے تو ہیں یہی
خوابوں کو جمع کرتا ہوں آثار کی طرح

یہ اور بات ہے کہ نمایاں رہوں مگر
دُنیا مجھے چھپائے ہے آزار کی طرح

میری کتابِ زیست تم اک بار تو پڑھو
پھر چاہے پھینک دو کسی اخبار کی طرح

اب زندگی کی دھوپ بھی سیدھا کرے گی کیا
اب تک تو کج رہا تری دستار کی طرح

مدّت ہوئی کہ گھومتا پھرتا ہوں رات دن
افکار کے دریا میں نادار کی طرح

اس خوف سے کہ سایہ بھی اپنا نہ ساتھ دے
رُک رُک کے چل رہا ہوں میں بیمار کی طرح


ضیا جائسی
 

کاشفی

محفلین
ترا لب دیکھ حیواں یاد آوے - ولی دکنی

خواتین و حضرات کی خوبصورت و دلفریب بصارتوں کی نظر ایک غزل ۔۔۔ :)

غزل
(ولی دکنی)

ترا لب دیکھ حیواں یاد آوے
ترا مُکھ دیکھ کنعاں یاد آوے

ترے دو نین جب دیکھوں نظر بھر
مجھے تب نرگستاں یاد آوے

تری زلفاں کی طولانی کوں دیکھے
مجھے لیلِ زمستاں یاد آوے

ترے خط کا زمرد رنگ دیکھے
بہارِ سنبلستاں یاد آوے

ترے مُکھ کے چمن کے دیکھنے کوں
مجھے فردوس رضواں یاد آوے

تری زلفاں میں یومُکھ جو دیکھے
اُسے شمعِ شبستاں یاد آوے

جو میرے حال کی گردش کوں دیکھے
اُسے گردابِ گرداں یاد آوے

جو کُئی دیکھے میرے انکھیاں کو روتے
اُسے ابرِ بہاراں یاد آوے

ولی میرا جنوں جو کُئی کہ دیکھے
اُسے کوہ و بیاباں یاد آوے

آپ سب کو یہ غزلاں پسند آوے تو
شکریہ کا بٹن کلک کراں۔۔۔ :grin:
 
تیرے خیال سے لو دے اُٹھی ہے تنہائی - ناصر کاظمی

تیرے خیال سے لو دے اُٹھی ہے تنہائی
شبِ فراق ہے یا تیری جلوہ آرائی

تُو کس خیال میں ہے منزلوں کے شیدائی
انہیں بھی دیکھ جنہیں راستے میں نیند آئی

پکار اے جرسِ کاروانِ صبح طرب
بھٹک رہے ہیں اندھیروں میں تیرے سودائی

ٹھہر گئے ہیں سرِراہ خاک اڑانے کو
مسافروں کو نہ چھیڑ اے ہوائے صحرائی

رہِ حیات میں کچھ مرحلے تو دیکھ لیے
یہ اور بات تری آرزو نہ راس آئی

یہ سانحہ بھی محبت میں بارہا گزرا
کہ اس نے حال بھی پوچھا تو آنکھ بھر آئی

دل افسردہ میں پھر دھڑکنوں کا شور اٹھا
یہ بیٹھے بیٹھے مجھے کن دنوں کی یاد آئی

کھلی جو آنکھ تو کچھ اور ہی سماں دیکھا
وہ لوگ تھے نہ وہ جلسے نہ شہر رعنائی

پھر اس کی یاد میں دل بے قرار ہے ناصر
بچھڑ کے جس سے ہوئی شہر شہر رسوائی

(ناصر کاظمی)
 
ہر ایک چہرے پہ دل کو گُمان اس کا تھا
بسا نہ کوئی یہ خالی مکان اس کا تھا

میں بے جہت ہی رہا اور بے مقام سا وہ
ستارہ میرا سمندر نشان اس کا تھا

میں اُس طلسم سے باہر کہاں تلک جاتا
فضا کھلی تھی مگر آسمان اس کا تھا

سلیقہ عشق میں جاں اپنی پیش کرنے کا
جنہیں بھی آیا تھا ان کو ہی دھیان اس کا تھا

پھر اس کے بعد کوئی بات بھی ضروری نہ تھی
مرے خلاف سہی وہ بیان اس کا تھا

ہوا نے اب کے جلائے چراغ رستے میں
کہ میری راہ میں عادل مکان اس کا تھا

(تاجدار عادل)
 

عین عین

لائبریرین
غزل۔۔۔۔۔۔ کاشف حسین غائر

دن کہاں‌ اب وہ مزے داری کے دن
کاٹتا ہوں‌ گھر میں‌بے کاری کے دن

کس لیے یہ خواہشِ ترکِ سفر۔۔۔۔
اور وہ بھی عین تیاری کے دن

دھوپ میں‌بیٹھی ہوئی روتی تھی دھوپ
حشر برپا تھا شجر کاری کے دن

دل کو دنیا کی ضرورت پڑ گئی
ایک دن، اپنی طرف داری کے دن

اب تو کاٹے سے نہیں‌کٹتا ہے وقت
کیا ہوئے وہ تیز رفتاری کے دن

میں‌تو آوازوں‌ میں‌ بٹ کر رہ گیا
خوش کہاں‌ آئے صدا کاری کے دن

سوچتے ہیں دن ہی کتنے رہ گئے
یہ ہماری ناز برداری کے دن
 

کاشفی

محفلین
غزل - ولی دکنی

غزل
(ولی دکنی)

کِیا مجھ عشق کوں ظالم نے آب آہستہ آہستہ
کہ آتش گل کوں کرتی ہے گلاب آہستہ آہستہ

وفاداری نے دلبر کی بجھایا آتش غم کوں
کہ گرمی دفع کرتا ہے گلاب آہستہ آہستہ

عجب کچھ لطف رکھتا ہےشب خلوت میں گل رو سوں
خطاب آہستہ آہستہ ، جواب آہستہ آہستہ

مرے دل کوں کِیا بیخود تری انکھیاں نے آخر کوں
کہ جیوں بے ہوش کرتی ہے شراب آہستہ آہستہ

ہوا تجھ عشق سوں‌اے آتش رو دلِ مرا پانی
کہ جیوں گلتا ہے آتش سوں گلاب آہستہ آہستہ

ادا و ناز سوں آتا ہے وہ روشن جبیں گھر سوں
کہ جیوں مشرق سے نکلے آفتاب آہستہ آہستہ

ولی مجھ دل میں آتا ہے خیالِ یار بے پروا
کہ جیوں آنکھوں میں آتا ہے خواب آہستہ آہستہ
 

شاہ حسین

محفلین
لازم کہاں کہ سارا بدن خوش لباس ہو
میلا بدن پہن کہ نہ اتنا اُداس ہو

اتنا نہ پاس آ کہ تجھے ڈھونڈتے پھریں
اتنا نہ دور جا کہ ہمہ وقت پاس ہو

ایک جوئے بےقرار ہو کیوں دلکشی تری
کیوں اتنا تشنہ لب مری آنکھوں کی پیاس ہو

پہنادے چاندنی کو قبا اپنے جسم کی
اُس کا بدن بھی تیری طرح بے لباس ہو

رنگوں کی قتل گہ میں کبھی توبھی آکےدیکھ
شاید کہ رنگِ زخم کوئی تجھ کو راس ہو

میں بھی ہوائے صُبح کی صورت پھروں سَدا
شامل گلوں کی باس میں گر تیری باس ہو

آئے وہ دن کہ کشتِ فلک ہو ہری بھری
بنجر زمیں پہ میلوں تلک سرسبز گھاس ہو​

وزیر آغا
 

محمداحمد

لائبریرین
شکستہ کھڑکیاں، چُپ سیڑھیاں مکانوں کی

غزل

شکستہ کھڑکیاں، چُپ سیڑھیاں مکانوں کی
سُنا رہیں ہیں کہانی گئے زمانوں کی

اکیلے پیاس کے مارے درخت کے پتّے
زبانیں نکلی ہوئی، جیسے بے زبانوں کی

تمام نقشِ قدم چھپ گئے ہیں مٹی میں
ملی ہے خاک میں تقدیر خاندانوں کی

اُداس جھاڑیاں، اینٹوں سے منہ نکا لے ہوئے
نشانیاں ہیں یہی، چند بے نشانوں کی

یہ اُونچی نیچی چھتوں کے بغیر دیواریں
زمیں پہ لکھی کہانی ہے آسمانوں کی

منظر بخاری
 

محمداحمد

لائبریرین
بتا کہ راہِ وفا میں کوئی سوار دیکھا

غزل

بتا کہ راہِ وفا میں کوئی سوار دیکھا
کہا کہ میں نے تو صرف اُڑتا غبار دیکھا

بتاؤ پتھر بنے ہو دیکھے گا کون تم کو
کہا کہ جس نے چٹان میں شاہکار دیکھا

بتاؤ نشّہ جو سب کو نشّے میں چُور کر دے
کہا محبت میں صرف ایسا خمار دیکھا

بتا کہ آنکھوں میں شکل کیوں ایک ہی بسی ہے
کہا کہ چہرہ جو ایک ہی بار بار دیکھا

بتا پسِ چشمِ نیلگوں کا کوئی نظارہ
کہا لگا جیسے آسمانوں کے پار دیکھا

بتا کہ اُس کی نظر جھکی تو عدیم کیسے
کہا کہ اُس کی شکست میں بھی وقار دیکھا

عدیم ہاشمی
 

محمداحمد

لائبریرین
غزل

یہ تو آئینِ گلستاں ہے بدل سکتا نہیں
ٹہنیوں میں زہر ہو تو پیڑ پھل سکتا نہیں

آئینے میں عکس ہے اُس کی امانت ، اور میں
کر نہیں سکتا خیانت ، آنکھ مل سکتا نہیں

میں فقط شب کا نہیں ، دن کا مسافر بھی تو ہوں
چاند میرے ساتھ اتنی دیر چل سکتا نہیں

استقامت مانگتا ہے پُل صراطِ دوستی
ڈگمگا جاتا ہے جو پھر وہ سنبھل سکتا نہیں

سنگ میں سوراخ کردیتا ہے پانی کا وجود
حدّتِ خورشید سے پتھر پگھل سکتا نہیں

وہ پرندہ کیا اُڑے گا وسعتوں کی کھوج میں
آشیاں تک سے جو مرضی سے نکل سکتا نہیں

ہو نہ مشّاقی اگر غوّاص کے اطوار میں
کوئی موتی بحر کی تہہ سے اُچھل سکتا نہیں

کھینچ کر دل لے گئی فیروز، شاہیں کی ادا
کہ عطا کردہ غذاؤں پر وہ پل سکتا نہیں

محمد فیروز شاہ
 

محمداحمد

لائبریرین
وہ سراپا سامنے ہے استعارے مسترد

غزل

وہ سراپا سامنے ہے استعارے مسترد
چاند، جگنو ، پھول ، خوشبو اور ستارے مسترد

تذکرہ جن میں نہ ہو اُن کے لب و رُخسار کا
ضبط وہ ساری کتابیں ، وہ شمارےمسترد

کشتیءجاں کا ہے رشتہ جب کسی طوفان سے
سب جزیرے رائیگاں، سارے کنارے مسترد

اُس کی خوشبو ہم سفر راہِ مسافت میں ہو گر
خواب ، منظر ، رہ گزر دریا ،شرارے مسترد

جب کوئی بوئے وفا ان میں نہیں باقی رہی
ساری سوغاتیں تمھاری، خط تمھارے مسترد

خاک و خوں کا دیکھنا ہی جب مقدّر ہے ظفر
زندگی کے رنگ سارے، سب نظارے مسترد

ظفر اقبال ظفر
 

محمداحمد

لائبریرین
نظر شکار ، شکستہ، لہو لہو مجھے دیکھ

غزل

نظر شکار ، شکستہ، لہو لہو مجھے دیکھ
تلاشِ ذات میں نکلا تھا سُرخرو مجھے دیکھ

میں کائنات کی تاریکیوں میں شعلہ بجاں
کس اضطراب میں پھرتا ہوں کُو بہ کُو مجھے دیکھ

مرے خرابۂ احوال کی نمو پہ نہ جا
لہو کی شبنمی نزہت سے باوضو مجھے دیکھ

مرا وجود غریقِ وجودِ کل ہے ابھی
مرے زمانۂ فردا پسِ نمو مجھے دیکھ

بکھر نہ جاؤں شگفتِ انا کے ساتھ کہیں
میں کھل رہا ہوں سرِ شاخِ آرزو مجھے دیکھ

نہ جانے کتنے زمانوں سے انتظار میں ہوں
کبھی تو چہرۂ نیرنگ رو برو مجھے دیکھ

وفا چشتی
 

کاشفی

محفلین
خواتین و حضرات کی خوبصورت و دلفریب بصارتوں کی نظر ایک غزل ۔۔۔ :)

غزل
(ولی دکنی)

ترا لب دیکھ حیواں یاد آوے
ترا مُکھ دیکھ کنعاں یاد آوے

ترے دو نین جب دیکھوں نظر بھر
مجھے تب نرگستاں یاد آوے

تری زلفاں کی طولانی کوں دیکھے
مجھے لیلِ زمستاں یاد آوے

ترے خط کا زمرد رنگ دیکھے
بہارِ سنبلستاں یاد آوے

ترے مُکھ کے چمن کے دیکھنے کوں
مجھے فردوس رضواں یاد آوے

تری زلفاں میں یومُکھ جو دیکھے
اُسے شمعِ شبستاں یاد آوے

جو میرے حال کی گردش کوں دیکھے
اُسے گردابِ گرداں یاد آوے

جو کُئی دیکھے میرے انکھیاں کو روتے
اُسے ابرِ بہاراں یاد آوے

ولی میرا جنوں جو کُئی کہ دیکھے
اُسے کوہ و بیاباں یاد آوے

آپ سب کو یہ غزلاں پسند آوے تو
شکریہ کا بٹن کلک کراں۔۔۔ :grin:


ولی دکنی صاحب کے زمانہ کے چند الفاظ

قدیم لفظ / جدید لفظ

کوں / کو
سوں / سے
انکھیاں / آنکھیں
جیوں / جیسے
تجھ / تیرا، تیرے
آدَرَس/ نصیحت (آدرش: ہندی)
باج / بغیر
باتاں / باتیں
بَرجا / بجا، درست
نُئیں / نہیں
اُپُس / آپس، اپنی
مُکھ / منہ
زلفاں / زلفیں
یو / یہ
کُئی / کوئی
 

شاہ حسین

محفلین
بسمل کرشن اشک

من میں جوت جگانے والے تیاگ گئے یہ ڈیرا جوگی
اتّر دکھّن ، پورب پچّھم چاروں اور اندھیرا جوگی

دوارے دوارے الکھ جگانے کو تو ساری عمر پڑی ہے
سیج سجی دوچار گھڑی کو کرلے رین بسیرا جوگی

اس گھر میں ایک کورا آنچل روتے روتے بھیگ چلا ہے
بُھولے ہی سے سہی کبھی تو مار ادھر بھی پھیرا جوگی

پاؤں پاؤں مڑتی پگڈنڈی آنکھ جھپکتے ڈس لیتی ہے
جیون کی ناگن کس کے بس ، اس کا کون سپیرا جوگی

یہ بھبھوت کس کی پلکوں کس کے بالوں کی پرچھائیں ہے
تیرے صاف سفید جسم پر کس نے رنگ بکھیرا جوگی

کان میں کنڈل ، کڑا ہاتھ میں ، لمبے بال گھنگروں والے
تیرے تن کے چار چھپیرے کس کا جوگن ڈیرا جوگی

جس نے مجھ کو گھر بخشا ہے اور آوارہ گردی تجھ کو
اس کی راہ گزر کس گھر سے کس رستے پر ڈیرا جوگی

ہر رخ پر پرچھائیں کسی کی ہر چہرے پر عکس کسی کا
چلتے پھرتے بازاروں میں کیا تیرا کیا میرا جوگی​

بسمل کرشن اشک
 

محمداحمد

لائبریرین
میں بزمِ تصّور میں اُسے لائے ہوئے تھا

غزل

میں بزمِ تصوّر میں اُسے لائے ہوئے تھا
جو ساتھ نہ آنے کی قسم کھائے ہوئے تھا

دل جرمِ محبت سے کبھی رہ نہ سکا باز
حالاں کہ بہت بار سزا پائے ہوئے تھا

ہم چاہتے تھے، کوئی سُنے بات ہماری
یہ شوق ہمیں گھر سے نکلوائے ہوئے تھا

ہونے نہ دیا خود پہ مسلّط اُسے میں نے
جس شخص کو جی جان سے اپنائے ہوئے تھا

بیٹھے تھے شعور آج مرے پاس وہ گُم صم
میں کھوئے ہوئے تھا نہ اُنہیں پائے ہوئے تھا

انور شعورؔ
 

الف عین

لائبریرین
محمد علوی
شانتی کی دوکانیں کھولی ہیں
فاختائیں کہاں کی بھولی ہیں

کیسی چپ سادھ لی ہے کووں نے
جیسے بس کوئیلیں ہی بولی ہیں

رات بھی اب اُدھم مچائیں گی
خواہشیں دن میں خوب سو لی ہیں

چل پڑے ہیں کٹے پھٹے جذبے
حسرتیں ساتھ ساتھ ہو لی ہیں

کون قاتل ہے، کیا پتہ چلتا
سب نے اپنی عبائیں دھو لی ہیں

شعر ہوتے نہیں تو علوی نے
خون میں انگلیاں ڈبو لی ہیں
 

الف عین

لائبریرین
شاذ تمکنت
تو کیا لگے ہے مجھے، کیوں بھلا لگے ہے مجھے
میں رو برو ہوں کہ تو آئینہ لگے ہے مجھے

گھٹائیں آنے لگیں دوریوں کے جنگل سے
گھنیری شام ہے، ٹھنڈی ہوا لگے ہے مجھے

اتر چلی ہے رگ و پے میں منزلوں کی تھکن
ہر ایک پیڑ کا سایہ گھنا لگے ہے مجھے

یہی تو ہے جسے سجدہ کیا ملائک نے
کوئ یہ بات کہے تو حیا لگے ہے مجھے

برائیاں تری دیکھی نہیں ہیں دنیا نے
ترے مزاج کا یہ رخ بھلا لگے ہے مجھے

بجز اعادۂ پیہم وفا کچھ اور نہیں
کہ ہر سخن ترے منہ سے نیا لگے ہے مجھے

نفس جرس ہے، نظر رہنما، قدم منزل
اکیلا شخص بھی اک قافلہ لگے ہے مجھے

چھِڑا ہوا ہے کوئ راگ زیرِ پیراہن
تمام سازِ بدن گونجتا لگے ہے مجھے

گریباں گیر ہیں ہر لفظ سے معانی شاذؔ
میں شکر کرتا ہوں لیکن گلہ لگے ہے مجھے
 

محمد وارث

لائبریرین
یہ کس مقام پہ ٹھہرا ہے کاروانِ وفا - رضا ہمدانی

یہ کس مقام پہ ٹھہرا ہے کاروانِ وفا
نہ روشنی کی کرن ہے کہیں، نہ تازہ ہوا

ہوئی ہے جب سے یہاں نطق و لب کی بخیہ گری
سوائے حسرتِ اظہار دل میں کچھ نہ رہا

اس اہتمام سے شب خوں پڑا کہ مدّت سے
اجاڑ سی نظر آتی ہے شہرِ دل کی فضا

تمام عمر اسی کی تلاش میں گزری
وہ ایک عکس جو آئینۂ نظر میں نہ تھا

برنگِ غنچہ کوئی لب کشا ہوا نہ کبھی
سدا بھٹکتے رہے ہم مثالِ موجِ صبا

یہ کس نے آج دبے پاؤں دل میں آتے ہی
خیال و فکر کا قفلِ سکوت توڑ دیا

کچھ اس طرح سے تری یاد کی مہک آئی
کہ جیسے دامنِ صحرا میں کوئی پھول کھلا

شکستِ دل پہ رضا ہم بھی ٹوٹ کر روئے
مگر نہ ایسے کہ سو ہی سکے نہ ہمسایہ

(رضا ہمدانی)

----
ماخذ: "فنون" لاہور، جولائی 1963ء
 
Top