فرحت کیانی
لائبریرین
ہمارا کیا ہے، ہم تو چراغِ شب کی طرح
اگر جلے بھی تو بس اتنی روشنی ہو گی
کہ تند اندھیروں کی راہ میں جگنو
ذرا سی دیر کو چمکے، چمک کے کھو جائے
پھر اس کے بعد کسی کو نہ کچھ سجھائی دے۔
نہ شب کٹے نہ سراغِسحر دکھائی دے۔
ہمارا کیا ہے کہ ہم تو پسِ غبارِ سفر
اگر چلے بھی تو بس اتنی راہ طے ہو گی
کہ جیسے تیز ہواؤں کی ذد میں نقشِ قدم
ذرا سی دیر کو اُبھرے، اُبھر کے مٹ جائے
پھر اس کے بعد نہ راستہ نہ راہ گزر ہی ملے۔
حدِ نگاہ تک دشتِ بے کنار ملے۔
ہماری سمت نہ دیکھو کہ کوئی دیر میں ہم
قبیلہء دل و جاں سے بچھڑنے والے ہیں
بسے بسے ہوئے شہر اپنی آنکھوں کے
مثالِ خانہء ویراں اُجڑنے والے ہیں۔
"ہوا کا شور یہی ہے تو دیکھتے رہنا!
ہماری عمر کے خیمے اُکھڑنے والے ہیں۔"
اگر جلے بھی تو بس اتنی روشنی ہو گی
کہ تند اندھیروں کی راہ میں جگنو
ذرا سی دیر کو چمکے، چمک کے کھو جائے
پھر اس کے بعد کسی کو نہ کچھ سجھائی دے۔
نہ شب کٹے نہ سراغِسحر دکھائی دے۔
ہمارا کیا ہے کہ ہم تو پسِ غبارِ سفر
اگر چلے بھی تو بس اتنی راہ طے ہو گی
کہ جیسے تیز ہواؤں کی ذد میں نقشِ قدم
ذرا سی دیر کو اُبھرے، اُبھر کے مٹ جائے
پھر اس کے بعد نہ راستہ نہ راہ گزر ہی ملے۔
حدِ نگاہ تک دشتِ بے کنار ملے۔
ہماری سمت نہ دیکھو کہ کوئی دیر میں ہم
قبیلہء دل و جاں سے بچھڑنے والے ہیں
بسے بسے ہوئے شہر اپنی آنکھوں کے
مثالِ خانہء ویراں اُجڑنے والے ہیں۔
"ہوا کا شور یہی ہے تو دیکھتے رہنا!
ہماری عمر کے خیمے اُکھڑنے والے ہیں۔"