'' ہماری تاریخ ''

عائشہ عزیز

لائبریرین
تمام وزیر میدان میں تیر اندازی کی مشق کر رہے تھے ۔سلطان غیاث الدین بھی ان کے ساتھ شریک تھا ۔ اچانک سلطان کا نشانہ خطا ہوگیااور وہ تیر ایک بیوہ عورت کے بچے کو جا لگا۔اس سے وہ مرگیا۔ سلطان کو پتہ نہ چل سکا۔ وہ عورت قاضی سلطان کی عدالت میں پہنچ گئی ۔ قاضی سراج الدین مے عورت کی طرف متوجہ ہوئے اور پوچھا: '' کیا بات ہے ؟ تم کیوں رو رہی ہو؟ "
عورت نے روتے ہوئے سلطان کے خلاف شکایت لکھوائی '' سلطان کے تیر سے میرابچہ ہلاک ہوگیا ہے ''
قاضی سراج الدین نے عورت کی بات پوری توجہ سے سنی اور پھر اسی وقت سلطان کے نام خط لکھا: '' آپ کے خلاف شکایت آئی ہے۔ فوراً عدالت میں حاضر ہو جائیں اور اپنے خلاف آنے والی شکایت کا جواب دیں ''
پھر یہ حکم عدالت کے ایک پیادے کو دے کر ہدایت کی: '' یہ حکم نامہ فوراً سلطان کے پاس لے جاؤ " پیادے کو یہ حکم دے کر قاضی سراج الدین نے ایک کَوڑا نکالا اور اپنی گدی کے نیچے چھپا دیا۔
پیادہ جب سلطان کے محل میں پہنچا تو اس دیکھا کہ سلطان کو درباریوں نے گھیر رکھا ہے اور قاضی کا حکم نامی سلطان تک پہنچانا مشکل ہے۔ یہ دیکھ کر پیادہ نے اونچی آواز میں اذان دینا شروع کر دی۔
بے وقت اذان سن کر سلطان نے حکم دیا: '' اذان دینے والے کو میرے سامنے پیش کرو '' پیادے کو سلطان کے سامنے پیش کیا گیا۔
سلطان نے گرج کر پوچھا: '' بے وقت اذان کیوں دے رہے تھے ''
'' قاضی سراج الدین نے آپ کو عدالت میں طلب کیا ہے آپ فوراً میرے ساتھ عدالت چلیں '' پیادے نے قاضی صاحب کا حکم نامہ سلطان کو دیتے ہوئے کہا۔
سلطان فوراً اُٹھا۔ ایک چھوٹی سی تلوار اپنی آستین میں چھپالی ۔ پھر پیادے کے ساتھ عدالت پہنچا۔ قاضی صاحب نے بیٹھے بیٹھے مقتول کی ماں اور سلطان کے بیان باری باری سنے پھر فیصلہ سنایا:
'' غلطی سے ہو جانے والے قتل کی وجہ سے سلطان پر کفارہ اور اس کی برادری پر خون کی دیت آئے گی ۔ ہاں اگر مقتول کی ماں مال کی کچھ مقدار پر راضی ہو جائے تو اس مال کے بدلے سلطان کو چھوڑا جا سکتا ہے ''۔
سلطان نے لڑکے کی ماں کو بہت سے مال پر راضی کر لیا پھر قاضی سے کہا :
'' میں نے لڑکے کی ماں کو مال پر راضی کر لیا ہے '' قاضی نے عورت سے پوچھا : '' کیا آپ راضی ہو گئیں ''
'' جی ہاں میں راضی ہو گئی ہوں '' عورت نے قاضی کو جواب دیا ۔
اب قاضی اپنی جگہ سے سلطان کی تعظیم کے لئے اٹھے اور انھیں اپنی جگہ پر بٹھایا۔ سلطان نے بغل سے تلوار نکال کر قاضی سراج الدین کو دیکھاتے ہوئے کہا:
'' اگر آپ میری ذرا سی بھی رعایت کرتے تو میں اس تلوار سے آپ کی گردن اڑا دیتا''
قاضی نے بھی اپنی گدی کے نیچے سے کَوڑا نکال کر سلطان غیاث الدین کو دکھاتے ہوئے کہا:
'' اور اگر آپ شریعت کا حکم ماننے سے ذرا بھی ہچکچاتے تو میں اس کَوڑے سے آپ کی خبر لیتا۔ بےشک یہ ہم دونوں کا امتحان تھا'' ۔
 

محمد وارث

لائبریرین
درست ہے ایسے کئی ایک واقعات ہماری تاریخ میں موجود ہیں۔ مگر ایسے بے شمار واقعے ہماری تاریخ میں ہیں کہ انہی بادشاہوں نے اپنی بادشاہت کیلیے اپنے اپنے، کئی کئی بھائیوں کے گلے کاٹ دیے، خود ٹوپیاں سی کر اور قرآن کی کتابت کر کے اپنا رزق کماتے رہے اور دوسری طرف اپنے بھائیوں بلکہ تخت کے ہر دعوے دار کو نیست و نابود کر دیا اور ہزاروں لاکھوں مسلمانوں کو اپنی تیغ سے بزعمِ خود جہنم واصل کر دیا۔

مذہبی اور سیاسی کردار میں تفاوت کی اس سے بڑی مثالیں ملنا نا ممکن ہیں۔
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
وارث لالہ ایسی باتیں تو میں نے مغل بادشاہوں کے متعلق سنی ہیں:rolleyes:
کیا یہ بھی ایسا کرتے تھے ؟ لگتا تو نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

شمشاد

لائبریرین
یہ ٹوپیاں سی کر اور قرآن کی کتابت کر کے اپنا رزق کمانے والے اور دوسری طرف اپنے بھائیوں کو مروانے والے بھی تو مغل ہی تھے، تم کیا سمجھ رہی ہو۔

آجکل کے دور میں سالے کو مروا دیتے ہیں۔
 

arifkarim

معطل
وارث لالہ ایسی باتیں تو میں نے مغل بادشاہوں کے متعلق سنی ہیں:rolleyes:
کیا یہ بھی ایسا کرتے تھے ؟ لگتا تو نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ “لگنے“ سے کیا مراد ہے؟ ہاں اسوقت آبادی کم تھی، وسائل زیادہ تھے اور حقیقی تھے یعنی سونا چاندی وغیرہ۔ مغرب کی ہوا نہ لگی تھی یوں سود نہیں تھا اور غریبی کم تھی۔ جبھی تو تاج محل جیسے شاہکار تعمیر ہو سکے۔ باقی مغل بھی ظلم و ستم میں پیچھے نہیں رہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
وارث لالہ ایسی باتیں تو میں نے مغل بادشاہوں کے متعلق سنی ہیں:rolleyes:
کیا یہ بھی ایسا کرتے تھے ؟ لگتا تو نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دراصل اقتدار اور طاقت کا نشہ ہی ایسا ہے کہ اسکا مدہوش نہ کسی خونی رشتے کو دیکھتا ہے اور نہ انسانیت کو، بیٹوں کی باپ کے خلاف بغاوت، بھائیوں کی بھائیوں کے خلافت بغاوت اور دشمنوں کے ساتھ مل کر قتل و غارت، سیاسی مخالفین کا مکمل قلع قمع اور وہ بھی مذہب کے نام پر مثلاً انتہائی متشرع اور عبادت گزار مغل بادشاہ اورنگ زیب عالمگیر کا سرمد کو کفر کا فتویٰ لگا کر قتل کروانا جب کہ اس کا اصل قصور یہ تھا کہ وہ اورنگ زیب کے بھائی دارا شکوہ کا حمایتی تھا، اور اورنگ زیب نے دونوں کو نہ چھوڑا بلکہ اپنے بادشاہ باپ شاہجہان کو بھی قید میں ڈال دیا، وغیرہ وغیرہ۔ اور یہ سب کچھ مغلوں کے ساتھ مخصوص نہیں ہے بلکہ ان سے پہلے کی بھی گندی سیاست اور اقتدار کی جنگ ایسی ہی تھی۔

اکبر کے مؤرخ ملا عبدالقادر بدایونی نے اپنی کتاب 'منتخب التواریخ' میں مغلوں سے پہلے کی ایسی صورتحال پر کئی مثالیں لکھی ہیں، بشرطِ فرصت کچھ شیئر کرنے کی کوشش کرونگا۔
 

arifkarim

معطل
دراصل اقتدار اور طاقت کا نشہ ہی ایسا ہے کہ اسکا مدہوش نہ کسی خونی رشتے کو دیکھتا ہے اور نہ انسانیت کو، بیٹوں کی باپ کے خلاف بغاوت، بھائیوں کی بھائیوں کے خلافت بغاوت اور دشمنوں کے ساتھ مل کر قتل و غارت، سیاسی مخالفین کا مکمل قلع قمع اور وہ بھی مذہب کے نام پر مثلاً انتہائی متشرع اور عبادت گزار مغل بادشاہ اورنگ زیب عالمگیر کا سرمد کو کفر کا فتویٰ لگا کر قتل کروانا جب کہ اس کا اصل قصور یہ تھا کہ وہ اورنگ زیب کے بھائی دارا شکوہ کا حمایتی تھا، اور اورنگ زیب نے دونوں کو نہ چھوڑا بلکہ اپنے بادشاہ باپ شاہجہان کو بھی قید میں ڈال دیا، وغیرہ وغیرہ۔ اور یہ سب کچھ مغلوں کے ساتھ مخصوص نہیں ہے بلکہ ان سے پہلے کی بھی گندی سیاست اور اقتدار کی جنگ ایسی ہی تھی۔

اکبر کے مؤرخ ملا عبدالقادر بدایونی نے اپنی کتاب 'منتخب التواریخ' میں مغلوں سے پہلے کی ایسی صورتحال پر کئی مثالیں لکھی ہیں، بشرطِ فرصت کچھ شیئر کرنے کی کوشش کرونگا۔

تو آپکا کیا خیال ہے آجکل کے دور میں طاقت کی حوس ختم ہو گئی ہے؟ میرے تو خیال میں آجکل کے دور میں طاقت کی حوس پہلے سے کئی ہزار گنا بڑھ گئی ہے۔ کیونکہ پرانے وقتوں میں حکومتیں بادشاہ کی تخت پوشی سے شروع ہو کر اسکی بزرگی یا انتقال تک پہنچ کر ختم ہو جاتی تھیں۔ جبکہ آجکل جمہوریت کے توسط سے ہر چار سال بعد ایسا ہوتا ہے۔ یوں نئی تخت پوشی پر ہونے والے اخراجات پر ہی سارا قومی سرمایہ ضائع کر دیا جاتا ہے۔ تو قوم کی ترقی کیونکر ممکن ہے؟
 

محمد وارث

لائبریرین
تو آپکا کیا خیال ہے آجکل کے دور میں طاقت کی حوس ختم ہو گئی ہے؟

تو کیا آپ کو میری کسی بھی پوسٹ سے ایسا لگا کہ میں نے ایسے کسی خیال کا اظہار کیا ہے، سوچ کر جواب دیجیئے۔

--------
معذرت کے ساتھ، یہ لفظ 'ہوس' ہے۔
 

arifkarim

معطل
کہنے کا مطلب صرف سے یہ تھا انسان کی تاریخی سیاسی غلطیاں آج بھی قائم ہیں۔ بلکہ بدتر ہو گئی ہیں۔ البتہ سائنسی اور تکنیکی غلطیوں کا صفایا ہو رہا۔ پس ہمارے تمام مسائل کا حل سائنسی و اخلاقی ہے۔ نہ کہ سیاسی۔
 
Top