محمد خلیل الرحمٰن
محفلین
ہماری شاعری اور اصلاح کا احوالِ واقعی
( سید ذیشان بھائی کے عروضی انجن پر بے لاگ تبصرہ)
شاعری اور ہمارا چولی دامن کا ساتھ رہا ہے۔ جس طرح چولی کا دامن عنقا ہوتا ہے اسی طرح ہماری تُک بندی میں شاعری کا عنصر بھی مفقود ہوتا ہے۔رہی سہی کسر اردو محفل پر ہمارے کرم فرماؤں نے عروض پر زور دے دے کر پوری کردی۔ اگر ہم علم عروض جانتے ہوتے تو کاہے کو گانوں سے شغل رکھتے اور غسل خانے میں گانوں کی دھن پر غزلیں جوڑا کرتے۔
اس تمام صورتِ احوال کے باوجود جانے کب اور کِس طرح ہمیں یہ یقین ہوگیا کہ ہم نہ صرف شاعری جانتے ہیں بلکہ دیگر شاعروں کی وزن و اخلاق سے گری ہوئی شاعری کی اصلاح بھی کرسکتے ہیں۔ کچھ کربیٹھنے( گزرنے)کے اسی جذبے کے تحت ایک دِن ہم نے شاعری سیکھنے کا بنیادی قاعدہ لکھ مارا۔اس قصے کی وجہِ تسمیہ اور بن لکھی رزمیہ کچھ یوں ہے کہ اردو کی کچھ بنیادی کتابیں ہم نے دوسروں کی نظروں سے چھپاکر الگ رکھ چھوڑی ہیں جنھیں گاہے بگاہے دیکھ لیتے ہیں۔ ان کتابوں میں ابنِ انشا کی طرز پر لکھی ہوئی مولانا محمد حسین آزاد کی ’’ اردو کی پہلی کتاب‘‘ اور بچوں کے رسالے’’ پھول‘‘ کے گزشتہ سالوں کے شماروں کا انتخاب شامل ہے۔ چھپا کر یوں رکھی ہیں کہ مبادا کوئی دیکھ لے اور شور مچائے کہ ’’ لینا بھئی ! یہ ہیں خلیل صاحب جو خود کو اپنے تئیں شاعر گردانتے ہیں ، اور حال یہ ہے کہ ابھی اردو کی پہلی کتاب سے ہی فارغ التحصیل نہیں ہوپائے۔
ایک دن بیگم نے گھر کی حالت زار اور ردی والے پر رحم کھاتے ہوئے کچھ کتابیں نکالیں تو انہیں دیکھ کر ہم چونک اٹھے کہ یہی تو وہ بنیادی کتابیں تھیں جو ہمارے لیے حصول علم کا ذریعہ تھیں۔ ہم نے چُپ چاپ انہیں بغل میں دبوچا اور غسل خانے کی راہ لی کہ پرسکون مطالعے کی اب یہی ایک جگہ رہ گئی ہے۔
اردوکی پہلی کتاب کھولی تو ایک عجب ماجرا ہوا۔کئی نظموں پر گانوں کا گماں ہوا۔ ہم نے فوراً ان گانوں کی دھن میں ان نظموں کو گنگنانا شروع کردیا۔ لو انڈ بی ہولڈ۔ خدا کی کرنی ، ایک عروضی انجن تیار ہوگیا اور ہم نے اسے ’’ شاعری کا بنیادی قاعدہ‘‘ کے نام سے محفل پر شایع کردیا اور اسی فامولے کے تحت اپنی اور دیگر محفلین کی شاعری کی اصلاح کرنے لگے۔
کچھ دنوں سے محفل پر ایک کرم فرما کے عروض انجن کا بہت تذکرہ ہے۔سنا ہے استادوں سے بڑھکر استادی کے داؤں پیچ جانتا ہے ۔ اب جب کہ اس پروگرام کے سامنے استادوں کی بھی ایک نہیں چلنی تو ہم کس کھیت کی مولی ہیں جو اس کے سامنے ٹھہر پائیں گے۔ بھائی ذیشان تو ہمارے مستقل کے خوابوں کے بھی درپے ہیں، بلکہ درپئے آزار ہیں۔ ہم نے تو سوچ رکھا تھا کہ ڈھلتی عمر میں
کے مصداق یہی ہنر لے کر بیٹھ رہیں گے اور آتے جاتے لوگوں کو شاعری سِکھایا کریں گے، مگر بھلا ہو ان پروگرامر صاحب کا کہ جنھوں نے یہ پروگرام بناتے وقت یہ بھی نہ سوچا کہ اس مشین کے ہوتے ہم انسانوں کی کیا وقعت رہ جائے گی کہ شاعری سکھائیں۔ لوگ باگ بازار سے پچاس روپے میں اس پروگرام کی سی ڈی مول لے آئیں گے اور بیٹھے غزلیں جوڑا کریں گے۔
وا حسرتا ! کہ ہمارے مستقبل کے خواب کچی مٹی کے گھروندوں کی طرح ٹوٹ گئے۔ نہ ہوئی قرولی، ہمارا مطلب ہے کہ نہ ہوئے ہم ایک پروگرامر کہ ذیشان بھائی کے پروگرام کے جواب میں ایک عروضی انجن بستہ ب بناتے کہ جس میں دیگر اصنافِ سخن کے ساتھ ساتھ نثری نظم ( فاتح بھائی کے مشوروں کے ساتھ) کی اصلاح کے علاوہ علامتی افسانے کی اصلاح کا عنصر بھی شامل کرتے۔
اب ذرا لگے ہاتھوں استادانِ محفل کا تذکرہ بھی ہو ہی جائے۔ کس کس طرح یہ ظالم اصحاب نو واردانِ بساطِ ہوائے دل یعنی نوزایدہ، نوآموز اور نووارد شاعروں کی مٹی پلید کرتے تھے۔ کبھی کسی پر یہ الزام کہ ’نرگس‘ لکھنا بھی نہیں آتا اور اس لفظ کو بالالتزام ’نرگھس‘ لکھ رہے ہیں، کبھی کچھ اورالزام اور کبھی کچھ اور۔
ذیشان بھائی کے عروضی انجن نے ہمارے کھوکھے کو بند کیا ہی تھا،ان اونچی دکانوں پر بھی گویا شب خون ماردیا۔ وہ دن اور آج کا دن ، ان استادوں کو کوئی پوچھ بھی نہیں رہا۔ دہائی ہے دہائی۔
( سید ذیشان بھائی کے عروضی انجن پر بے لاگ تبصرہ)
شاعری اور ہمارا چولی دامن کا ساتھ رہا ہے۔ جس طرح چولی کا دامن عنقا ہوتا ہے اسی طرح ہماری تُک بندی میں شاعری کا عنصر بھی مفقود ہوتا ہے۔رہی سہی کسر اردو محفل پر ہمارے کرم فرماؤں نے عروض پر زور دے دے کر پوری کردی۔ اگر ہم علم عروض جانتے ہوتے تو کاہے کو گانوں سے شغل رکھتے اور غسل خانے میں گانوں کی دھن پر غزلیں جوڑا کرتے۔
اس تمام صورتِ احوال کے باوجود جانے کب اور کِس طرح ہمیں یہ یقین ہوگیا کہ ہم نہ صرف شاعری جانتے ہیں بلکہ دیگر شاعروں کی وزن و اخلاق سے گری ہوئی شاعری کی اصلاح بھی کرسکتے ہیں۔ کچھ کربیٹھنے( گزرنے)کے اسی جذبے کے تحت ایک دِن ہم نے شاعری سیکھنے کا بنیادی قاعدہ لکھ مارا۔اس قصے کی وجہِ تسمیہ اور بن لکھی رزمیہ کچھ یوں ہے کہ اردو کی کچھ بنیادی کتابیں ہم نے دوسروں کی نظروں سے چھپاکر الگ رکھ چھوڑی ہیں جنھیں گاہے بگاہے دیکھ لیتے ہیں۔ ان کتابوں میں ابنِ انشا کی طرز پر لکھی ہوئی مولانا محمد حسین آزاد کی ’’ اردو کی پہلی کتاب‘‘ اور بچوں کے رسالے’’ پھول‘‘ کے گزشتہ سالوں کے شماروں کا انتخاب شامل ہے۔ چھپا کر یوں رکھی ہیں کہ مبادا کوئی دیکھ لے اور شور مچائے کہ ’’ لینا بھئی ! یہ ہیں خلیل صاحب جو خود کو اپنے تئیں شاعر گردانتے ہیں ، اور حال یہ ہے کہ ابھی اردو کی پہلی کتاب سے ہی فارغ التحصیل نہیں ہوپائے۔
ایک دن بیگم نے گھر کی حالت زار اور ردی والے پر رحم کھاتے ہوئے کچھ کتابیں نکالیں تو انہیں دیکھ کر ہم چونک اٹھے کہ یہی تو وہ بنیادی کتابیں تھیں جو ہمارے لیے حصول علم کا ذریعہ تھیں۔ ہم نے چُپ چاپ انہیں بغل میں دبوچا اور غسل خانے کی راہ لی کہ پرسکون مطالعے کی اب یہی ایک جگہ رہ گئی ہے۔
اردوکی پہلی کتاب کھولی تو ایک عجب ماجرا ہوا۔کئی نظموں پر گانوں کا گماں ہوا۔ ہم نے فوراً ان گانوں کی دھن میں ان نظموں کو گنگنانا شروع کردیا۔ لو انڈ بی ہولڈ۔ خدا کی کرنی ، ایک عروضی انجن تیار ہوگیا اور ہم نے اسے ’’ شاعری کا بنیادی قاعدہ‘‘ کے نام سے محفل پر شایع کردیا اور اسی فامولے کے تحت اپنی اور دیگر محفلین کی شاعری کی اصلاح کرنے لگے۔
کچھ دنوں سے محفل پر ایک کرم فرما کے عروض انجن کا بہت تذکرہ ہے۔سنا ہے استادوں سے بڑھکر استادی کے داؤں پیچ جانتا ہے ۔ اب جب کہ اس پروگرام کے سامنے استادوں کی بھی ایک نہیں چلنی تو ہم کس کھیت کی مولی ہیں جو اس کے سامنے ٹھہر پائیں گے۔ بھائی ذیشان تو ہمارے مستقل کے خوابوں کے بھی درپے ہیں، بلکہ درپئے آزار ہیں۔ ہم نے تو سوچ رکھا تھا کہ ڈھلتی عمر میں
روٹی تو کسی طور کما کھائے مچھندر
کے مصداق یہی ہنر لے کر بیٹھ رہیں گے اور آتے جاتے لوگوں کو شاعری سِکھایا کریں گے، مگر بھلا ہو ان پروگرامر صاحب کا کہ جنھوں نے یہ پروگرام بناتے وقت یہ بھی نہ سوچا کہ اس مشین کے ہوتے ہم انسانوں کی کیا وقعت رہ جائے گی کہ شاعری سکھائیں۔ لوگ باگ بازار سے پچاس روپے میں اس پروگرام کی سی ڈی مول لے آئیں گے اور بیٹھے غزلیں جوڑا کریں گے۔
وا حسرتا ! کہ ہمارے مستقبل کے خواب کچی مٹی کے گھروندوں کی طرح ٹوٹ گئے۔ نہ ہوئی قرولی، ہمارا مطلب ہے کہ نہ ہوئے ہم ایک پروگرامر کہ ذیشان بھائی کے پروگرام کے جواب میں ایک عروضی انجن بستہ ب بناتے کہ جس میں دیگر اصنافِ سخن کے ساتھ ساتھ نثری نظم ( فاتح بھائی کے مشوروں کے ساتھ) کی اصلاح کے علاوہ علامتی افسانے کی اصلاح کا عنصر بھی شامل کرتے۔
اب ذرا لگے ہاتھوں استادانِ محفل کا تذکرہ بھی ہو ہی جائے۔ کس کس طرح یہ ظالم اصحاب نو واردانِ بساطِ ہوائے دل یعنی نوزایدہ، نوآموز اور نووارد شاعروں کی مٹی پلید کرتے تھے۔ کبھی کسی پر یہ الزام کہ ’نرگس‘ لکھنا بھی نہیں آتا اور اس لفظ کو بالالتزام ’نرگھس‘ لکھ رہے ہیں، کبھی کچھ اورالزام اور کبھی کچھ اور۔
ہمیں اپنا نہیں استادِ والا، غم تمہارا ہے
کہ تم کس پر ستم فرماؤ گے جب ہم نہیں ہوں گے
کہ تم کس پر ستم فرماؤ گے جب ہم نہیں ہوں گے
ذیشان بھائی کے عروضی انجن نے ہمارے کھوکھے کو بند کیا ہی تھا،ان اونچی دکانوں پر بھی گویا شب خون ماردیا۔ وہ دن اور آج کا دن ، ان استادوں کو کوئی پوچھ بھی نہیں رہا۔ دہائی ہے دہائی۔
اسی دن کو تو قتلِ شاعراں سے منع کرتے تھے
اکیلے پھر رہے ہو مصلحِ بے شاعراں ہو کر
اکیلے پھر رہے ہو مصلحِ بے شاعراں ہو کر
آخری تدوین: