محمد خلیل الرحمٰن
محفلین
اتوار کی صبح آنکھ کھلتے ہی یہ خیالِ جانفزا مشام جاں کو معطر کرنے کے لیے کافی ہے کہ آج چھٹی ہے، فوراً رگِ شرارت پھڑک اٹھتی ہے۔ آج بھی یہی ہوا۔ عصرِ حاضر کے نامور اور مستند شاعر ڈاکٹر خورشید رضوی کی مندرجہ ذیل غزل باصرہ نواز ہوئی تو ان کی غزل پر بھی اپنی 'صلاح' دینے کی سوجھی، حالانکہ حال ہی میں ایک بزعمِ خود شاعر کے ہاتھوں اپنی بھد اّڑوا چکے! بہر حال ذہنی رو بہک گئی سو بہک گئی۔
ڈاکٹر صاحب نے شاید بحر "مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن" کے ساتھ ایک خوبصورت تجربہ کرتے ہوئے یہ غزل کہی ہے (اساتذہ بہتر خیال آرائی کرسکتے ہیں) ، ادھر ہم بھی غالب کے خط کو منظوم کر چکے ہیں، لہذا قلم اٹھایا اور ڈاکٹر خورشید رضوی کی غزل کو واپس "مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن" میں لا نے کی سعی کرڈالی۔ کہاں تک کامیاب ہوپائے یہ اساتذہ و دیگر محفلین جانیں۔
ہمیں رکھتی ہے یوں قیدِ مقام آزردہ آزردہ
کہ جیسے تیغ کو رکھّے نیام آزردہ آزردہ
ہے جانے کس لئے ماہِ تمام آزردہ آزردہ
کھڑا ہے دیر سے بالائے بام آزردہ آزردہ
گریباں چاک کر لیتی ہیں کلیاں بھی یہ سّن سُن کر
ہوائے صبح لاتی ہے پیام آزردہ آزردہ
بتا اے زندگی یہ کون سی منزل پہ لے آئی
ہے خواب آنکھوں سے اور لب سے کلام آزردہ آزردہ
یہ خاکِ سُست رَو اس کے ہیں اپنے عنصرِ خاکی
نہ ہو اس سے ہوائے تیز گام آزردہ آزردہ
گری ہے تاک پر شاید چمن میں آج ہی بجلی
پڑے ہیں سر نگوں مینا و جام آزردہ آزردہ
غزل کس بحر میں خورشیدؔ کی میں نے بنا ڈالی
نہ کر محفل کو یوں اے کج خرام آزردہ آزردہ
ڈاکٹر صاحب نے شاید بحر "مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن" کے ساتھ ایک خوبصورت تجربہ کرتے ہوئے یہ غزل کہی ہے (اساتذہ بہتر خیال آرائی کرسکتے ہیں) ، ادھر ہم بھی غالب کے خط کو منظوم کر چکے ہیں، لہذا قلم اٹھایا اور ڈاکٹر خورشید رضوی کی غزل کو واپس "مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن" میں لا نے کی سعی کرڈالی۔ کہاں تک کامیاب ہوپائے یہ اساتذہ و دیگر محفلین جانیں۔
غزل
ہمیں رکھتی ہے یوں قیدِ مقام آزردہ
کہ جیسے تیغ کو رکھّے نیام آزردہ
ہے جانے کس لئے ماہِ تمام آزردہ
کھڑا ہے دیر سے بالائے بام آزردہ
گریباں چاک کر لیتی ہیں کلیاں سُن کر
ہوائے صبح لاتی ہے پیام آزردہ
بتا اے زندگی یہ کون سی منزل ہے
ہے خواب آنکھوں سے اور لب سے کلام آزردہ
یہ خاکِ سُست رَو اس کے ہیں اپنے عنصر
نہ ہو اس سے ہوائے تیز گام آزردہ
گری ہے تاک پر شاید چمن میں بجلی
پڑے ہیں سر نگوں مینا و جام آزردہ
غزل کس بحر میں خورشیدؔ یہ لکھ ڈالی
نہ کر محفل کو یوں اے کج خرام آزردہ
خورشید رضوی
ہمیں رکھتی ہے یوں قیدِ مقام آزردہ آزردہ
کہ جیسے تیغ کو رکھّے نیام آزردہ آزردہ
ہے جانے کس لئے ماہِ تمام آزردہ آزردہ
کھڑا ہے دیر سے بالائے بام آزردہ آزردہ
گریباں چاک کر لیتی ہیں کلیاں بھی یہ سّن سُن کر
ہوائے صبح لاتی ہے پیام آزردہ آزردہ
بتا اے زندگی یہ کون سی منزل پہ لے آئی
ہے خواب آنکھوں سے اور لب سے کلام آزردہ آزردہ
یہ خاکِ سُست رَو اس کے ہیں اپنے عنصرِ خاکی
نہ ہو اس سے ہوائے تیز گام آزردہ آزردہ
گری ہے تاک پر شاید چمن میں آج ہی بجلی
پڑے ہیں سر نگوں مینا و جام آزردہ آزردہ
غزل کس بحر میں خورشیدؔ کی میں نے بنا ڈالی
نہ کر محفل کو یوں اے کج خرام آزردہ آزردہ
آخری تدوین: