ہماری پہلی کوشش۔ برائے اصلاح و تبصرہ

یہ ہماری پہلی کوشش ہے،اس لیے اس میں بہت سی خامیاں ہوں گی۔ اساتذہ سے اصلاح ومشورہ مطلوب ہے۔

در پئے عرضِ حال ہیں ہم لوگ
لا جواب اِک سوال ہیں ہم لوگ

یوں تو بس اک حقیر ذرہ ہیں
تم کہو تو کمال ہیں ہم لوگ

غیر ہم سے دبے ہی بیٹھے ہیں
اپنے لوگو! نڈھال ہیں ہم لوگ

کیا کہا تھا کہ چھوڑ جاؤ گے؟
سوچ لو خال خال ہیں ہم لوگ

جس نے ہم سے قرار چھینا تھا
خوش ہے وہ پر ملال ہیں ہم لوگ

ہم سے مجنوں کی بات کرتے ہو
اس کی خاطر مثال ہیں ہم لوگ

نے عمل، نے قیامِ آخر شب
اور بس قیل و قال ہیں ہم لوگ
 
آخری تدوین:
بہت اچھی کوشش ہے. اساتذہ رہنمائی فرمائیں گے ان شاء اللہ
ایک بات جو نوٹ کی ہے وہ یہ کہ ردیف والے مصرعوں کا الگ وزن ہے اور پہلے مصرعوں کا الگ. :)
 
آپ کے ردیف والے مصرعوں کا وزن
فاعلاتن مفاعلن فع ہے
اور بغیر ردیف والے مصرعوں کا وزن
فاعلاتن مفاعلن فعلن ہے

اب اس میں کیا، کیسے اور کیونکر کیا جا سکتا ہے، اس پر رائے دینے کا اہل نہیں.
خود غور کیجیے اور اساتذہ کی رہنمائی کا انتظار. :)
 
آپ کے ردیف والے مصرعوں کا وزن
فاعلاتن مفاعلن فع ہے
اور بغیر ردیف والے مصرعوں کا وزن
فاعلاتن مفاعلن فعلن ہے
تابش بھائی درست فرما رہے ہیں۔ اور اس مسئلے کا حل بھی سیدھا سا ہے۔ آپ ردیف کو 'ہیں ہم' کی بجائے 'ہیں ہم لوگ' کر دیجیے۔
غزل اچھی ہے، ماشاءاللہ۔ پسند آئی۔
 
تابش بھائی درست فرما رہے ہیں۔ اور اس مسئلے کا حل بھی سیدھا سا ہے۔ آپ ردیف کو 'ہیں ہم' کی بجائے 'ہیں ہم لوگ' کر دیجیے۔
غزل اچھی ہے، ماشاءاللہ۔ پسند آئی۔

ایک اور 'تک بندی' پیشِ خدمت ہے۔ اصلاح کے طالب ہیں۔ محمد تابش صدیقی اور دیگر اساتذہ بھی نظرِ کرم فرمائیں۔

یوں نہ گم صم رہا کیجے
بس سدا خوش رہا کیجے
یہ نقاب اب اٹھا دیجے
ایک محشر بپا کیجے
اِک ذرا مسکرا دیجے
دور سب کا گِلہ کیجے
کیسے ان کو منائیں گے
مضطرب ہیں، دعا کیجے
درد کی 'انتہا' کیا ہے؟
عشق کی 'ابتدا' کیجے
بس! کہ اب ظلم کی حد ہے
بے وفاؤ! وفا کیجے
قتل کرکے وہ کہتے ہیں
غلطی ہوگئی، شما کیجے
اے عبید اس کی یادوں میں
آپ خود کو فنا کیجے
 
ایک اور 'تک بندی' پیشِ خدمت ہے۔ اصلاح کے طالب ہیں۔ محمد تابش صدیقی اور دیگر اساتذہ بھی نظرِ کرم فرمائیں۔

یوں نہ گم صم رہا کیجے
بس سدا خوش رہا کیجے
یہ نقاب اب اٹھا دیجے
ایک محشر بپا کیجے
اِک ذرا مسکرا دیجے
دور سب کا گِلہ کیجے
کیسے ان کو منائیں گے
مضطرب ہیں، دعا کیجے
درد کی 'انتہا' کیا ہے؟
عشق کی 'ابتدا' کیجے
بس! کہ اب ظلم کی حد ہے
بے وفاؤ! وفا کیجے
قتل کرکے وہ کہتے ہیں
غلطی ہوگئی، شما کیجے
اے عبید اس کی یادوں میں
آپ خود کو فنا کیجے
پہلی فرصت میں یہ مغالطہ دور کر لیجیے. استاد تو دور کی بات، میں شاعر بھی نہیں ہوں. یہیں اساتذہ کی آراء سے کچھ سوجھ بوجھ حاصل ہو گئی ہے تو کبھی کبھار شوخی مار لیتا ہوں.
اس کام کے لیے اساتذہ کا ہی انتظار فرمائیں.
دوسری بات یہ کہ تمام کاوشات کو الگ الگ لڑی میں پوسٹ کیا کیجیے. اس طرح اساتذہ کو آسانی رہتی ہے. :)
 
ایک اور 'تک بندی' پیشِ خدمت ہے۔ اصلاح کے طالب ہیں۔ محمد تابش صدیقی اور دیگر اساتذہ بھی نظرِ کرم فرمائیں۔

یوں نہ گم صم رہا کیجے
بس سدا خوش رہا کیجے
یہ نقاب اب اٹھا دیجے
ایک محشر بپا کیجے
اِک ذرا مسکرا دیجے
دور سب کا گِلہ کیجے
کیسے ان کو منائیں گے
مضطرب ہیں، دعا کیجے
درد کی 'انتہا' کیا ہے؟
عشق کی 'ابتدا' کیجے
بس! کہ اب ظلم کی حد ہے
بے وفاؤ! وفا کیجے
قتل کرکے وہ کہتے ہیں
غلطی ہوگئی، شما کیجے
اے عبید اس کی یادوں میں
آپ خود کو فنا کیجے
غزل (فاعلاتُ مفاعیل فعولن ) برائے اصلاح۔
 
پہلی فرصت میں یہ مغالطہ دور کر لیجیے. استاد تو دور کی بات، میں شاعر بھی نہیں ہوں. یہیں اساتذہ کی آراء سے کچھ سوجھ بوجھ حاصل ہو گئی ہے تو کبھی کبھار شوخی مار لیتا ہوں.
اس کام کے لیے اساتذہ کا ہی انتظار فرمائیں.
دوسری بات یہ کہ تمام کاوشات کو الگ الگ لڑی میں پوسٹ کیا کیجیے. اس طرح اساتذہ کو آسانی رہتی ہے. :)

اوکے ہوگیا۔ اب اگر منتقل کرنا چاہوں تو ممکن ہے یا چلنے دیں؟
 

الف عین

لائبریرین
اس کے علاوہ ایک بات یہ ضروری ہے کہ میں نے ابھی دیکھی ہے یہ غزل۔ اور میںشروع کے مراسلوں میں بحر و اوزان کے اعتراجات سمجھ ہی نہیں سکا۔ کہ شاعر نے وہیں ترمیم کر دی تھی!!
بہر حال اس ترمیم کے بعد درست ہے غزل۔
 
اس کے علاوہ ایک بات یہ ضروری ہے کہ میں نے ابھی دیکھی ہے یہ غزل۔ اور میںشروع کے مراسلوں میں بحر و اوزان کے اعتراجات سمجھ ہی نہیں سکا۔ کہ شاعر نے وہیں ترمیم کر دی تھی!!
بہر حال اس ترمیم کے بعد درست ہے غزل۔
بہت شکریہ۔ ان شاء اللہ آیندہ الگ سے تصحیح کیا کروں گا۔ دوسری غزل کے بارے میں میں فکر مند ہوں کہ محترم ریحان قریشی صاحب کی دی گئی اصلاح کچھ میرے ناقص دماغ کے پلے پڑی اور کچھ نہیں۔ فرصت ہوتو دیکھیے گا۔ جزاکم اللہ
 
Top