جاسم محمد
محفلین
ہمارے اربوں روپے جعلی نکلے
15/09/2019 رؤف کلاسرا
تین ستمبر کو وزیر اعظم عمران خان وفاقی کابینہ کے اجلاس کی صدارت کر رہے تھے‘ جس میں وزیر توانائی عمر ایوب اور مشیر ندیم بابر اس نئے آرڈیننس کے بارے میں بریف کر رہے تھے جو بڑے بڑے صنعت کاروں کو تین سو ارب روپے کی معافی کے حوالے سے تھا۔ عمران خان صاحب اس بات پر نا خوش تھے کہ پاکستانی میڈیا میں اس بارے میں منفی خبریں لگ رہی تھیں اور ان خبروں پر پروگرام ہو رہے تھے۔ مشیروں نے کابینہ کو میڈیا کے حوالے سے بتایا کہ جب بھی اچھا کام کرنے لگتے ہیں تو یہ سب لوگ اکٹھے ہو کر ہم پر پل پڑتے ہیں‘ عمران خان صاحب جب سے وزیر اعظم بنے ہیں‘ ان کی میڈیا کے بارے میں رائے اچھی نہیں ہے۔ اس میں ان کا قصور نہیں‘ کیونکہ یہ ہزاروں سال پرانا رواج ہے‘ حکمران سمجھتے ہیں کہ اللہ نے انہیں بادشاہ بنایا ہے اور وہ کسی کو جواب دہ نہیں‘ ان پر جو تنقید کرتے ہیں وہ ریاست اور ملک کے دشمن ہیں۔
خیر بات ہو رہی تھی کابینہ کے اجلاس کی۔ عمران خان حیران ہوئے کہ جو آسان سی بات ہمیں سمجھ آ رہی ہے‘ وہ یہ میڈیا کے لوگ کیوں نہیں سمجھ پا رہے۔ جب ہمیں گھر بیٹھے دو سو ارب روپے سے زائد مل رہے ہیں تو ان لوگوں کو کیا تکلیف ہے۔ عمران خان صاحب نے عمر ایوب اور ندیم بابر کو کہا کہ وہ ٹی وی اینکرز سے مل کر انہیں سمجھائیں کہ یہ تین سو ارب روپے کی معافی اس ملک اور قوم پر کتنا بڑا احسان ہے۔
اجلاس کے اگلے روز عمر ایوب اور ندیم بابر ہم اینکرز کے ساتھ بیٹھے ہمیں ان تین سو ارب روپے کی معافی کے فوائد گنوا رہے تھے۔ دونوں صاحبان قائل تھے کہ اس سے بہتر ڈیل نہیں ہو سکتی تھی‘ جو انہیں مل رہی ہے۔ ”اب عدالتوں میں کون برسوں تک مقدمات لڑے‘‘ وہ ہمیں سمجھاتے رہے۔
محمد مالک، عامر متین اور میں نے کچھ سوالات اٹھائے۔ سب سے اہم سوال یہ ابھرا کہ حکومت کیوں اس نتیجے پر پہنچی کہ یہ تین سو ارب روپے معاف کر دینے چاہئیں؟ دونوں کا ایک ہی جواب تھا: برسوں سے وہ سٹے لے کر بیٹھے ہیں۔
میں نے پوچھا: کیا وزیر اعظم صاحب نے معزز و محترم چیف جسٹس کو خط لکھا کہ جناب ہمارے 450 ارب روپے سٹے کی وجہ سے پھنس گئے ہیں۔ مہربانی فرمائیں تمام کیسز منگوا کر ایک بینچ بنا کر فیصلہ کرا دیں۔ کیا خان صاحب نے قومی اسمبلی میں کوئی ایسی تقریر کی‘ جس میں عدلیہ سے اپیل کی گئی ہو کہ عوام سے جو 450ارب روپے اکٹھے کیے گئے ہیں‘ وہ ہمیں دلوائیں۔ یا جناب وزیر اعظم معزز چیف جسٹس صاحب سے ملنے چلے گئے ہوں اور ان سے درخواست کی ہو کہ مقدمات کو جلد نمٹائیں کیونکہ ہمارے پاس پیسے نہیں ہیں۔ یا پھر اپنے وزیر قانون فروغ نسیم صاحب یا اٹارنی جنرل انور منصور صاحب نے کبھی معزز چیف جسٹس کے سامنے یہ مقدمہ اٹھایا ہو یا صوبائی ایڈووکیٹ جنرل نے صوبائی چیف جسٹس سے کبھی بات کی ہو؟ وہ دونوں چپ رہے۔ مطلب تھا کہ یہ سب کچھ نہیں کیا گیا تھا۔ بار بار ان کا زور اس بات پر تھا کہ اگر ہم نے ان کاروباریوں کو دبایا تو برے نتائج نکلیں گے۔ مطلب تھا کہ وہ طاقتور لوگ ہیں اور عمران خان صاحب کی حکومت بہت کمزور‘ لہٰذا ان سے نہیں لڑ سکتی۔
میں نے کہا: ملک کے تین دفعہ وزیر اعظم رہنے والے نواز شریف کو جیل میں ڈال دیا گیا، ایک اور وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی بھی جیل میں ہیں، مریم نواز جیل میں ہیں، ملک کا ایک سابق صدر جیل میں پڑا ہے، سعد رفیق کو بھی پکڑ لیا گیا، اس وقت لوگ نہ عدالتوں سے ڈرے، نہ یہ ڈر لگا کہ اپوزیشن اکٹھی ہو کر ہمیں تباہ کر دے گی‘ لیکن چند کرپٹ افراد سے آپ لوگ ڈر گئے ہیں؟ میں نے ایک اور سوال داغا: جو حکومت دو سابق وزرائے اعظم، ایک سابق صدر اور درجن بھر سابق وزیروں کو جیل میں ڈال کر بیٹھی ہوئی ہے وہ ہمیں یہ بتا رہی ہے چند کاروباری اس سے زیادہ طاقتور ہیں اور وہ ان سے ڈرتی ہے‘ لہٰذا عوام بھی ڈر کر اپنے تین سو ارب روپے بھول جائیں‘ ورنہ یہ کاروباری ناراض ہو جائیں گے؟
میں نے کہا: چاہیے یہ تھا کہ آپ یہ نان ریکوری کیسز نیب کو بھجواتے۔ ان لوگوں کو گرفتار کرتے جنہوں نے قوم سے 450 ارب روپے اکٹھے کر لیے‘ لیکن حکومت کو دینے کی بجائے اپنی جیب میں ڈال کر بیٹھ گئے اور عدالت سے ایک سٹے لے کر وہ اربوں روپے اپنے کاروبار پر خرچ کر رہے ہیں؟ حکومت یا عوام بینکوں سے ایک روپیہ بھی قرض لیں تو وہ سود ادا کرتے ہیں اور یہ لوگ برسوں سے ہمارے 450 ارب روپے سے اپنا کاروبار چلائے جا رہے ہیں اور ان برسوں میں انہوں نے ہمارے ان اربوں سے مزید اربوں روپے بنا لیے ہوں گے، ان کو آپ سارا سود معاف کر رہے ہیں؟
عمر اور ندیم بابر بولے: ہم کیا کریں کہ عدالتوں نے سٹے دے رکھے ہیں۔
میں نے کہا: لوگوں کی ضمانتیں کینسل ہو سکتی ہیں لیکن آپ چند بڑے سیٹھوں کا سٹے آرڈر کینسل نہیں کرا سکتے؟ تو پھر آپ نے یہ لاء منسٹری میں سینکڑوں لاء افسران کس لیے بھرتی کر رکھے ہیں اگر وہ یہ سٹے لڑنے کی صلاحیت بھی نہیں رکھتے؟ پھر یہ اٹارنی جنرل کیوں تعینات کر رکھا ہے اور وزیر قانون کیوں بنایا گیا ہے؟ سینکڑوں وکلا کا پینل کو کیوں ہر ماہ حکومت پاکستان کے اکائونٹ سے تنخواہیں جا رہی ہیں‘ اگر اتنا سا کام بھی نہیں کیا جا سکتا؟
محمد مالک نے ایک اچھا پوائنٹ اٹھایا کہ وہ سمری جس پر پوری کابینہ نے تین سو ارب روپے معاف کر دیے‘ اس پر تو لکھا ہے کہ وقت کی کمی کی وجہ سے آپ لوگ تین سو ارب روپے کی معافی کی سمری کسی اور وزارت کو کمنٹس کے لیے نہیں بھیج رہے‘ خصوصاً ایف بی آر، وزارت قانون، وزارت خزانہ، اور پلاننگ وغیرہ کو؟ اگر نو سال انتظار کیا تو ایسی کون سی قیامت آ رہی تھی کہ کچھ دن مزید انتظار نہیں کیا جا سکتا تھا؟ سب وزارتوں سے پوچھ لیتے کہ یہ تین سو ارب روپے معاف کیے جا رہے ہیں۔ اتنی جلدی کیوں؟
میں نے عمر ایوب صاحب سے کہا: آپ اچھے بندے ہیں‘ میں آپ کی عزت کرتا ہوں‘ آپ کا خاندان پچاس سالوں سے اقتدار میں ہے‘ آپ کے دادا جنرل ایوب صدر، والد سپیکر اور آپ خود وزیر رہے ہیں، آپ گورننس بھی سمجھتے ہیں‘ لیکن مجھے یہ سمجھائیں کہ پھر کیسے اس سمری پر دستخط کرکے تین سو ارب روپے معاف کر سکتے ہیں‘ جس پر لکھا ہے کہ ہمارے پاس وقت کم ہے‘ لہٰذا کسی وزارت کی رائے نہیں لے رہے، جس نے رائے دینی ہو گی وہ کابینہ اجلاس میں دے گا؟ میں نے کہا: عمر ایوب صاحب‘ ایک بات بتائوں‘ یہ آپ خود ایک ایسا کیس اپنے خلاف تیار کرا رہے ہیں‘ جس سے آپ کی جان نہیں چھوٹے گی۔ میں نے ندیم بابر کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ اس سمری پر ان کے دستخط نہیں ہیں کیونکہ یہ مشیر ہیں۔ منظوری آپ نے دی ہے کل کو آپ سے جوابدہی ہو گی۔ ندیم بابر تو پھر کسی نئی حکومت میں مشیر لگ کر بیٹھ جائیں گے۔
عمر ایوب صاحب ایک لمحے کے لیے خاموش ہو گئے اور پھر بولے: رئوف بھائی آپ کا پوائنٹ نوٹ ہو گیا۔ ندیم بابر بار بار ہمیں بتا رہے تھے کہ دو ہزار پندرہ سے پہلے جو 147 ارب روپے کا جو GIDCکا معاملہ ہے اسے بھول جائیں۔ جب بار بار یہی بات کی تو میں نے کہا: آپ تو ایسے کہہ رہے ہیں جیسے وہ 147 روپے ہوں‘ یہ پورا ایک ارب ڈالر بنتا ہے اور آپ کہتے ہیں بھول جائیں‘ یہ 450 ارب روپے کا فگر کس نے ہمیں دیا؟ حکومت ہی بتا رہی ہے کہ ان کمپنیوں نے ہمارے 450 ارب روپے دینے ہیں۔ لیکن ساتھ یہ کہا جا رہا ہے کہ بہتر ہے ہم بھول جائیں۔ کیوں بھول جائیں؟ یہ عوام کا پیسہ ہے۔
اگلے دن جب پریس ریلیز کے ذریعے آرڈیننس واپس لینے کا فیصلہ کیا گیا تو پھر ہمیں ڈرایا گیا کہ یہ مقدمہ ہم ہار بھی سکتے ہیں۔ یعنی عوام کے اربوں روپے اتنے سستے ہیں کہ کسی کو بھی معاف کیے جا سکتے ہیں اور معاملہ عدالت چلا جائے تو وزیر پہلے سے ہی ہمیں ڈرا دیں کہ عوام سے اکٹھے کیے گئے 450 ارب کے نوٹ ”جعلی‘‘ تھے لہٰذا تم لوگ مقدمہ ہار جائو گے؟ ویسے پوچھنا تھا کہ عوام سے اکٹھے کیے گئے 450 ارب کے نوٹ اتنے سستے اور ”جعلی‘‘ کیوں نکلے ہیں کہ اب وزیروں مشیروں کی فوج مل کر دن رات ہمیں مسلسل ڈرا رہی ہے کہ ہم ایک نالائق جواری کی طرح یہ ساری رقم ہار جائیں گے؟
15/09/2019 رؤف کلاسرا
تین ستمبر کو وزیر اعظم عمران خان وفاقی کابینہ کے اجلاس کی صدارت کر رہے تھے‘ جس میں وزیر توانائی عمر ایوب اور مشیر ندیم بابر اس نئے آرڈیننس کے بارے میں بریف کر رہے تھے جو بڑے بڑے صنعت کاروں کو تین سو ارب روپے کی معافی کے حوالے سے تھا۔ عمران خان صاحب اس بات پر نا خوش تھے کہ پاکستانی میڈیا میں اس بارے میں منفی خبریں لگ رہی تھیں اور ان خبروں پر پروگرام ہو رہے تھے۔ مشیروں نے کابینہ کو میڈیا کے حوالے سے بتایا کہ جب بھی اچھا کام کرنے لگتے ہیں تو یہ سب لوگ اکٹھے ہو کر ہم پر پل پڑتے ہیں‘ عمران خان صاحب جب سے وزیر اعظم بنے ہیں‘ ان کی میڈیا کے بارے میں رائے اچھی نہیں ہے۔ اس میں ان کا قصور نہیں‘ کیونکہ یہ ہزاروں سال پرانا رواج ہے‘ حکمران سمجھتے ہیں کہ اللہ نے انہیں بادشاہ بنایا ہے اور وہ کسی کو جواب دہ نہیں‘ ان پر جو تنقید کرتے ہیں وہ ریاست اور ملک کے دشمن ہیں۔
خیر بات ہو رہی تھی کابینہ کے اجلاس کی۔ عمران خان حیران ہوئے کہ جو آسان سی بات ہمیں سمجھ آ رہی ہے‘ وہ یہ میڈیا کے لوگ کیوں نہیں سمجھ پا رہے۔ جب ہمیں گھر بیٹھے دو سو ارب روپے سے زائد مل رہے ہیں تو ان لوگوں کو کیا تکلیف ہے۔ عمران خان صاحب نے عمر ایوب اور ندیم بابر کو کہا کہ وہ ٹی وی اینکرز سے مل کر انہیں سمجھائیں کہ یہ تین سو ارب روپے کی معافی اس ملک اور قوم پر کتنا بڑا احسان ہے۔
اجلاس کے اگلے روز عمر ایوب اور ندیم بابر ہم اینکرز کے ساتھ بیٹھے ہمیں ان تین سو ارب روپے کی معافی کے فوائد گنوا رہے تھے۔ دونوں صاحبان قائل تھے کہ اس سے بہتر ڈیل نہیں ہو سکتی تھی‘ جو انہیں مل رہی ہے۔ ”اب عدالتوں میں کون برسوں تک مقدمات لڑے‘‘ وہ ہمیں سمجھاتے رہے۔
محمد مالک، عامر متین اور میں نے کچھ سوالات اٹھائے۔ سب سے اہم سوال یہ ابھرا کہ حکومت کیوں اس نتیجے پر پہنچی کہ یہ تین سو ارب روپے معاف کر دینے چاہئیں؟ دونوں کا ایک ہی جواب تھا: برسوں سے وہ سٹے لے کر بیٹھے ہیں۔
میں نے پوچھا: کیا وزیر اعظم صاحب نے معزز و محترم چیف جسٹس کو خط لکھا کہ جناب ہمارے 450 ارب روپے سٹے کی وجہ سے پھنس گئے ہیں۔ مہربانی فرمائیں تمام کیسز منگوا کر ایک بینچ بنا کر فیصلہ کرا دیں۔ کیا خان صاحب نے قومی اسمبلی میں کوئی ایسی تقریر کی‘ جس میں عدلیہ سے اپیل کی گئی ہو کہ عوام سے جو 450ارب روپے اکٹھے کیے گئے ہیں‘ وہ ہمیں دلوائیں۔ یا جناب وزیر اعظم معزز چیف جسٹس صاحب سے ملنے چلے گئے ہوں اور ان سے درخواست کی ہو کہ مقدمات کو جلد نمٹائیں کیونکہ ہمارے پاس پیسے نہیں ہیں۔ یا پھر اپنے وزیر قانون فروغ نسیم صاحب یا اٹارنی جنرل انور منصور صاحب نے کبھی معزز چیف جسٹس کے سامنے یہ مقدمہ اٹھایا ہو یا صوبائی ایڈووکیٹ جنرل نے صوبائی چیف جسٹس سے کبھی بات کی ہو؟ وہ دونوں چپ رہے۔ مطلب تھا کہ یہ سب کچھ نہیں کیا گیا تھا۔ بار بار ان کا زور اس بات پر تھا کہ اگر ہم نے ان کاروباریوں کو دبایا تو برے نتائج نکلیں گے۔ مطلب تھا کہ وہ طاقتور لوگ ہیں اور عمران خان صاحب کی حکومت بہت کمزور‘ لہٰذا ان سے نہیں لڑ سکتی۔
میں نے کہا: ملک کے تین دفعہ وزیر اعظم رہنے والے نواز شریف کو جیل میں ڈال دیا گیا، ایک اور وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی بھی جیل میں ہیں، مریم نواز جیل میں ہیں، ملک کا ایک سابق صدر جیل میں پڑا ہے، سعد رفیق کو بھی پکڑ لیا گیا، اس وقت لوگ نہ عدالتوں سے ڈرے، نہ یہ ڈر لگا کہ اپوزیشن اکٹھی ہو کر ہمیں تباہ کر دے گی‘ لیکن چند کرپٹ افراد سے آپ لوگ ڈر گئے ہیں؟ میں نے ایک اور سوال داغا: جو حکومت دو سابق وزرائے اعظم، ایک سابق صدر اور درجن بھر سابق وزیروں کو جیل میں ڈال کر بیٹھی ہوئی ہے وہ ہمیں یہ بتا رہی ہے چند کاروباری اس سے زیادہ طاقتور ہیں اور وہ ان سے ڈرتی ہے‘ لہٰذا عوام بھی ڈر کر اپنے تین سو ارب روپے بھول جائیں‘ ورنہ یہ کاروباری ناراض ہو جائیں گے؟
میں نے کہا: چاہیے یہ تھا کہ آپ یہ نان ریکوری کیسز نیب کو بھجواتے۔ ان لوگوں کو گرفتار کرتے جنہوں نے قوم سے 450 ارب روپے اکٹھے کر لیے‘ لیکن حکومت کو دینے کی بجائے اپنی جیب میں ڈال کر بیٹھ گئے اور عدالت سے ایک سٹے لے کر وہ اربوں روپے اپنے کاروبار پر خرچ کر رہے ہیں؟ حکومت یا عوام بینکوں سے ایک روپیہ بھی قرض لیں تو وہ سود ادا کرتے ہیں اور یہ لوگ برسوں سے ہمارے 450 ارب روپے سے اپنا کاروبار چلائے جا رہے ہیں اور ان برسوں میں انہوں نے ہمارے ان اربوں سے مزید اربوں روپے بنا لیے ہوں گے، ان کو آپ سارا سود معاف کر رہے ہیں؟
عمر اور ندیم بابر بولے: ہم کیا کریں کہ عدالتوں نے سٹے دے رکھے ہیں۔
میں نے کہا: لوگوں کی ضمانتیں کینسل ہو سکتی ہیں لیکن آپ چند بڑے سیٹھوں کا سٹے آرڈر کینسل نہیں کرا سکتے؟ تو پھر آپ نے یہ لاء منسٹری میں سینکڑوں لاء افسران کس لیے بھرتی کر رکھے ہیں اگر وہ یہ سٹے لڑنے کی صلاحیت بھی نہیں رکھتے؟ پھر یہ اٹارنی جنرل کیوں تعینات کر رکھا ہے اور وزیر قانون کیوں بنایا گیا ہے؟ سینکڑوں وکلا کا پینل کو کیوں ہر ماہ حکومت پاکستان کے اکائونٹ سے تنخواہیں جا رہی ہیں‘ اگر اتنا سا کام بھی نہیں کیا جا سکتا؟
محمد مالک نے ایک اچھا پوائنٹ اٹھایا کہ وہ سمری جس پر پوری کابینہ نے تین سو ارب روپے معاف کر دیے‘ اس پر تو لکھا ہے کہ وقت کی کمی کی وجہ سے آپ لوگ تین سو ارب روپے کی معافی کی سمری کسی اور وزارت کو کمنٹس کے لیے نہیں بھیج رہے‘ خصوصاً ایف بی آر، وزارت قانون، وزارت خزانہ، اور پلاننگ وغیرہ کو؟ اگر نو سال انتظار کیا تو ایسی کون سی قیامت آ رہی تھی کہ کچھ دن مزید انتظار نہیں کیا جا سکتا تھا؟ سب وزارتوں سے پوچھ لیتے کہ یہ تین سو ارب روپے معاف کیے جا رہے ہیں۔ اتنی جلدی کیوں؟
میں نے عمر ایوب صاحب سے کہا: آپ اچھے بندے ہیں‘ میں آپ کی عزت کرتا ہوں‘ آپ کا خاندان پچاس سالوں سے اقتدار میں ہے‘ آپ کے دادا جنرل ایوب صدر، والد سپیکر اور آپ خود وزیر رہے ہیں، آپ گورننس بھی سمجھتے ہیں‘ لیکن مجھے یہ سمجھائیں کہ پھر کیسے اس سمری پر دستخط کرکے تین سو ارب روپے معاف کر سکتے ہیں‘ جس پر لکھا ہے کہ ہمارے پاس وقت کم ہے‘ لہٰذا کسی وزارت کی رائے نہیں لے رہے، جس نے رائے دینی ہو گی وہ کابینہ اجلاس میں دے گا؟ میں نے کہا: عمر ایوب صاحب‘ ایک بات بتائوں‘ یہ آپ خود ایک ایسا کیس اپنے خلاف تیار کرا رہے ہیں‘ جس سے آپ کی جان نہیں چھوٹے گی۔ میں نے ندیم بابر کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ اس سمری پر ان کے دستخط نہیں ہیں کیونکہ یہ مشیر ہیں۔ منظوری آپ نے دی ہے کل کو آپ سے جوابدہی ہو گی۔ ندیم بابر تو پھر کسی نئی حکومت میں مشیر لگ کر بیٹھ جائیں گے۔
عمر ایوب صاحب ایک لمحے کے لیے خاموش ہو گئے اور پھر بولے: رئوف بھائی آپ کا پوائنٹ نوٹ ہو گیا۔ ندیم بابر بار بار ہمیں بتا رہے تھے کہ دو ہزار پندرہ سے پہلے جو 147 ارب روپے کا جو GIDCکا معاملہ ہے اسے بھول جائیں۔ جب بار بار یہی بات کی تو میں نے کہا: آپ تو ایسے کہہ رہے ہیں جیسے وہ 147 روپے ہوں‘ یہ پورا ایک ارب ڈالر بنتا ہے اور آپ کہتے ہیں بھول جائیں‘ یہ 450 ارب روپے کا فگر کس نے ہمیں دیا؟ حکومت ہی بتا رہی ہے کہ ان کمپنیوں نے ہمارے 450 ارب روپے دینے ہیں۔ لیکن ساتھ یہ کہا جا رہا ہے کہ بہتر ہے ہم بھول جائیں۔ کیوں بھول جائیں؟ یہ عوام کا پیسہ ہے۔
اگلے دن جب پریس ریلیز کے ذریعے آرڈیننس واپس لینے کا فیصلہ کیا گیا تو پھر ہمیں ڈرایا گیا کہ یہ مقدمہ ہم ہار بھی سکتے ہیں۔ یعنی عوام کے اربوں روپے اتنے سستے ہیں کہ کسی کو بھی معاف کیے جا سکتے ہیں اور معاملہ عدالت چلا جائے تو وزیر پہلے سے ہی ہمیں ڈرا دیں کہ عوام سے اکٹھے کیے گئے 450 ارب کے نوٹ ”جعلی‘‘ تھے لہٰذا تم لوگ مقدمہ ہار جائو گے؟ ویسے پوچھنا تھا کہ عوام سے اکٹھے کیے گئے 450 ارب کے نوٹ اتنے سستے اور ”جعلی‘‘ کیوں نکلے ہیں کہ اب وزیروں مشیروں کی فوج مل کر دن رات ہمیں مسلسل ڈرا رہی ہے کہ ہم ایک نالائق جواری کی طرح یہ ساری رقم ہار جائیں گے؟