ذوالقرنین
لائبریرین
(گذشتہ سے پیوستہ)
سو کتابیں ماہرین علوم و فنون سے پڑھنے کے بعد تجھے جو علم حاصل ہوگا، اس سے وہ سبق بہتر ہے جو کسی بزرگ کے فیضان صحبت سے لیا جائے، بزرگوں کی نظر سے جو شراب ٹپکتی ہے اس سے ہر شخص اپنے مخصوص انداز میں مست و سرشار ہوتا ہے۔ صبح کی ہوا جب چلتی ہے تو چراغ گل ہو جاتا ہے مگر اسی ہوا سے لالہ اپنے پیالے میں شراب انڈیل دیتا ہے۔ (سرخ ہو کر دمکنے لگتا ہے)،(اگر اہل نظر کی ہدایت چاہتا ہے تو) کم کھا، کم سو اور بولنا بھی کم کردے، پرکار کی طرح خود اپنی شخصیت کے گرد چکر کاٹتا رہ (تمام تر توجہ اپنی خودی پر مبذول کردے) ملا کے نزدیک خدا کا منکر کافر ہے اور میرے نزدیک جو اپنی خودی کا منکر ہو زیادہ بڑا کافر ہے۔ خدا کے وجود سے انکار کرنے والا تو صرف حد درجہ جلد بازی کا مجرم ٹھہرے گا مگر جس نے خودی سے انکار کر دیا وہ تو حد درجہ جلد باز بھی ہے اور بڑا ظالم اور بڑا جاہل بھی۔ اخلاص کا طریقہ بڑی مضبوطی سے اختیار کر، بادشاہوں اور امیروں کا خوف دل سے نکال دے، قہر ہو یا رضا، دونوں صورتوں میں عدل کو ہاتھ سے نہ جانے دے۔ مفلسی اور امیری، دونوں حالتوں میں اعتدال پر قائم رہ۔ اگر کسی حکم کی تعمیل مشکل ہے تو اس کے لیے تاویلیں تلاش نہ کر، اپنے ضمیر کی روشنی کے سوا کسی اور قندیل کی روشنی کا جویا نہ ہو، جانوں کا تحفظ مسلسل و بے حساب ذکر و فکر سے کام لیا جائے، زمین و آسمان پر حکومت کرنے کی بس یہی صورت ہے کہ جان اور جسم کی حفاظت مذکورہ بالا اصول پر کی جائے۔ سفر کا مقصود تو یہ ہوتا ہے کہ گھومنے پھرنے کی لذت حاصل ہو، اگر تیری نظر اڑتے وقت بھی اپنے آشیانہ پر لگی ہوئی ہے تو پرواز ہی کیوں کرتا ہے؟ (سکون چاہتا ہے تو ترقی کا نام نہ لے) چاند اس لیے گردش میں ہے کہ اپنا مقام حاصل کر لے (ہلال سے بدر ہو جائے) مگر آدمی کے سفر کی منزل مقصود تو یہی ہے کہ وہ برابر چلتا رہے (ایک مقام سے دوسرے مقام کا سلسلہ لامتناہی جاری رہے) پرواز میں جو لذت ہے اسی کا نام زندگی ہے، کسی آشیانے میں قیام کرکے بیٹھ جانا انسان کی فطرت کے لیے سازگار نہیں، کووں اور گدھوں کا رزق قبروں کے اندر ہوتا ہے مگر بازوں کا رزق چاند اور سورج کی فضاؤں میں ہے۔
سو کتابیں ماہرین علوم و فنون سے پڑھنے کے بعد تجھے جو علم حاصل ہوگا، اس سے وہ سبق بہتر ہے جو کسی بزرگ کے فیضان صحبت سے لیا جائے، بزرگوں کی نظر سے جو شراب ٹپکتی ہے اس سے ہر شخص اپنے مخصوص انداز میں مست و سرشار ہوتا ہے۔ صبح کی ہوا جب چلتی ہے تو چراغ گل ہو جاتا ہے مگر اسی ہوا سے لالہ اپنے پیالے میں شراب انڈیل دیتا ہے۔ (سرخ ہو کر دمکنے لگتا ہے)،(اگر اہل نظر کی ہدایت چاہتا ہے تو) کم کھا، کم سو اور بولنا بھی کم کردے، پرکار کی طرح خود اپنی شخصیت کے گرد چکر کاٹتا رہ (تمام تر توجہ اپنی خودی پر مبذول کردے) ملا کے نزدیک خدا کا منکر کافر ہے اور میرے نزدیک جو اپنی خودی کا منکر ہو زیادہ بڑا کافر ہے۔ خدا کے وجود سے انکار کرنے والا تو صرف حد درجہ جلد بازی کا مجرم ٹھہرے گا مگر جس نے خودی سے انکار کر دیا وہ تو حد درجہ جلد باز بھی ہے اور بڑا ظالم اور بڑا جاہل بھی۔ اخلاص کا طریقہ بڑی مضبوطی سے اختیار کر، بادشاہوں اور امیروں کا خوف دل سے نکال دے، قہر ہو یا رضا، دونوں صورتوں میں عدل کو ہاتھ سے نہ جانے دے۔ مفلسی اور امیری، دونوں حالتوں میں اعتدال پر قائم رہ۔ اگر کسی حکم کی تعمیل مشکل ہے تو اس کے لیے تاویلیں تلاش نہ کر، اپنے ضمیر کی روشنی کے سوا کسی اور قندیل کی روشنی کا جویا نہ ہو، جانوں کا تحفظ مسلسل و بے حساب ذکر و فکر سے کام لیا جائے، زمین و آسمان پر حکومت کرنے کی بس یہی صورت ہے کہ جان اور جسم کی حفاظت مذکورہ بالا اصول پر کی جائے۔ سفر کا مقصود تو یہ ہوتا ہے کہ گھومنے پھرنے کی لذت حاصل ہو، اگر تیری نظر اڑتے وقت بھی اپنے آشیانہ پر لگی ہوئی ہے تو پرواز ہی کیوں کرتا ہے؟ (سکون چاہتا ہے تو ترقی کا نام نہ لے) چاند اس لیے گردش میں ہے کہ اپنا مقام حاصل کر لے (ہلال سے بدر ہو جائے) مگر آدمی کے سفر کی منزل مقصود تو یہی ہے کہ وہ برابر چلتا رہے (ایک مقام سے دوسرے مقام کا سلسلہ لامتناہی جاری رہے) پرواز میں جو لذت ہے اسی کا نام زندگی ہے، کسی آشیانے میں قیام کرکے بیٹھ جانا انسان کی فطرت کے لیے سازگار نہیں، کووں اور گدھوں کا رزق قبروں کے اندر ہوتا ہے مگر بازوں کا رزق چاند اور سورج کی فضاؤں میں ہے۔
××××××
(جاری ہے)